دلوں پر دست شفقت کی برکتیں

دِلوں پر دستِ شفقت کی برکتیں

حضور سرورِ کائنات، رحمتِ دوعالَم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے امّت پر شفقت و مہربانی   کے کئی  انداز اپنائے، انہی میں سے ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپ   صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نے کسی بات پر تنبیہ کرنے یا توجہ دلانے یا بطورِ برکت کئی صحابۂ کرام  علیہمُ الرّضوان کے سینے پر ہاتھ مبارک مارا۔ دستِ مبارک جب کسی کے سینے پرپڑتا تو وہ سینہ علم و حکمت، ایمان و بصیرت اور نور و معرفت کا خزینہ بن جاتا۔ جس کے سینے پر دستِ شفقت مارتے اس کے مقدر کے دروازے  کھل جاتے۔

یہی وہ لمحات ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے دل تڑپ اٹھتا ہے کہ اے کاش! ہم بھی اُس مقدر والے قافلے میں شامل ہوتے۔ لیکن ان مقدس واقعات میں ہمارے لیے آج بھی بے شمار سبق، تربیت، اور جذباتی وابستگی کے لمحے موجود ہیں۔ یہ مضمون اُسی محبتِ رسول، اُسی رحمتِ لمس، اور اُسی قیادت کے انداز کو بیان کرتا ہے جس میں تربیت بھی ہے، دُعا بھی، روحانی فیضان بھی، اور قیادت کا بےمثال اسلوب بھی۔

آیئے! چند ان خوش نصیب صحابۂ کرام   رضی  اللہ  عنہ م کے مسرور کنواقعات پڑھتے ہیں جنہیں نبی رحمت  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے دستِ شفقت سے نوازا، اور اُن کے سینے ایمان، علم، ہدایت اور محبتِ رسول سے بھر گئے۔

Bottom of Form

نورِ ایمان، حضرت عمر  رضی  اللہ  عنہ  کے دل میں: حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی  اللہ  عنہ ما کا بیان ہے کہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی  اللہ  عنہ  نے جب اسلام قبول کیا تو حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنا دستِ شفقت تین بار آپ  رضی  اللہ  عنہ  کے سینے پر مارتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَللّٰهُمَّ اَخْرِجْ مَا فِيْ صَدْرِهٖ مِنْ غِلٍّ وَاَبْدِلْهُ اِيْمَاناً یعنی اے  اللہ ! اس کے سینے میں جو بھی اسلام کی دشمنی ہے اُسے نکال کر ایمان سے تبدیل فرما دے۔ ([1])

حضرت علی  رضی  اللہ  عنہ  کی قوتِ فیصلہ کا راز: مسلمانوں کے چوتھےخلیفہ حضرت علیُّ المُرتضیٰ  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھے یمن کی طرف (قاضی بنا کر) بھیجا تو میں نے عرض کی: یَارسولَ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں، میں تو کم عمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کے بارے میں بھی معلومات نہیں ہے۔ رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر مارتے ہوئے فرمایا:اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَلْبَهُ وَثَبِّتْ لِسَانَهٗ یعنی اے  اللہ ! اس کے دل کو ہدایت دے اور زبان کو ثابت رکھ۔ حضرت علی  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے میں پریشانی نہیں ہوئی۔([2])

ابن عباس  رضی  اللہ  عنہ ما کا سینہ، بنا علم و حکمت کا خزینہ: حضرت عبد اللہ  بن عباس  رضی  اللہ  عنہ ما سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنا دستِ شفقت ان کے سَر پر رکھا اور یہ دُعا دی: اَللّٰهُمَّ اَعْطِهِ الْحِكْمَةَ وَعَلِّمْهُ التَّاْوِيلَ یعنی اے  اللہ ! اسے حکمت و دانائی اور تفسیر کا علم عطا فرما۔ پھر اپنا دستِ شفقت ان کے سینے پر رکھا تو انہوں نے اُس کی ٹھنڈک اپنی پیٹھ میں محسوس کی۔ پھر یہ دُعا دی: اَللّٰهُمَّ احْشِ جَوْفَهُ حُكْمًا وَعِلْمًا یعنی اے  اللہ ! اس کا سینہ علم و حکمت کا گنجینہ بنا دے۔ اس دُعائے نبوی کی برکت ایسی ظاہر ہوئی کہ آپ کبھی کسی سوال کا جواب دینے سے نہ گھبرائے اورتاحیات اُمت کے بہت بڑے عالم رہے۔([3])

سینے پر دستِ شفا، دل میں ٹھنڈک: حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو نبیِّ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میری عیادت کے لئے تشریف لائے اور اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے دل پر محسوس کی۔ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: تم دل کے مریض ہو، حارث ابنِ کَلَدَہ ثقفی کے پاس جاؤ وہ علاج کرتا ہے۔ وہ مدینہ کی سات عَجْوہ کھجوریں لے کر گٹھلیوں سمیت کُوٹ لے پھر تم کو پلادے۔([4])

حضرت مفتی احمد یار خان  رحمۃُ  اللہ  علیہ فرماتے ہیں: احادیثِ شریفہ کی تجویز فرمائی ہوئی دوائیں کسی طبیب کی رائے سے استعمال کرنا چاہئیں جو ہمارے مزاج، مَوسِم، دَوا کی تاثیر اور ہمارے مَرْض کی کیفیت سے خبردار ہو۔([5])

حضرت ابو قُحافہ  رضی  اللہ  عنہ  کے دل پر اسلام کی دستک: حضرت اسماء بنتِ ابو بکر صدیق  رضی  اللہ  عنہ ما کا بیان ہے کہ فتحِ مکہ کے موقع پر جب رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسجدُ الحرام میں تشریف فرما ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق  رضی  اللہ  عنہ  اپنے والد ابوقُحافہ عثمان بن عامر کو لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوگئے۔ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: هَلَّا تَرَكْتَ الشَّيْخَ فِيْ بَيْتِهٖ حَتّٰى اَكُوْنَ اَنَا آتِيْهِ فِيْه یعنی تم نے ان کو گھر پر ہی کیوں نہیں رہنے دیا یہاں تک کہ میں خود ان کے پاس آجاتا۔ حضرت ابوبکر صدیق  رضی  اللہ  عنہ  نے عرض کی: يَارَسُوْلَ  اللہ  هُوَ اَحَقُّ اَنْ يَمْشِيَ اِلَيْكَ مِنْ اَنْ تَمْشِيَ اَنْتَ اِلَيْهِ یعنی یارسولَ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! یہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں بجائے یہ کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جائیں۔ رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت ابوبکر صدیق کے والد کو اپنے سامنے بٹھایا اور ان کے سینے پر اپنا دستِ شفقت پھیر کر فرمایا:اسلام قبول کرو۔ اتنا فرمانا تھا کہ وہ اسلام قبول کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔([6])

خشیتِ خدا اور محبتِ مصطفےٰ کا حسین امتزاج: حضرت اُبَی بن کَعب  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں: حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھ سے پوچھا: اے ابومُنذِر! (یہ حضرت اُبَی بن کَعب  رضی  اللہ  عنہ  کی کنیت ہے) کیا تمہیں معلوم ہے کہ قراٰنِ کریم کی آیتوں میں سے کون سی آیت بڑی فضیلت والی ہے؟ میں نے کہا: اَللهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ یعنی  اللہ  پاک اور اُس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پھر مجھ سے پوچھا: اے ابومُنذِر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ قراٰنِ کریم کی آیتوں میں سے کون سی آیت بڑی فضیلت والی ہے؟ میں عرض کی: اللہ  لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ(ترجَمۂ کنزُالایمان:  اللہ  ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا)۔ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:  اللہ  پاک کی قسم! اے ابومُنذِر تمہیں علم مبارک ہو۔([7])  اللہ  پاک کے آخری نبی محمدِ عربی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک اور موقع پر حضرت اُبَی بن کَعب  رضی  اللہ  عنہ  کے سینے پر اپنا دستِ شفقت مارا تھا اُس وقت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں: نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے سینے پر اپنا دستِ شفقت مارا تو میں پسینے سے شرابور ہوگیا اور خوف سے میں ایسا ہوگیا گویا رب کو دیکھ رہا ہوں۔([8])

حضرت مفتی احمد یار خان  رحمۃُ  اللہ  علیہ فرماتے ہیں: اس وقت (حضرت اُبَی کو) جو فیضان (حاصل) ہوا ہوگا وہ بیان سے باہر ہے، حضرت اُبَی کو پسینہ آجانا قوتِ فیض کی بنا پر تھا حُضورِ انور  صلَّی  اللہ  علیہ وسلَّم کو جاڑوں کے موسم میں وحی نازل ہونے پر پسینہ آجاتا تھا بعض مشا ئخ اپنے مریدین کو ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فیض دیتے ہیں ان کا ماخذ یہ حدیث ہے۔([9])

