تبلیغِ دین میں رسول اللہ ﷺ کی حکمتِ عملیاں(دوسری اور آخری قسط)

باتیں میرے حضور کی

تبلیغِ دین میں رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکمتِ عملیاں(دوسری اور آخری قسط)

)Strategic Methods of Propagation(


صبر و استقامت؛ رسول  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعوتی حکمت کا ستون:

دعوتِ دین کی راہ میں مشکلات، انکار، استہزا، ظلم اور مزاحمت ایک عام سا معاملہ ہے، مگر جو داعی صبر و استقامت سے کام لیتا ہے، وہی اپنے مشن میں کامیاب ہوتا ہے۔ رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ صبر و استقامت کی بےمثال داستان ہے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ صرف خود ظلم برداشت کیا، بلکہ اپنے متبعین کو بھی حوصلہ دیا کہ وہ دین کی راہ میں ثابت قدم رہیں۔ صبر، درحقیقت، دعوت کی روح ہے، اور استقامت اس کا دل۔ اگر رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم جلد بازی کرتے یا مکہ کے ظلم سے گھبرا کر دعوت کا مشن ترک کر دیتے تو دینِ اسلام کا نور عالمگیر نہ ہوتا۔

قراٰنِ مجید میں  اللہ  تعالیٰ نے متعدد مواقع پر صبر کی تلقین کی اور اسے انبیا کی سنت قرار دیا:

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ

ترجَمۂ کنز الایمان : تم صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا  ۔([1])

یہ حکم رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس وقت دیا گیا جب کفارِ مکہ کی طرف سے ظلم و ستم کی شدت بڑھ رہی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صبر نہ صرف اخلاقی صفت ہے، بلکہ نبوی دعوت کا ایک بنیادی جز بھی ہے۔

مکہ مکرمہ کے ابتدائی تیرہ سال کا دور رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور صحابہ کے لیے سخت آزمائشوں کا تھا۔ حضرت خباب بن ارت  رضی  اللہ  عنہ  کو دہکتے انگاروں پر لٹایا گیا، حضرت بلال  رضی  اللہ  عنہ  کو گرم ریت پر گھسیٹا گیا، اور حضرت سمیہ و حضرت یاسر  رضی  اللہ  عنہ ما کو شہید کیا گیا۔ لیکن رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سب کو صبر کی تلقین کی۔ طائف کا واقعہ صبر کی ایک انتہائی بلندی کی مثال ہے، جب آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پتھر مار کر لہولہان کر دیا گیا، مگرآپ نے  بددعا کے بجائے ہدایت کی دعا کی۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا کی: ”اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُون“ یعنی اے  اللہ ! میری قوم کو معاف كر دے، کیونکہ وہ جانتے نہیں۔ ([2])

دین کی دعوت میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ مبلغ فوری نتائج کی امید نہ رکھے، بلکہ وہ مسلسل، تدریجی اور پرامن جدوجہد کو اپنائے۔  سخت لہجے، طنز یا ردعمل کے  بجائے دلائل، نرم گفتاری اور ثابت قدمی سے اپنا مشن جاری رکھے۔ موجودہ دور میں بھی جب اسلاموفوبیا، الحاد یا معاشرتی مزاحمت کا سامنا ہو تو داعی کو رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت سے سیکھ کر صبر و استقامت کی روش اپنانی چاہیے، جیسا کہ سورۂ فُصِّلَت میں فرمایا گیا:

وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ

ترجَمۂ کنز الایمان : اور نیکی اور بدی برابر نہ ہوجائیں گی اے سُننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال۔([3])

رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت یہ سکھاتی ہے کہ صبر صرف ظلم سہنے کا نام نہیں، بلکہ اپنے موقف پر استقامت کے ساتھ قائم رہنا اور باطل کے سامنے ڈٹے رہنا بھی صبر ہے۔ چنانچہ تبلیغی مشن کی کامیابی کے لیے صبر و استقامت بنیادی روح   ہیں۔

نرمیِ زبان اور لہجے میں اعتدال: رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تبلیغی حکمتِ عملی:

