تربیتِ اولاد کے مصطفوی اصول

تربیت اولاد کے مصطفوی اصول

اولاد کی تربیت کی اہمیت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ تربیت ہی انسان کی شخصیت کو نکھارتی، معاشرے کا مفید انسان بناتی ہے، تربیت سیکھے ہوئے علم کو عمل میں لانے اور درست سمت میں استعمال کا طریقہ سکھاتی ہے۔ تربیت یافتہ اولاد ہی دین و ملت کا بہترین سرمایہ بنتی ہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے اپنی اولاد کی دینی و دنیوی تربیت کو ہرگز نظر انداز نہ کریں۔

بچے اور بچیاں  اللہ  کریم کا انمول تحفہ ہیں،اس لیے اُن سے بد سلوکی ہرگز اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ چوں کہ بچپن میں تو  اللہ  پاک کے یہاں بھی ان کے’’گناہ‘‘ شمار نہیں ہوتے لہٰذا بچے اگر جان بوجھ کر بھی کوئی ناپسندیدہ کام کر ڈالیں،قیمتی چیز کو نقصان پہنچا دیں تو بھی اُنھیں مارنے کی ضرورت نہیں بلکہ اُنھیں نرمی سے سمجھایا جائے اور ناپسندیدہ باتوں سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب حکیمانہ انداز میں دی جائے۔

نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت بحیثیت مربی:نبی پاک  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ اقدس معلمِ اعظم ہے اور اسی پر آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ([1])

تاریخ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معلمانہ طرز،مربیانہ اندازِ فکر و نظر پر آج بھی حیران ہے۔ہمارے نبیِ پاک  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایسے معلمِ اعظم ہیں کہ جہالت کے اندھیروں میں کھوئے ہوئے لوگ ہدایت کے چمکتے دمکتے روشن ستارے بن گئے ۔

رسولِ پاک  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی اپنے بچے کو ادب کی تعلیم دے اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ ایک صاع خیرات کرے۔([2])یعنی اپنی اولاد کو ایک اچھی بات سکھانا خیرات کرنے سے افضل ہے۔([3])

اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ  رضی  اللہ  عنہ  کا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل پکتا تو لوگ اسے رسول الله  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں لایا کرتے، آپ اس پر یہ دعا کرتے: اے  اللہ ! ہمارے لیے ہمارے مدینے میں،ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مُد اور صاع میں برکت دے ۔اس کے بعد جو بچے حاضرِ خدمت ہوا کرتے ان میں سب سے چھوٹے کو وہ پھل عنایت فرمادیتے۔([4])

تعلیم و تربیت کا آغاز بچپن سے:بچوں کی تعلیم و تربیت کا آغاز ان کی ولادت سے پہلے ہی ہو جاتا ہے یعنی زمانۂ حمل کے دوران ماں کے عقائد ونظریات، افعال و کردار کا اثر اس کے پیدا ہونے والے بچے پر پڑتا ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ رضاعت طبیعت کو بدل دیتی ہے۔([5])

 اس لیے ماں کو چاہیے اس دور میں خاص طور پر نمازوں ذکر و اذکار اور تلاوتِ قراٰن کا اہتمام کرے ہر وقت گناہوں سے بچے بالخصوص اس زمانہ میں گناہ و نافرمانی سے خود کو بچائے کہ اس کے منفی اثرات سے بچہ متأثر نہ ہو، ولادت کے بعد بچپن ہی سے مرحلہ وار بچے کے اندر اسلامی عقائد و نظریات کو پختہ کیا جائے، نماز کی پابندی کا ذہن دیا جائے بلکہ اپنے ساتھ نماز پڑھوائی جائے، پیارے آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بچوں کو نماز کا حکم دو جب سات سال کے ہو جائیں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو۔([6])

سات آٹھ برس کی عمر میں بچے اچھے اور بُرے کے درمیان تمیز کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کسی ایسے بچے کو غلط حرکت کرتا دیکھتے تو اُسے پیار، شفقت اور اچھے انداز میں سمجھاتے تھے۔ اُن کو بتاتے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔یہ نہیں کہ اُنھیں ڈانٹتے ڈپٹتے یا دوسروں کے سامنے ذلیل کرتے۔

 عملی نمونہ پیش کرنا: ماں باپ جو اپنی اولاد کی دینی، دنیاوی، روحانی اور اخلاقی تربیت کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہیےکہ اچھی عادات و اچھے اخلاق اپنائیں کیونکہ بچے نصیحت اور باتوں سے اتنا نہیں سیکھتے جتنا وہ اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں اگر والدین خود اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں گے تو ان کو دیکھ کر بچوں میں بھی دینی شعور بیدار ہو گا۔

 دینی تعلیم و اخلاقی تربیت:آپ کی اولاد صرف آپ کے بچے ہی نہیں بلکہ  اللہ  کریم کے بندے اور امتِ مصطفیٰ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے افراد ہیں، امتِ مسلمہ کا قیمتی سرمایہ ہیں،قوم کی طاقت ہیں اس لیے والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ ان بچوں کو اپنے فرائض منصبی سے آگاہ کریں، ان کے اندر دینی روح پھونکیں۔اس کے لیے دین کی بنیادی تعلیم دینا نہایت ضروری ہے۔لہٰذا بچے کی ذہنی سطح کے مطابق توحید و رسالت اور دیگر بنیادی عقائد کو دل و دماغ میں پختہ کیا جائے جن کے ماننے سے ایک انسان صحیح العقیدہ عاشقِ رسول مومن بنتا ہے اس کے ساتھ ساتھ آدابِ زندگی سکھانے اور اخلاق و کردار کو سنوارنے پر مکمل توجہ دینی چاہیے چنانچہ اس سلسلے میں آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت مبارکہ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے۔

حضرت عُمر بن ابی سلمہ   رضی  اللہ  عنہ ما  کہتے ہیں: میں جب چھوٹا تھا تو رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔ رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے لڑکے!  اللہ  کا نام لو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ۔([7])

بچوں سے محبت و شفقت:بچوں سے محبت و شفقت نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خاص وصف رہا ہے۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب  رضی  اللہ  عنہ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت حسن بن علی   رضی  اللہ  عنہ ما  کو اپنے کندھوں پر بٹھایا ہوا ہے اور آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما رہے ہیں: اے  اللہ ! میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔  ([8])

محبت، شفقت و نرمی اولاد کا بنیادی حق ہے۔ حضور سید عالم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچوں پر بہت ہی شفیق تھے بچوں کو سلام میں پہل کرتے،ان کو گلے لگاتے، منہ چومتے، پیار سے سونگھتے ان کی نرمی و محبت سے تربیت فرماتے،لہٰذا اس سلسلے میں نبیِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت  پیار، محبت و نرمی سے کی جائے ورنہ بے جا سختی اور وقت بے وقت کی ڈانٹ ڈپٹ بچوں کو ڈھیٹ و نافرمان بنا دیتی ہے۔سب کے سامنے ڈانٹ کر سمجھانا بچوں کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے۔ بچوں کی تربیت ان کی عمر اور ذہنی سطح کے اعتبار سے مرحلہ وار کی جائے جیسے جیسے بچوں کی عمر بڑھتی جائے ویسے ہی ان کی تربیت کا معیار بھی بڑھتا جائے۔

بچوں کی تربیت میں ان کی نفسیات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے حکمتِ عملی کے ساتھ ان کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے عمدہ کام کرنے پر حوصلہ افزائی کر کے مزید آگے بڑھایا جائے غیر شرعی و نا مناسب کاموں پر نرمی سے منع کرتے ہوئے ایسے کاموں کی برائی بتائی اور سمجھائی جائے۔ گھر میں تلاوتِ قراٰن، درود شریف اور ذکر اذکار بچوں کے سامنے کریں بچوں کو ان عبادتوں کی عملی ترغیب ملے گی۔

