صحابۂ کرام کے منظوم نذرانے
سچا مسلمان بننے کے لیے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت ضروری ہے ۔ اس محبت کا اظہار کرنے کا انداز ہر کسی کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ کوئی اپنے محبوب آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام پر جان قربان کرکے محبت ظاہر کرتا ہے تو کوئی ان کے نام پر اپنا گھر بار، مال و اولاد فدا کرکے اظہارِ محبت کرتا ہے۔ کوئی نامِ محمد سن کر اپنے انگوٹھے چوم کر محبت ظاہر کرتا ہے تو کوئی نعتِ رسولِ مقبول لکھ کر یا پڑھ کر عشقِ رسول کے جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔
اظہارِ محبت ِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ مختلف انداز صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے مبارک زمانے میں بھی پائے جاتے تھے۔ یہ مقدس ہستیاں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنی محبت کبھی نثر میں ظاہر کرتیں تو کبھی نظم کی صورت میں ۔
آئیے!بارگاہِ رسالت میں صحابۂ کرام کے منظوم نذرانۂ عقیدت کی کچھ جھلکیاں دیکھ کر اپنے دلوں میں عشقِ رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ :
نعت خواں حضرات کے مقدس قافلے کے سالار اور میرِکارواں ،عظیم صحابیِ رسول ، نعت گو و نعت خواں حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔آپ کی خوش نصیبی اور مقدر کی یاوری کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے:
ام المؤمنین حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا سے روایت ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھواتے تھے جس پر کھڑے ہوکر وہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف سے فخر کرتے یا(کفار کے اعتراضات) دور کرتے تھے۔ اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے تھے :
اللہ پاک جبریلِ امین کے ذریعے حسان کی مدد فرماجب تک وہ اللہ کے رسول کی طرف سے فخر کرتے ہیں یا اعتراضات دور کرتے ہیں۔ ([1])
میری عزت ان کے لیے ڈھال ہے:
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نعتیہ قصائد میں سے ایک قصیدے کے منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیے:
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَاجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ
تم نے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہجو(برائی کی ) تو میں نے ان کی طرف سے جواب دیا،اور اس کی اصل جزا تو اللہ پاک کے ہی پاس ہے۔
هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا حَنِيفًا
رَسُولَ اللَّهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ
تم نے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہجو(برائی کی) جو نیکو کار اور باطل سے اعراض کرنے والے ہیں،وہ اللہ کے رسول ہیں اور وفا کرنا ان کی خصلت ہے،
فَانَّ اَبِي وَوَالِدَتِی وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ
بلاشبہ میرے ماں باپ اور میری عزت،تم سے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عزت بچانے کے لیے ڈھال ہے۔
وَقَالَ اللَّهُ قَدْ اَرْسَلْتُ عَبْدًا
يَقُولُ الْحَقَّ لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ
اللہ پاک فرماتا ہے: میں نے ایک بندے کو رسول بناکر بھیجا ہے،جو حق بات کہتا ہے اور اس میں کوئی پوشیدگی نہیں ہے۔([2])
میں بھی عدل و انصاف کرتا ہوں:
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک بار نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ اشعار سنائے:
شَهِدْتُّ بِاِذْنِ اللهِ اَنَّ مُحَمَّدا
رَسُوْلُ الَّذِي فَوْقَ السَّمَاوَاتِ مِنْ عَلُ
اللہ پاک کی اجازت سے میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس ہستی کے رسول ہیں جس کی بادشاہت آسمانوں کے اوپر ہے اور وہ بلند و بالا ہے،
وَاَنَّ اَبَا يَحْيٰى وَ يَحْيٰى كِلَاهُمَا
لَه عَمَل في دينه مُتَقَبَّلُ
اور یہ کہ حضرت ابویحیٰ (زکریا) اور حضرت یحییٰ ( علیہما السلام ) کے عمل ہمارے دین میں بھی مقبول ہیں۔
وَاَنَّ اَخَا الْاَحْقَافِ اِذَا قَامَ فِيْهِمْ
يَقُولُ بِذَاتِ الله فيهم ويَعْدِلُ
اور یہ کہ قومِ احقاف کے بھائی(حضرت ہود علیہ السلام) جب ان کے درمیان کھڑے ہوتے تو انہیں اللہ کی طرف بلاتے اور عدل و انصاف سے کام لیتے۔
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اور میں(بھی اللہ کی طرف بلاتا،عدل و انصاف کرتا ہوں)۔ ([3])
خوش نصیب بچیاں:
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےجب اللہ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو اہلِ مدینہ آپ کے استقبال کے لیے اپنے گھروں سے باہر آگئےاس وقت مدینۂ پاک کی چھوٹی چھوٹی بچیوں نے آپ کے استقبال میں یوں نذرانۂ نعت پیش کیا:
|
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا |
|
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعِ |
|
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا |
|
مَا دَعَا لِلہِ دَاع |
ہم پر چودہویں کا چاند ثَنِیَّات الْوَدَاعِ (یعنی وداع کی گھاٹیوں) کی طرف سے طلوع ہوا۔ ہم پر شکر واجب ہے کہ آپ نے ہمیں اللہ کی طرف دعوتِ حق دی ۔([4])
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ ٔمنورہ میں ایک جگہ سے گزرے تو چند لڑکیاں یہ نعتیہ شعر پڑھ رہی تھیں :
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِي النَّجَّارِ
يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ
ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے پڑوسی ہیں۔
نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
اَللَّهُ يَعْلَمُ اِنِّيْ لَاُحِبُّكُنَّ یعنی اللہ پاک جانتا ہے کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔([5])
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان بچیوں کے لیے یہ دعاکی:
اَللّٰهُمَّ بَارِكْ فِيْهِنَّ یعنی اے اللہ ! انہیں برکت عطا فرما۔([6])
امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان بچیوں کے پاس گئے اور فرمایا: أَتُحِبُّونِي؟کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟
انہوں نے عرض کیا: اِي وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ،جی ہاں، یارسول اللہ ! اللہ کی قسم! آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اَنا وَاللهِ اُحِبُّكُمْ، وَاَنَا وَاللهِ احبكم، انا وَاللهِ اُحِبُّكُمْ” اللہ کی قسم! میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں، اور اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں، اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں!“ ([7])
نعتیہ قصیدہ سن کر چادر عطا فرمائی:
سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کعب بن زُہیر رضی اﷲ عنہ کا خون ان کے زمانہ ٔنصرانیت میں(اسلام قبول کرنے سے پہلے) مباح فرمادیا ۔ ان کے بھائی بجیربن زہیر رضی اﷲ عنہ نے انہیں لکھا:فطر الیہ فانہ لا یرد من جاء تائبا یعنی ان کی بارگاہ میں اُڑ کر آؤ ، جو ان کے سامنے معافی مانگتا حاضر ہو یہ اسے کبھی رد نہیں فرماتے۔
اسی بنا پر حضرت کعب رضی اﷲ عنہ جب حاضر ہوئے، راستے میں قصیدۂ نعتیہ’’ بَانَت سُعاد‘‘ نظم کیا جس میں عرض کرتے ہیں:
اُنْبِئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲ ِاَوْعَدَنِیْ
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲ ِمَاْمُوْلُ
فَقَدْ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اﷲ ِ مُعْتَذِرًا
وَالْعُذْرُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲ ِ مَقْبُوْلُ
مجھے خبر پہنچی ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے لیے سزا کا حکم فرمایا ہے اور رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہاں معافی کی امید کی جاتی ہے۔ میں رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں معذرت کرتا حاضر ہوا ہوں ، اور ان کی بارگاہ میں عذر قبول کیا جاتا ہے۔([8])
حضرت کعب رضی اللہ عنہ جب اس شعر پر پہنچے :
اِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْر یُسْتَضَاءُ بِہٖ
مُھَنَّد مِّنْ سُیُوفِ اللّٰہِ مَسْلُوْلُ
بیشک رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایسے نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے، وہ اللہ پاک کی تلواروں میں سے ایک بےنیام ہندی تلوار ہیں۔
تو رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مبارک چادر انہیں عطا فرمائی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دس ہزار درہم میں وہ چادر حاصل کرنا چاہی لیکن حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چادر کے لیے میں کسی کو اپنی ذات پر ترجیح نہیں دیتا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیس ہزار درہم میں وہ چادر ان کے وُرَثاء سے حاصل کی۔([9])
شعر میں ترمیم کروائی:
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قصید ۂ نعتیہ میں عرض کیا :
انَّ الرَّسُوْلَ لَنَارٌ یُسْتَضَاءُ بِہ
وَصَارِمٌ مِّنْ سُیُوفِ الْھِنْدِ مَسْلُولُ
ارشاد ہوا:’’ نار‘‘ کی جگہ’’ نُورٌ‘‘ کہو اور سُیُوفِ الْھِنْد کی جگہ سُیُوفِ اللہ ۔([10])
یہ مبارک قصیدہ 48 اشعار پر مشتمل ہے۔([11])
اللہ پاک ان نعت گو، نعت خواں صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور مدینۂ منورہ کی حقیقی مدنی منیوں کے صدقے ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو مرتے دم تک اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح و ثنا كی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ پیغاماتِ عطار المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments