آخری نبی محمد عربی ﷺ ایک عظیم نفسیات شناس

سائیکالوجی کی تاریخ اتنی ہی پُرانی ہے، جتنا خُود انسان، البتہ سب سے پہلے اسے باقاعدہ بطورِ عِلْم یونان کے مشہور فلاسفر ارسطور نے متعارف کروایا۔ اسے ہی سائیکالوجی کاپہلا بانی کہاجاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں علوم کی طرح سائیکالوجی بھی انبیائے کرام  علیہمُ السّلام کے دریائے عِلْم میں سے ایک قطرہ ہے۔ انبیائے کرام  علیہمُ السّلام کے دُنیا میں آنے کا بنیادی مقصد ہی رُوح، نفس، ذات اور معاشرے کی اِصْلاح ہے، انبیائے کرام  علیہمُ السّلام نے جس حُسْن و خوبی سے لوگوں کے دِل و دِماغ،رُوح اور نفس کی اِصْلاح فرمائی اور اس کے جتنے دَیْر پا اَثرات معاشرے پر ثبت فرمائے ہیں، ایسے نتائج لوگوں کی سائیکالوجیکل حالت سمجھے بغیر ممکن ہی نہیں۔ آخری نبی، حضرت محمد  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہم گروہِ انبیاء کو حکم دیا گیا کہ ہم لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کریں۔([1])(غور فرمائیے! سامنے والے کی سائیکالوجیکل حالت جانے بغیر اس کی عقل کے مطابق بات کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟)

پہلے نبیوں پر نازِل ہونے والے صحیفوں کی ایسی عبارات بھی ہمیں ملتی ہیں جو جدید سائیکالوجی کے لئے بہترین راہنما کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاًSelf Enhancement & Management کے لیے یہ نایاب اقتباس (Quotation) دیکھئے! حضرت وہب بن منبہ  رحمۃُ  اللہ  علیہ  فرماتے ہیں: عقلمند کو چاہیے کہ 4 گھڑیوں سےکبھی غافِل نہ ہو (یعنی اپنی ڈیلی روٹین میں یہ چار گھڑیاں لازمی شامِل کرے): (1)سَاعَةٍ يُنَاجِي فِيهَا رَبَّه یعنی وہ گھڑی کہ اس میں اپنے ربّ سے مناجات کرے (2)وَسَاعَةٍ يُحَاسِبُ فِيهَا نَفْسَه یعنی وہ گھڑی کہ اس میں خود کا جائزہ لے (3)وَسَاعَةٍ يَخْلُو فِيهَا مَعَ اِخْوَانِهِ الَّذِينَ يُخْبِرُونَهُ بِعُيُوبِهِ یعنی ایک گھڑی وہ کہ اس میں دوستوں کے پاس بیٹھےتاکہ وہ اسے اس کے عیب بتائیں (4)وَسَاعَةٍ يَخْلُو فِيهَا بَيْنَ نَفْسِهِ وَبَيْنَ لَذَّاتِهَا فِيمَا يَحِلُّ یعنی چوتھی گھڑی وہ کہ اس میں صِرْف خود کو وقت دے، اپنے نفس کی جائز خواہشات پوری کرے۔([2])

 اَلحمدُلِلّٰہ ! ہمارے پیارے نبی، حضرت محمد  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نبیوں کے سردار ہیں،  اللہ  پاک نے آپ کو اگلوں پچھلوں کے عُلُوم عطا فرمائے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم دیگر عُلُوم کی طرح عِلْمِ نفسیات کے بھی صِرْف ماہِر ہی نہیں بلکہ ہادِی و راہنما ہیں۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دُنیا میں تشریف لانے سے پہلے اوربعد کے مُعَاشرے کا سائیکالوجیکل مطالعہ کیجئے! کس طرح آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مردہ قوم کو زِندہ کر دیا، کیسے ذات پات میں بٹے ہوؤں کو اخُوَّت و بھائی چارے کے رشتے میں باندھ دیا، وہی لوگ کہ جن کے غضبناک جذبات کا نتیجہ سالہا سال کی جنگوں کی شکل میں نکلتا تھا، انہیں عدل و اِنْصاف کا پیکر بنایا، وہ جن کا مقصد صِرْف کمانا، کھانا اور لڑنا تھا، انہیں عالمگیر مقصد (Universal Vision) عطا فرما دیا۔