دستِ مبارک سے  دادِ فیض و تحسین: حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جب حضرت مُعاذ بن جبل  رضی  اللہ  عنہ  کو یمن کی طرف (قاضی بنا کر) بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو ان سے پوچھا: جب تمہارے سامنے کسی کا مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ حضرت مُعاذ  رضی  اللہ  عنہ  نے عرض کی:  اللہ  پاک کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پھر پوچھا: اگر تم  اللہ  پاک کی کتاب میں (اس کا حکم) نہ پاؤ (تو کیسے فیصلہ کرو گے)۔ ؟ حضرت مُعاذ  رضی  اللہ  عنہ  نے عرض کی:  اللہ  پاک کے رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّت سے فیصلہ کروں گا۔ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پھر پوچھا: اگر تم  اللہ  پاک کے رسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّت میں(اس کا حکم) نہ پاؤ اور نہ  اللہ  پاک کی کتاب میں پاؤ (تو کیسے فیصلہ کرو گے)۔ ؟ حضرت مُعاذ  رضی  اللہ  عنہ  نے عرض کی: میں اپنی رائے سے اِجتِہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ (ان کی بات سُن کر) نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کے سینے پر اپنا دستِ شفقت مارا اور فرمایا:  اللہ  ربُّ العزّت کا شکر ہے کہ جس نے  اللہ  کے رسول کے بھیجے ہوئے کو اس چیز کی توفیق بخشی جو  اللہ  کے رسول کو خوش کرے۔([10])

 حضرت مفتی احمد یار خان  رحمۃُ  اللہ  علیہ فرماتے ہیں: حضورِ انور ( صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کا آپ کے سینہ پر ہاتھ مارنا یا تو شاباش دینے کے لئے یا اپنا فیض آپ کے سینے میں پہنچانے کے لئے تھاکہ اس کی برکت سے رب تعالیٰ انہیں خطا سے بچائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فقہاء کے اجتہادات و قیاسات بالکل حضور صلَّی  اللہ  علیہ ٖ وسلَّم کی مرضی کے مطابق ہیں اور یہ کہ اُصولِ اسلام صرف قرآن و حدیث نہیں بلکہ قیاسِ مجتہد بھی ہے۔ خیال رہے کہ اُصولِ دین چار چیزیں ہیں: قرآن، سنّت، اِجماعِ اُمّت و قیاس۔ اِجماع اور قیاس کا ثبوت قرآنِ کریم سے بھی ہے۔([11])

حضرت جَریر کے لیے گُھڑ سواری کے نئے دور کا آغاز: حضرت جریر بن عبدا  رضی  اللہ  عنہ  نے حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں عرض کی کہ میں گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے سینے پر اپنا دستِ شفقت مارا حتی کہ میں نے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ہاتھ کا اثر اپنے سینے میں پایا اور آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہ دُعا فرمائی: اے ا پاک! اس کو گھوڑے پر جم کر بیٹھنے کی قوت عطا فرما اور اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا۔ حضرت جریر بن عبدا  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں: اس کے بعد میں اپنے گھوڑے سے نہیں گرا۔([12])

حضرت مفتی احمد یار خان  رحمۃُ  اللہ  علیہ فرماتے ہیں: دیکھو یہ ہے عطاء مصطفوی، حضرت جریر کو انگلیوں کے ذریعہ قوتِ قلبی بخشی جس سے وہ گھوڑے پر ٹھہرنے لگے حضور کی ہتھیلی اور قدم شریف کی ٹھنڈک ان سے ہی پوچھو جنہیں ایسے موقع ملے۔ (مزید فرماتے ہیں:) یہ ہے سوال سے زیادہ عطا حضرت جریر نے صرف قوتِ قلبی مانگی تھی مگر تین نعمتیں عطا ہوئیں قوتِ قلبی، ہدایت پر قائم رہنا اور لوگوں کو ہدایت دینا کہ ان کے ذریعہ لوگ ہدایت پر آجائیں۔([13])

قوتِ حافظہ کی دولت عطا ہوئی: حضرت عثمان بن ابی العاص  رضی  اللہ  عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں اپنی کمزور یادداشت کے سبب قراٰنِ کریم یاد نہ ہونے کی شکایت کی۔ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: یہ شیطان (کی وجہ سے) ہے جسے خَنْزَب کہا جاتا ہے۔ اے عثمان! میرے قریب آؤ۔ (جب میں قریب ہوا) تو رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے منہ میں اپنا لُعابِ دَہن ڈالا اور اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان محسوس کی۔ پھر حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: اے شیطان! عثمان کے سینے سے نکل جا۔ اس دن کے بعد سے میں جو چیز بھی سنتا ہوں مجھے یاد ہوجاتی ہے۔([14])

دستِ شفقت کا نور جو تاریکی مٹادے: حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت اسید بن ابی ایاس  رضی  اللہ  عنہ  کے چہرے پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے ان کے سینے پر اپنا دستِ پُرانوار رکھا۔ اس کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ حضرت اسید بن ابی ایاس  رضی  اللہ  عنہ  جب بھی کسی تاریک گھر میں داخل ہوتے تو وہ گھر روشن ہوجاتا۔([15])