تبلیغِ دین کی راہ میں لازمی طور پر اختیار کی جانے والی حکمتِ عملیوں میں سے ایک زبان کی نرمی اور لہجے کا اعتدال بھی ہے۔ یہ ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جس نے رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیغام کو دلوں میں اتارا۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعوتی زندگی میں نرمی، شگفتگی اور دلسوزی نمایاں اوصاف تھے، جنہوں نے سخت دل دشمنوں کو بھی متأثر کیا۔ زبان کی سختی اور لہجے کی تُندی دلوں کو دور کرتی ہے، جب کہ نرمی دلوں میں محبت پیدا کرتی اور قبولیت کا دَر کھولتی ہے۔

ایک دیہاتی مسجد نبوی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں پیشاب کرنے لگا، صحابۂ کرام نے اسے روکنے کی کوشش کی، تو رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:” لَا تُزْرِمُوهُ دَعُوهُ یعنی اسے مت روکو، اسے چھوڑ دو۔ جب وہ فارغ ہو گیا تو آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پانی منگوایا اور صفائی کروائی، پھر نرمی سے اسے سمجھایا کہ یہ  اللہ  کا گھر ہے، یہاں ایسی چیز جائز نہیں۔([4])

نیکی کی دعوت میں عملی تطبیق یہ ہے کہ آج کا مبلغ اپنے الفاظ اور اندازِ گفتگو پر کڑی نظر رکھے۔ بہت دفعہ سخت لہجے میں کی گئی  اہم  بات  بھی رد ہوجاتی ہے جبکہ  نرمی سے کہی گئی معمولی بات بھی دل میں گھر کر جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے علم کے باوجود محض سختی اور تحقیر آمیز انداز کی وجہ سے لوگوں کے ہاں مقبولیت نہیں پاتے، جب کہ رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے برعکس حکمت، شفقت اور خوش اخلاقی کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اپنے پیغام کے لیے جگہ بنائی۔

نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:” اِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ اِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ اِلَّا شَانَهُ یعنی نرمی جس چیز میں ہوتی ہے، اسے زینت بخشتی ہے اور جس سے نکال دی جائے، اسے بدصورت بنا دیتی ہے۔([5])یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نرمی کوئی کمزوری نہیں بلکہ جمال ہے، دعوتِ دین کے حسن کا اہم ترین عنصر ہے۔

آج جب معاشرہ اختلافات، تعصب اور نفرت کا شکار ہے، تو ایک مبلغ کے لیے لازمی ہے کہ وہ زبان اور لہجے کی نرمی کو اپنائے۔ سیرتِ رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کا عملی ماڈل ہے، جس میں نہ صرف بات کا اثر تھا بلکہ دلوں کو مسخر کر لینے والی مٹھاس بھی۔

 مخاطب کی ذہنی سطح کا لحاظ:

تبلیغِ دین کے مؤثر انداز میں سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ مبلغ، مخاطب کے فکری، علمی اور ذہنی پس منظر کو سمجھے۔ رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت ہمیں اس اصول کی کامل مثال فراہم کرتی ہے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہر فرد، قوم یا قبیلے کو اس کے مزاج، علمی درجے اور ذہنی افق کے مطابق دعوت دی۔ اس حکمتِ عملی کی تبلیغی اہمیت اس میں ہے کہ بات مخاطب کی فہم کے دائرے میں آتی ہے تو قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وہ راز ہے جسے قراٰنِ کریم نے یوں بیان کیا:

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ

ترجَمۂ کنز الایمان : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر (سے) ([6])

یہاں ”حکمت“ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ ہر بات اس کی جگہ، وقت اور سمجھنے والے کی استعداد کے مطابق کہی جائے۔

رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیبہ میں اس حکمتِ عملی کی بےشمار مثالیں ہیں۔ جیسا کہ ایک نوجوان نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آ کر زنا کی اجازت طلب کرتا ہے۔ صحابۂ کرام اسے جھڑکنے لگے لیکن رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے قریب بلایا، نرمی سے سوالات کیے:کیا تو یہ اپنی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کے لیے پسند کرے گا؟ نوجوان نے ہر بار نہیں کہا، تو آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:تو بھی دوسروں کے لیے وہی پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔([7])یہ اسلوب نفسیاتی اور ذہنی درجہ فہم کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیار کیا گیا۔

