چھوٹی بچیوں پر حضور ﷺ کی شفقتیں

چھوٹی بچیوں پر حضورﷺ کی شفقتیں

آقا کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے لیے رحمت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے ہیں، آپ کی تشریف آوری سے دورِ جاہلیت کے  کثیر غلط رواج آپ کے صدقے ختم ہوگئے۔ آقا کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دریائے رحمت سے ناصرف بڑوں نے حصہ پایا بلکہ بچیوں کو بھی حصہ ملا۔ آپ اپنی شہزادیوں کی طرح خاندان کی اور صحابَۂ کرام    رضی  اللہ  عنہم کی بچیوں سے بھی بہت محبت فرماتے، وقتاً فوقتاً بچیوں کو تحفے عطا فرماتے اور ان کو دعاؤں سے بھی نوازتے جیساکہ حضرت اُمِّ خالد    رضی  اللہ  عنہا   سے مروی ہے کہ رسولُ  الله  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس کپڑے آئے جن میں ایک سیاہ چادر تھی، آپ نے فرمایا: تمہاری کیا رائے ہے، یہ چادر ہم کس کو پہنائیں؟ پس صحابَۂ کرام    رضی  اللہ  عنہم خاموش رہے، آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے پاس اُمِّ خالد کو لاؤ، پس مجھے نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھ سے مجھے وہ چادر پہنائی اور دو مرتبہ فرمایا: تم اس کو بوسیدہ کرو اور پرانا کرو، پھر آپ اس چادر کے نقش و نگار کی طرف دیکھنے لگے اور ہاتھ سے میری طرف اشارہ کرکے فرمار ہے تھے: اُمِّ خالد یہ بہت عمدہ ہے۔([1]) یاد رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت اُمِّ خالد چھوٹی بچی تھیں۔([2])نیز یتیم بچیوں کی دل جوئی فرماتے اور ان کو بھی تحائف عطا فرماتے اور ان کی پرورش بھی فرمایا کرتے جیسے حضرت اسعد بن زرارہ  رضی  اللہ  عنہ  کے انتقال کے بعد ان کی یتیم بچیوں کی شفقت و محبت سے پرورش فرمائی، آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان بچیوں کو سونے کی خوبصورت بالیاں پہنائیں جن میں قیمتی موتی لگے ہوئے تھے([3]) اسی طرح حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ننھی نواسی حضرت اُمامہ    رضی  اللہ  عنہا   سے بھی بے حد پیار فرماتے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہی ان کی پرورش فرمائی۔ ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہدیہ پیش کیا گیا جس میں ایک قیمتی ہار بھی تھا آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ میں اسے دوں گا جو مجھے بہت پیارا ہے۔ پھر آپ نے حضرت اُمامہ    رضی  اللہ  عنہا   کے گلے میں پہنا دیا۔([4])اسی طرح بچیوں کو محبت سے پکارتے تھے حضرت اُمِّ سلمہ    رضی  اللہ  عنہا   جب حضورِ اقدس  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح مبارک میں آئیں تو ان کی ایک بیٹی زینب دودھ پیتی تھیں، رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لاتے تو بڑی محبت سے پوچھتے: زُناب کہاں ہے؟ زُناب کہاں ہے؟([5])

حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم مکہ سے جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو بنونجار کی چھوٹی بچیاں خوشی اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے قصیدہ پڑھنے لگیں:

نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ

يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارِ

یعنی ہم بنو نجار کی لڑکیاں ہیں اور حضرت محمد  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے کتنے ہی اچھے ہمسائے ہیں۔

آقا کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ  پاک جانتا ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں۔([6])

آقا کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی سے ملنے والے درس:

٭بچیوں کی تربیت خوب شفقت و نرمی کے ساتھ کی جائے ان پر اپنا مال خرچ کیا جائے ان کی ضروریات کو اَحسن انداز سے پورا کیا جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

٭اگر کبھی کوئی بات ناگوار گزرے تو جھاڑ جھپٹ کی جگہ بہتر انداز اختیار کیا جائے، یا خاموشی اختیار کرکے احساس دلایا جائے۔

٭بچیوں کو آخرت پر توجہ دلائی جائے، نماز روزے، لباس و پردے کے شرعی احکام سکھانے کا اہتمام کیا جائے۔

٭بچیوں کو دنیا کی ذلت نہیں بلکہ آخرت کی عزت جانیں، ان کی شادی سے قبل بھی احسن سلوک کریں اور بعد شادی بھی احسن انداز اختیار کریں۔ ایسا نہ ہو کہ رخصت کرکے بھول گئے بلکہ ان کے پاس جائیں تو کبھی ان کو بلائیں۔ آنا جانا رکھیں، بعد شادی بھی ان کی ضرویات کا خیال رکھیں، کچھ اچھا پکائیں یا گھر لائیں تو ان کو بھی اپنی استطاعت کے مطابق بھیجیں، ان کی حاجت کا علم ہو تو پیش کریں، بیمار ہوں تو عیادت کو جائیں، نیز جب بیٹیاں ملاقات کے لیے گھر آئیں تو محبت سے خوش آمدید کہیں اور تحفے بھی ہو سکے تو پیش کریں۔

٭اگر بعد شادی بھی بیٹی کے ہاں کوئی پریشانی آ جائے مثلاً بیوہ ہوجائے یا طلاق تو اس کو بوجھ نہ سمجھیں بلکہ تب بھی احسن انداز اختیار فرمائیں، طعن و تشنیع نہ فرمائیں کہ نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا میں تم کو بہترین صدقہ پر رہبری نہ کروں، تمہاری وہ بیٹی جو تم تک لوٹا دی جائے، تمہارے سوا اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔([7])یعنی تمہاری وہ بیٹی جس کا خاوند فوت ہوگیا یا پاگل دیوانہ ہوگیا یا گم ہوگیا یا اس نے طلاق دے دی مگر لڑکی کسی مجبوری کی وجہ سے دوسرا نکاح نہیں کرسکتی یا اسے اچھا رشتہ ملتا نہیں اس لیے مجبوراً وہ میکے میں آگئی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،اس کی پرورش کرنا بہترین صدقہ ہے کہ وہ اب بے آس ہوکر تمہارے سہارے پر تمہارے پاس آئی۔([8])

الحاصل:

حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بچیوں سے محبت، عزت اور شفقت نہ صرف ایک اخلاقی عمل ہے بلکہ نجات کا ذریعہ بھی ہے۔آج کے معاشرے کو چاہیے حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کو نمونہ بنا کر بچیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو فروغ دے۔ سیرتِ مصطفےٰ میں بچیوں کے لیے محبت کی وہ روشنی ہے جو ہر دور میں مشعلِ راہ ہے۔

 اللہ  پاک ہمیں سمجھ بوجھ عطا فرمائے کہ ہم اپنی بچیوں کے ساتھ احسن سلوک کریں۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ گرلز



([1])بخاری، 4/63، حدیث: 5845

([2])دیکھئے: بخاری، 2 / 581، حدیث: 3874

([3])دیکھئے:طبقات ابن سعد، 8/349

([4])مسند احمد، 41/232، حدیث:24704

([5])سنن كبرىٰ للنسائی، 5/294، حدیث: 8926

([6])ابن ماجہ، 2/439، حدیث:1899

([7])ابن ماجہ،4/188،حدیث:3667

([8])مراٰۃ المناجیح،6/584


Share