آخری نبی محمد عربی ﷺ کا دیہاتیوں کے ساتھ اندازِ کرم نوازی

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا دیہاتیوں کے ساتھ اندازِ کرم نوازی

 اللہ  پاک کےآخری نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کےاندازِ کرم کےکیا کہنےکہ آپ کی شانِ کریمی توہرمخلوق کو نوازتی ہے،دکھ دور کرکے سُکھ عطاکرتی ہے یوں مخلوقِ خدا دامنِ کرم میں آ کر راحت اور چین و آرام محسوس کرتی ہے۔

کریم آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی دیہاتیوں پربہت کرم نوازیاں رہی ہیں،آئیے!اُن میں سے چند احادیث پڑھتے ہیں:

(1)دیہاتی کی التجا پر اندازِ دعا:حضور ِاکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے عہدِمبارک میں لوگ سخت قحط کی لپیٹ میں آ گئے ایک دفعہ آپ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھےکہ ایک دیہاتی کھڑا ہوکرعرض گزار ہوا: یارسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! مال ہلاک ہوگیا اور بچے بھوکے مر گئے۔  اللہ  پاک سے دعا فرمائیں کہ ہم پر بارش برسائے۔ حضرت انس رضی  اللہ  عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھادئیے۔ اُس وقت آسمان میں کوئی بادل نہیں تھے لیکن (آپ کے ہاتھ اُٹھاتے ہی) اُسی وقت پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ ابھی منبر سے نیچے تشریف نہیں لائے تھے کہ بارش کے قطرے آپ کی ریش مبارک سے ٹپکتے ہوئے دیکھےگئے۔ اُس روز، اُس سے اگلے روز بلکہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی اعرابی یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا: یارسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! مکانات گرگئے اور مال غرق ہو گیا،  اللہ  سے ہمارے لیے دعا فرمائیں (کہ بارش رُک جائے)۔ حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فوری ہاتھ بلند فرمائے اور دعا فرمائی: اے  اللہ ! ہمارے اِردگرد بارش برسا اور ہمارے اُوپر نہیں۔پس آپ اپنےمبارک ہاتھ سے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کرتے اُدھر سے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منوّرہ تھالی کی طرح ہو گیا کہ اُس کے گرد و نواح میں بادل تھے اور مدینہ کے اُوپر آسمان صاف تھا۔ جو آتا وہ اِس بارش کی افادیت کا ذکر ضرور کرتا۔([1])

(2)آخری نبی کا ایک اعرابی کےساتھ اندازِ مزاح: حضرت زاہر بن حرام رضی  اللہ  عنہ دیہات سےتعلق رکھتے تھے، وہاں سے عمدہ پھل، پھول، جڑی بوٹیاں، دوائیں وغیرہ لاکر بارگاہِ رسالت میں پیش کرتےاور واپس جاتے ہوئےرسولِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  شہرِمدینہ کی وہ چیزیں اُنہیں عطا فرماتے جو گاؤں میں دستیاب نہ ہوتیں۔ ایک موقع پر رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےحضرت زاہر رضی  اللہ  عنہ کے بارے میں فرمایا:”زاہر ہمارا دیہات ہے اور ہم اس کے شہر۔“([2]) یعنی زاہر ہماری دیہاتی ضرورتیں پوری کرتے رہتے ہیں اور ہم زاہر کی شہری ضروریات پوری کرتے رہتے ہیں گویا زاہر ہمارا ”گاؤں“ ہیں اور ہم ”زاہر“ کا شہر۔ یہ اخلاقِ کریمانہ ہیں کہ اپنے غلاموں، نیازمندوں کو ان القاب سے نوازتے ہیں۔([3]) حضرت زاہر بن حرام رضی  اللہ  عنہ دیہات سے لایا ہوا سامان بازارِ مدینہ میں بیچا کرتے تھے۔ایک دن حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بازار سے گزرتے ہوئےآپ کو سامان بیچتے ہوئے دیکھا تو آپ نے انہیں پیچھے سے اپنی گود میں لے لیا ان کی بغلوں میں سے ہاتھ ڈال کر اپنا ہاتھ شریف زاہر کی آنکھوں پر رکھ لیا، انہوں نے عرض کی: کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو۔ جب پیچھے کی طرف توجہ کی تو  اللہ  کے آخری نبی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو پہچان لیا۔ اور پہچانتے ہی آپ اپنی پیٹھ سینۂ مصطفےٰ سے ملائے رکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ آقاکریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےفرمایا:مجھ سے یہ غلام کون خریدے گا؟ حضرت زاہر رضی  اللہ  عنہ نے عرض کی: یارسولَ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! پھر تو آپ مجھے بےقیمت پائیں گے۔آقا کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشادفرمایا:لیکن تم خدا کے نزدیک بے قیمت نہیں ہو۔([4])