یہ حکمتِ عملی آج کے دور میں بھی نہایت مؤثر ہے۔ اگر مبلغ کسی نوجوان سے گفتگو کر رہا ہو تو اس کے رجحانات اور سوالات کو سمجھے بغیر کوئی بات دل میں نہیں اترے گی۔ اسی طرح کسی دانشور، سائنس دان یا عام مزدور سے یکساں انداز میں بات کرنا حکمت سے خالی ہے۔ ہر فرد سے اُس کی عقل، تربیت اور سماجی حیثیت کے مطابق بات کرنا ہی نبوی طرزِ دعوت ہے۔

انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے دعوت:

تبلیغِ دین کا بنیادی مقصد صرف پیغام پہنچانا نہیں بلکہ دلوں کو قائل کرنا اور فکروں کو بدلنا ہے۔ اس کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی ”انفرادی دعوت“  ہے، رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابتدا میں دینِ اسلام کی دعوت اپنے قریبی افراد کو دی۔ سب سے پہلے حضرت خدیجہ  رضی  اللہ  عنہ ا، حضرت علی  رضی  اللہ  عنہ ، حضرت زید  رضی  اللہ  عنہ  اور حضرت ابوبکر صدیق  رضی  اللہ  عنہ  کو انفرادی طور پر ایمان کی دعوت دی، اور سب نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسلام قبول کیا، حضرت ابوبکر  رضی  اللہ  عنہ  خود بھی انفرادی دعوت کے ماہر بن گئے اور ان کی دعوت سے حضرت عثمان  رضی  اللہ  عنہ ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی  اللہ  عنہ م جیسے بڑے صحابۂ کرام اسلام میں داخل ہوئے۔

موسمِ حج کے موقع پر رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم منیٰ اور عرفات میں قبیلوں کے خیموں میں جاتے، ان کے سرداروں سے اکیلے ملتے اور دینِ اسلام کی دعوت پیش کرتے۔ حضرت ربیعہ بن عباد  رضی  اللہ  عنہ  بیان کرتے ہیں: میں نے رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ وہ قبیلہ قریش کے سرداروں کے پاس جا کر کہتے: اے بنی فلاں! میں  اللہ  کا رسول ہوں، تمہیں  اللہ  کی طرف بلاتا ہوں۔([8])

جب طائف کے سرداروں نے اجتماعی طور پر رد کیا، تو نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے طائف کے تین بڑے اشراف سے فرداً فرداً بات کی۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اجتماعی دعوت کا ماحول سازگار نہ ہو تو انفرادی طور پر دلوں میں راہ تلاش کی جائے۔

نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دارِ ارقم کو مرکز بنا کر وہاں ایک ایک فرد کو تربیت دی۔ حضرت مصعب بن عمیر  رضی  اللہ  عنہ ، حضرت خباب  رضی  اللہ  عنہ ، حضرت عمار  رضی  اللہ  عنہ ، حضرت صہیب  رضی  اللہ  عنہ  جیسے افراد انفرادی دعوت کے نتیجے میں ایمان لائے۔

آج کے دور میں انفرادی دعوت کا طریقہ اسکول، دفاتر، اسپتال، سوشل میڈیا اور ذاتی ملاقاتوں میں مؤثر انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دعوت کا یہ طریقہ خاص طور پر اُن افراد کے لیے مفید ہے جو معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کھلے عام حق بات سننے یا تسلیم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ انفرادی دعوت میں مبلغ کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ سامع کی ذاتی کیفیت، ذہنی سطح اور دلچسپیوں کو مدِنظر رکھ کر پیغام دے، جیسا کہ رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیا۔

صفحات کا دامن اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ ہم رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبلِّغانہ حکمتِ عملیاں مزید لکھ سکیں،  اللہ  رب العزّت ہمیں رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکیمانہ تعلیمات پر عمل کرنے اور ان حکمتِ عملیوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])پ26،الاحقاف: 35

([2])بخاری،2/468،حدیث: 3477

([3])پ24،فصلت: 34

([4])مسلم ،ص133،حدیث:661

([5])مسلم ،ص1073،حدیث : 6602

([6])پ14،النحل: 125

([7])مسند احمد،8/285، حدیث:22274

([8])دیکھیے:مسندامام احمد،5/424، حدیث:16025


Share