وہ دانائے سُبُل،خَتْمِ رُسُل، مولائے کُل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا

وضاحت: یعنی وہ حق کی راہیں جاننے والے، سب کے آقا، آخری نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم جنہوں نے ذَرَّوں کو وادیِ سِیْنا جیسی بلندی عطا فرما دی۔

یقیناً یہ انقلاب، معاشرے کی یہ نئی تشکیل، رُوح کی تازگی، انسان کی تعمیرِ نَو لوگوں کی نفسیات سے واقفیت اور اس کی رعایت کے بغیر بظاہِر ممکن نہیں ہے۔ بےشک ہمارے پیارے نبی، حضرت محمد  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم دوسروں کی نفسیات پہچاننے میں انتہائی ماہِر اور جدید سائیکالوجی کے لئے بہترین ہادِی و راہنما ہیں۔ بطورِ ماہِرِ نفسیات آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت پر مختلف پہلوؤں سے غور کیا جا سکتا ہے، البتہ آج ہم سیرتِ مصطفےٰ کے صِرْف ایک پہلو نفسیاتی معالجہ (Psychotherapy) پر گفتگو کریں گے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کا سائیکالوجیکل ٹریٹمنٹ کس انداز سے کیا کرتے تھے، اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے!

(1)سائیکالوجیکل چیک اپ:پیارے نبی، رسولِ ہاشمی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیبہ کا ایک خوبصُورت پہلو ہے کہ آپ خواب کو بہت اہمیت دیتے تھے، صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان کے خواب سُننا اور ان کی تعبیر بتانا آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معمولات کا حِصّہ تھا۔ حضرت سَمُرہ بن جُنْدُب  رضی  اللہ  عنہ فرماتے ہیں: رسولِ اکرم، نورِ مجسم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نمازِ فجر کے بعد ہماری جانِب رُخ کرتے اور فرماتے: کس نے رات خواب دیکھا ہے؟ جس نے خواب دیکھا ہوتا وہ بیان کر دیتا تھا۔([3])

اس ادائے نبوی کی یقیناً بہت حکمتیں ہوں گی، البتہ اس میں ایک سائیکالوجیکل پہلو بھی ہے،جدید سائیکالوجی کا ماننا ہے کہ کسی فرد کی سائیکالوجیکل کنڈیشن کا پُورا اِنْحصار اس کے لاشُعور پر ہے، یہ لاشُعُور کا کوئی الجھاؤ ہی ہوتا ہے جو کسی نفسیاتی مرض کی صُورت میں اُبھر کر سامنے آتا ہے اور کسی کے بھی لاشُعُور کو جانچنے کے لیے خواب کی تحلیل (Dream Analysis) ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ ایک ماہِرِ نفسیات کہتا ہے:

Dreams Are roads that leads to unconsciousness

یعنی  خواب ایسی شاہراہیں ہیں جو لاشُعُور میں جاتی ہیں۔

شاید اسی حقیقت کے پیش نظر خوابوں کو لاشُعُور کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ بہر حال! کسی کی سائیکالوجیکل حالت کا اندازہ لگانے کا ایک بہترین طریقہ ہے کہ اس کے خواب سنیں، ان کو پرکھیں اور ان کی تعبیر نِکالیں، سامنے والے کی سائیکالوجیکل کنڈیشن واضِح ہو جائے گی۔

(2)انتقالیت (Transference): جدید سائیکالوجی میں یہ ایک طریقۂ عِلاج ہے، اسے 1890ء میں دریافت کیا گیا، انتقالیت کا معنی ہے: ڈھلنا۔ اس نفسیاتی طریقۂ علاج میں مُعالِج سامنے والے کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ پیدا کرتا ہے، مثلاً خود کو سامنے والے کے لئے ایک والِد کے درجے پر اُتار لیتا ہے، اس کے دِل میں ایسی ہی محبّت اُبھارتا ہے جو ایک بیٹے کو اپنے والِد کے ساتھ ہوتی ہے، پھراسی جذباتی لگاؤ کے ذریعے سامنے والے کی سائیکالوجیکل حالت تبدیل کر کے اسے مثبت بنا دیتا ہے۔

آخری نبی، محمد عربی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پاکیزہ زندگی میں اس انداز سے اِصْلاح کرنے کی بہت مثالیں ملتی ہیں:

٭حضرت ابوہریرہ  رضی  اللہ  عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ایک اعرابی بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا، اس نے آپ سے مدد چاہی، آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی مدد کی، اسے کچھ عطا فرمایا، پھر پوچھا: میں نے تم سے بھلائی کی؟ اعرابی بولا: نہیں، نہ آپ نے بھلائی کی، نہ اچھے طریقے سے پیش آئے۔ صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان کو اس کی اس گستاخی پر غصہ آیا، بعض اس کی طرف لپکے مگر پیارے نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں منع فرما دیا۔ کچھ دَیْر بعدآپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر تشریف لے گئے تو اس اعرابی کو بھی اپنے گھر بُلا لیا، اس کے ساتھ باتیں کیں، پھر اسے اور بھی کچھ عطا فرمایا، پھر پوچھا: کیا میں نے تم سے بھلائی کی؟ اعرابی بولا: جی ہاں!  اللہ  پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان کے سامنے اظہار فرمایا کہ اَعْرابی نے اپنے جملوں سے رجوع کر لیا ہے اور اب یہ ہم سے خوش ہے۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مزید فرمایا:میری اور اس اعرابی کی مثال اس شخص جیسی ہے، جس کا اُونٹ اس سے بھاگ گیا ہو، لوگ اُونٹ کو پکڑنے کے لئے دوڑے مگر اُونٹ ان سے خوف زدہ ہو کر مزید دُور بھاگا، اُونٹ والا بولا: لوگو! مجھے اور میرے اُونٹ کو اکیلا چھوڑ دو! میں اس پر زیادہ نرم ہوں، اسے زیادہ جانتا ہوں۔ پھر اس نے اچھے طریقے سے اُونٹ کو اپنی طرف بُلایا تو اُونٹ گردن جھکائے آگیا۔([4])

٭مروی ہے کہ ایک نوجوان رسول  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوااور عرض کرنے لگا:یارسولَ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم! مجھے زنا کی اجازت دیجئے۔یہ سنتے ہی صحابَۂ کرام  علیہمُ الرّضوان جلال میں آ گئے اور اسے مارنا چاہا۔رسول  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اسے نہ مارو!پھر اسے اپنے پاس بلا کر بٹھایا اور نہایت نرمی اور شفقت کے ساتھ سوال کیا: اے نوجوان!کیا تجھے پسند ہے کہ کوئی تیری ماں سے ایسا فعل کرے؟اس نے عرض کی:میں اس کو کیسے روا رکھ سکتا ہوں؟ فرمایا: تو پھر دوسرے لوگ تیرے بارے میں اسے کیسے روا رکھ سکتے ہیں؟پھر آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا:تیری بیٹی سے اگر اس طرح کیا جائے تو تُو اسے پسند کرے گا؟عرض کی نہیں۔ فرمایا:اگر تیری بہن سے کوئی ایسی حرکت کرے تو؟اور اگر تیری خالہ سے کرے تو؟ اسی طرح آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایک رشتے کے بارے میں سوال فرمایا، وہ یہی کہتا رہا کہ مجھے پسند نہیں۔ تب رسول  اللہ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر  اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا کی:یا الٰہی!اس کے دل کو پاک کر دے اور اس کا گناہ بخش دے۔اس کے بعد وہ نوجوان ساری زندگی زناسے بیزار رہا۔([5])

دیکھئے! پیارے نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ماہِر استاد کی طرح اس شخص کے لاشُعُور کو کریدا اور اسی کی زبانی اس سے اقرار کروا لِیا کہ وہ جس کام کا ارادہ رکھتا ہے، وہ کام خُود اس کے نزدیک بھی اچھا نہیں، بُرا ہے۔ بس اس کا لاشُعُور ابھرنے کی دَیر تھی، اس کا منفی رویہ خُود ہی مثبت ہو گیا، آخر میں آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شانِ نبوت کا جلوہ دِکھایا، اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دِل روشن کر دیا۔

بقیہ اگلے  شمارے میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ بیانات دعوت اسلامی المدینۃ العلمیہ فیصل آباد



([1]) الضعفاء الکبیر،الجز ء الرابع،ص 1534،حدیث:2057

([2])محاسبۃ النفس لابن ابی دنیا، ص 30،رقم:12،شاملہ

([3])بخاری،1 / 467، حدیث:1386

([4])مجمع الزوائد،8/575،حدیث:14193

([5])مسند احمد،8/285، حدیث:22274


Share