الغرض یہ کہ والدین بچوں کو  اللہ  کریم کا فرمانبردار بندہ، نبیِ پاک  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وفادار امتی اور خاندان و معاشرے کا مفید انسان بنانے میں اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کریں تاکہ دین و ملت کو بامقصد، با اخلاق و با کردار افراد مہیا کر سکیں کہ نیک اولاد بہترین صدقہ جاریہ ہے۔

اس کے لیے قراٰنی دعاؤں سے بھی راہنمائی حاصل کیجیے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں ہے:( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ(۴۰) رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۠(۴۱))ترجَمۂ کنزالایمان: اے میرے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب اور میری دعا سن لے اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا۔([9])

بچوں کی حفاظت اور عمدہ تعلیم و تربیت کے لیے عملی اقدامات کے ساتھ دعا سے ہرگز غفلت نہ برتیں ان کے نیک و صالح ہونے کی دعا بھی لازمی کرتے رہیں۔

 تربیت ِاولاد میں ماں کا کردار:تربیتِ اولاد کی زیادہ ذمہ داری ماں پر آتی ہے کہ بچے کا اکثر وقت ماں کے ساتھ ہی گزرتا ہے عموماً وہی بچے کو اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا کھانا پینا سکھاتی ہے لہٰذا ابتدا ہی سے بچے کو یہ سب امور سنت کے مطابق کرنے کی عملی طور پر ترغیب دلاتی رہے۔

ماں کو چاہیے اپنے بچوں کو  اللہ  کریم کی محبت و معرفت سکھائے ارد گرد موجود چیزوں کے متعلق بتائے کہ انہیں  اللہ  کریم نے ہمارے استعمال کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ اپنی مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے دنیا کی سب سے بڑی طاقت  اللہ  کریم کی محبت اور رسول پاک  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عشق ہے اسی لیے ایک مسلمان والدہ کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو کامل مومن بنائے اور تکمیلِ ایمان کے لیے محبتِ مصطفیٰ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم شرط ہے لہٰذا بچپن ہی سے عشقِ رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اولاد کے سینوں میں بسا دے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہ دے سکے۔

اسی لیے نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اپنی اولاد کو تین باتوں کی تعلیم دو:(1)اپنے نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت (2)اپنے نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اہلِ بیت کی محبت اور (3)قراٰن کی تلاوت۔([10])

مائیں بچوں کو سنائیں کہ صحابَۂ کرام   رضی  اللہ  عنہم اجمعین نے تعداد کی کمی کے باوجود دشمنانِ اسلام کے سامنے کس قدر شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا، ان کے ننھے منے دل و دماغ میں اسلام کی حقانیت کا ایسا سکہ جما دیں کہ وہ زندگی کے ہر موڑ پر اسلام کی خاطر مر مٹنے کے لیے تیار رہیں۔

تربیت کرنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ خود بھی سیرتُ النبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مطالعہ کریں اور بچوں کو بھی سیرت کی کتب خرید کر دیں ان کے سامنے پڑھیں اور سیرتِ مصطفٰی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے واقعات و معجزات بچوں کے سامنے کہانی کی صورت میں بیان کریں۔

اس لیے تمام والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ وقتاً فوقتاً سیرت نبوی کا مطالعہ کرتے رہیں،تاکہ اُن پر یہ واضح ہوسکے کہ نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بچوں کے ساتھ کس قسم کا انداز رکھا،اور پھر اس کی روشنی میں وہ بچوں کی صلاح و فلاح کے لیے راستے ہموار کریں۔

 اللہ  پاک والدین کو تربیتِ اولاد کے اس فریضے کو اَحسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز



([1])مشکاۃ المصابیح، 1/67، حدیث:257

([2])ترمذی،3/382،حدیث: 1958

([3])مراٰۃ المناجیح،6/564

([4])مسلم ، ص547، حدیث: 3334ملتقطاً

([5])جامع صغیر،ص277،رقم:4525

([6])ابو داود، 1/208، حدیث:494

([7])بخاری،3/70، حدیث:5376

([8])مسلم،ص1013، حدیث: 6259

([9])پ13، ابرٰھیم:40، 41

([10])جامع صغیر، ص25 ، رقم:311


Share