(3)جاں نثار اعرابی پر اندازِ کرم:بارگاہ ِ رسالت میں ایک دیہاتی حاضر ہوئے، ایمان لائے، آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہنے کا عزم ظاہر کیا اور عرض کی:میں آپ کے ساتھ ہجرت کرکے رہنا چاہتا ہوں۔ تو رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بعض صحابَۂ کرام   علیہمُ الرّضوان کو ان کے بارے میں تاکید فرمادی۔

جب ایک جنگ کے موقع پر نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو مالِ غنیمت حاصل ہوا تو آپ نے اسے تقسیم فرمایا اور اُس دیہاتی کا حصّہ صحابَۂ کرام  علیہمُ الرّضوان کو دے دیا، وہ اعرابی صحابی ان کے پیچھے پہرہ دیا کرتے تھے۔ جب صحابہ نےان کا حصّہ انہیں دیا تو انہوں نے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ صحابَۂ کرام   علیہمُ الرّضوان نے فرمایا:یہ تمہارا حصّہ ہے جو رسولِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے عطافرمایا ہے۔

وہ اعرابی اس مال کو لے کر رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی:”یارسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! یہ کیا ہے؟“ فرمایا:”یہ میری تقسیم میں سے تمہارا حصہ ہے۔“ وہ عرض کرنے لگے:”حضور! میں نے اس مال کے حصول کے لیے آپ کی پیروی نہیں کی بلکہ میں نے تو اس لیے آپ کی پیروی کی ہے تاکہ مجھے یہاں تیر لگے اور میں شہید ہوکر جنّت میں داخل ہوجاؤں۔“ اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا۔

رسولِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:”اگر تم سچے ہوتو  اللہ  تمہاری یہ خواہش ضرورپوری فرمائے گا۔“پھر کچھ عرصے بعد جب دشمنوں کے ساتھ معرکہ ہوا تو اس دیہاتی کو بارگاہِ رسالت میں لایا گیا،انہیں اسی مقام پر تیر لگا تھاجس جگہ کا انہوں نے اشارہ کیا تھا۔ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: کیا یہ وہی ہے؟عرض کی گئی:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اس نے  اللہ  کو سچاجانا تو  اللہ  نے اس کی بات پوری فرمادی۔ پھر آپ نے انہیں اپنا جبہ مبارکہ میں کفن دیا۔([5])

حضرت عبد اللہ  بن عمر رضی  اللہ  عنہما فرماتے ہیں: رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایک اعرابی کے خیمے کے قریب سے گزرے۔ اس اعرابی نے خیمے کا گوشہ اٹھا کرپوچھا: ”کون لوگ ہیں؟“ کہاگیا:”رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اور ان کے صحابہ ہیں جو کہ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔“ اعرابی نے پوچھا: ”کیا دنیا کا مال بھی پائیں گے؟“ جواب دیاگیا:ہاں! غنیمت پائیں گے پھر انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ یہ سن کر وہ اعرابی اپنے اونٹ کی طرف بڑھےاور اسے رسی سے باندھ کر ان کے ساتھ چل پڑے۔

وہ اپنے اونٹ کو رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قریب کرنے لگے، جبکہ صحابَۂ کرام   علیہمُ الرّضوان اس کے اونٹ کو رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے دورکرتے رہے تو رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: ”اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! یہ جنّت کے بادشاہوں میں سے ہے۔“ پھر جب دشمنوں کےساتھ مقابلہ ہواتویہ اعرابی جنگ کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ جب رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ان کی شہادت کی خبر دی گئی تو آ پ ان کی میّت پر تشریف لائے، ان کے سرہانے بیٹھ گئے اور خوشی سے مسکرانے لگے، پھر اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا تو ہم نے عرض کی:یارسولَ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہم نے آپ کو خوشی سے ہنستے ہوئے دیکھا پھر آپ نے اپنا چہرہ دوسری طرف کیوں پھیرلیا؟ ارشاد فرمایا:  اللہ  پاک کی بارگاہ میں اس کا مرتبہ دیکھنے کی وجہ سے مجھے خوشی تھی اور میرے اس سے منہ پھیرنے کی وجہ یہ ہے کہ حورِعین میں سے اس کی ایک بیوی اب اس کے سرہانے آبیٹھی ہے۔([6])

عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تلا ہوا

وہ دِل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض

کیوں طول دوں حضور یہ دیں یہ عطا کریں

خود جانتے ہیں آپ مِرے مُدَّعا کی عرض([7])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])بخاری، 1/321،حدیث: 933

([2])مسند احمد،20/90،حدیث:12648-مرقاۃ المفاتیح،8/622

([3])شرح المصابیح لابن ملک،5/262-مرقاۃ المفاتیح،8/622- مراٰۃ المناجیح،6/497

([4])مسند احمد،20/90،حدیث:12648

([5])نسائی، ص330، حدیث:1950

([6])شعب الایمان، 4/53،حدیث:4317

([7])ذوقِ نعت،ص143، 144


Share