(1)چیز بیچنے کا وعدہ کرنے کے بعد نہ بیچنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنے دوست سےیوں طے کیا کہ میں آپ کو دس دن بعد بائیک بیچوں گا۔ ابھی صرف معاہدہ ہی ہوا تھا، قیمت میں سے کچھ بھی میں نے وصول نہیں کیا تھا۔ کچھ دنوں بعد قیمتوں میں 25 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے اب میرا بیچنے کا ارادہ نہیں ہے کیونکہ اب مجھے نقصان ہوگا۔ وقتِ معاہدہ میرا ارادہ پختہ تھا کہ میں بیچوں گا لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ قیمتیں اتنی بڑھ جائیں گی۔ جب کہ وہ دوست خریدنے پر بضد ہے کیونکہ اگر وہ مارکیٹ ریٹ پر خریدتا ہے تو اسے بائیک 125000 میں خریدنی پڑے گی جب کہ اگر وہ مجھ سے لیتا ہے تو میرے کئے ہوئے وعدے کے مطابق اسے 100000 میں پڑے گی۔آپ راہنمائی فرمائیں کہ یہ جو میں نے وعدہ بیع کیا تھا شرعاًاس سے پھرنا کیسا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: مستقبل کے کلمات کا استعمال کرتے ہوئے یوں کہنا کہ میں یہ چیز تمہیں بیچوں گا،یا فلاں چیز میں خریدوں گا۔ یہ حقیقۃً بیع نہیں ہے بلکہ وعدۂ بیع ہے۔کیونکہ قوانینِ شرعیہ کے مطابق انشاءِ بیع کے لیے ضروری ہے کہ عاقدین میں سے ہر ایک یا تو ماضی کا لفظ استعمال کرے مثلاً بیچا، خریدا۔ یا عاقدین دونوں ہی حال کے لفظ استعمال کریں، مثلاً بیچتا ہوں، خریدتا ہوں۔ یا ایک ماضی کا اور دوسرا حال کا مثلاً بیچا،خریدتا ہوں۔ اگر کسی نے مستقبل کے صیغوں کا استعمال کیا جن سے عرف میں انشاءِ عقد کا ارادہ نہ کیا جاتا ہو تو اب یہ معاہدہ عقدُ البیع نہ ہوگا۔چونکہ وعدے کے وقت آپ کا ارادہ مکمل کرنے کا تھا اور ہونا بھی ایسا چاہئے کہ شریعتِ مطہرہ وعدوں کو پورا کرنا پسند فرماتی ہے۔ لیکن نقصان سے بچنے کے لیے اب آپ اس وعدے کو پورا نہیں کرنا چاہ رہے، لہٰذا آپ گنہگار بھی نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- -)
ترجَمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو اپنے قول (عہد) پورے کرو۔
(پ6، المآئدۃ:1)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: ”دونوں کے الفاظ ماضی ہوں جیسے خریدا بیچا یا دونوں حال ہوں جیسے خریدتا ہوں بیچتا ہوں یا ایک ماضی اور ایک حال ہو مثلاً ایک نے کہا بیچتا ہوں دوسرے نے کہا خریدا۔ مستقبل کے صیغہ سے بیع نہیں ہوسکتی دونوں کے لفظ مستقبل کے ہوں یا ایک کا مثلاً خریدونگابیچوں گا کہ مستقبل کالفظ آئندہ عقد صادر کرنے کے ارادہ پر دلالت کرتاہے فی الحال عقد کا اثبات نہیں کرتا۔“(بہار شریعت، 2/618)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”خلف وعدہ جس کی تین صورتیں ہیں اگر وعدہ سرے سے صرف زبانی بطور دنیا سازی کیا اور اسی وقت دل میں تھا کہ وفا نہ کریں گے توبے ضرورت شرعی و حالت مجبوری سخت گناہ وحرام ہے ایسے ہی خلاف وعدہ کو حدیث میں علامات نفاق سے شمار کیا۔۔۔اور اگر وعدہ سچے دل سے کیا پھر کوئی عذر مقبول و سبب معقول پیدا ہوا تو وفا نہ کرنے میں کچھ حرج کیا، ادنیٰ کراہت بھی نہیں جبکہ اس عذر و مصلحت کو اس وفائے وعدہ کی خوبی و فضیلت پر ترجیح ہو۔۔۔ اور اگر کوئی عذر و مصلحت نہیں بلاوجہ نسبت چھڑائی جاتی ہے تو یہ صورت مکروہ تنزیہی ہے۔۔۔ یہ بات اس تقدیر پر بےجا و خلافِ مروت ہے، مگر حرام و گناہ نہیں، حضور سیدالعالمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم فرماتے ہیں: ”لیس الخلف ان یعد الرجل ومن نیتہ ان یفی ولکن الخلف ان یعد الرجل ومن نیتہ ان لایفی یعنی وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اس وعدہ کو پورا کرنے کی ہو،بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت وعدہ پورا کرنے کی نہ ہو۔“(فتاویٰ رضویہ، 12/281تا283 ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
گھر کی قسطیں مکمل ہونے سے پہلےآگے کرایہ پر دینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید،بکر سے ایک گھر پندرہ لاکھ روپے میں قسطوں پر خریدنا چاہتا ہے جس میں سے دس لاکھ روپے زید بوقتِ خریداری ادا کر دےگا اور پانچ لاکھ روپے ایک طے شدہ مدت میں قسط وار ادا کرے گا،دس لاکھ روپے ادا کرنے کے بعد زید وہ گھر اپنے قبضے میں لے کر کرائے پر دے دے گا اور اس سے حاصل ہونے والے کرائے سے بکر کو گھر کی بقیہ قیمت قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا میرا سوال یہ ہے کہ کیا زید کا گھر کی مکمل قسطیں ادا کرنے سے پہلے گھر کرائے پر دینا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں مکمل قسطیں ادا کیے بغیر بھی زید کا مذکورہ گھر کو کرائے پر دینا جائز ہے۔
اس مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عقد بیع فقط درست ایجاب وقبول(Offer And Acceptance)کے ذریعے منعقد ہو جاتی ہے،جس کے بعد خریدار مبیع (Goods) کا اور بیچنے والا ثمن(Price) کا مالک ہو جاتا ہے۔پھر ثمن کی ادائیگی کبھی نقد کی جاتی ہےاور کبھی ادھار قسطوں کی صورت میں کی جاتی ہے،ثمن کی ادائیگی نقد کی جائے یا قسط وار بہر دو صورت بیع درست ہوتی ہے،اور مشتری مبیع کا مالک بن جاتا ہے۔جب خریداری مکمل طور پر ادھار پر ہو یا کچھ رقم ادھار ہو تو بیچنے والے کو رقم ملنے سے قبل چیز روکنے کا اختیار بھی نہیں ہوتا۔لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب زید، بکر سے مذکورہ گھر خرید لے گا، باہمی ایجاب و قبول ہوجائے گا، تو زید گھر کا مالک ہوجائے گا، گھر پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اس گھر کو کرایہ پر دے سکتا ہے، اگرچہ اس خریداری میں قیمت قسط وار ادا کرنا طے پایا ہو۔
بیع کا حکم بیان کرتےہوئے بہارِ شریعت میں ہے:”بیع کا حکم یہ ہے کہ مشتری مبیع کا مالک ہو جائے اور بائع ثمن کا۔“(بہارشریعت، 2/617)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل
سنت،
دارالافتاء
اہل سنت
نورالعرفان،
کھارادر
کراچی
Comments