دستِ شفقت، کشادگیِ رزق کا ضامن: حضرت قَیس بن سلع انصاری  رضی  اللہ  عنہ  فرماتے ہیں: میرے بھائیوں نے حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے میری شکایت کی کہ یہ اپنا مال بہت خرچ کرتے ہیں اور اس معاملے میں ان کا ہاتھ بہت کُھلا ہے۔ نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مجھ سے پوچھا: اے قیس! کیا معاملہ ہے تمہارے بھائی تمہاری شکایت کررہے ہیں؟ اور وہ گمان کررہے ہیں کہ تم اپنا مال بہت خرچ کرتے ہو اور اس معاملے میں تمہارا ہاتھ بہت کُھلا ہے۔ میں نے عرض کی: یَارسولَ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میں پھلوں میں سے اپنا حصہ لے کر راہِ خدا میں اور اپنے ساتھیوں پر خر چ کردیتا ہوں۔ (یہ بات سُن کر) حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے میرے سینے پر اپنا دستِ شفقت مارا اور تین بار یہ ارشاد فرمایا: خرچ کر  اللہ  پاک تجھ پر خرچ کرے گا۔ اس کے بعد میں  اللہ  پاک کی راہ میں نکل گیا میرے ساتھ صرف میری سواری ہی تھی اور آج میں اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ مال دار اور خوش حال ہوں۔([16])

دستِ مبارک کی بدولت سیرابی کی نعمت: حضرت ابوغزوان  رضی  اللہ  عنہ  قبولِ اسلام سے پہلےحضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی: ابوغزوان۔ نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کے لئے سات بکریوں کا دودھ دوہا تو انہوں نے وہ سب پی لیا۔ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہوگئے۔ رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے آپ  رضی  اللہ  عنہ  کے سینے پر اپنا دستِ شفقت پھیرا۔ دوسرے دن صبح کے وقت صرف ایک بکری کا دودھ دوہا تو آپ  رضی  اللہ  عنہ  وہ دودھ پورا نہیں پی سکے۔ نبی کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: اے ابوغزوان کیا بات ہے؟ حضرت ابوغزوان  رضی  اللہ  عنہ  نے عرض کی: اُس ذات کی قسم جس نے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں سیراب ہوگیا ہوں۔([17])

دل، نیکی و بدی کی پہچان کا پیمانہ بن گیا: حضرت وابِصہ بن معبد  رضی  اللہ  عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے (میرے دل کا حال جانتے ہوئے) ارشاد فرمایا: اے وابِصہ! تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ تو رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے دستِ مبارک کی انگلیاں جمع کرکے انہیں میرے سینے پر مارا اور تین بار یہ ارشاد فرمایا: اِسْتَفْتِ نَفْسَكَ اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ يَاوَابِصَة یعنی اے وابِصہ! اپنے ضمیر اور دل سے فتویٰ لے لیا کرو۔ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت جمے اور دل مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جو طبیعت میں چبھے اور دل میں کھٹکے اگرچہ لوگ تمہیں فتویٰ دیں یا تم سے لیں۔([18])

دل میں گھر کرتے نصیحت کے موتی: ایک بار حضرت ابو ذر غفاری  رضی  اللہ  عنہ  نے حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں چند بار عرض کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  حسبِ حال نصیحتیں ارشاد فرماتے رہے اور آخری نصیحت یہ ارشاد فرمائی: لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ پھر نبیِّ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر مارا اور ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! عقل جیسی کوئی تدبیر نہیں، گناہوں سے بچنے جیسی کوئی پرہیزگاری نہیں، حسنِ اخلاق جیسی کوئی کمائی نہیں۔([19])

اے عاشقانِ رسول! ان واقعات کو پڑھ کر دل میں حسرت اٹھتی ہے کہ کاش ہم بھی رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاکیزہ زمانے میں ہوتے اور ہمارے ساتھ بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا جس میں حضور رحمتِ عالَم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہمارے سینے پر اپنا دستِ شفقت مارتے اور ہمارے سینے دستِ اقدس کے فیض سے روشن و منور ہوجاتے۔ لیکن ہمیں اپنی اس حسرت پر مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ حضورِ اکرم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں اِستِغاثَہ پیش کریں کہ یارسولَ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہم جیسے بھی ہیں مگر ہیں آپ کے امتی، آقا! ہمارے سینے پر بھی اپنا دستِ شفقت پھیر کر ہمارے سینے کو گناہوں سے پاک اور اپنے نور سے منور فرما دیجئے۔

اعلیٰ حضرت کے بھائی جان، مولانا حسن رضا خان  رحمۃُ  اللہ  علیہ حضور رحمتِ عالَم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:

دل درد سے بِسْمِل کی طرح لوٹ رہا ہو

سینہ پہ تسلی کو تِرا ہاتھ دَھرا ہو([20])

یعنی اے  اللہ  پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمدِ عربی  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ذبح کے وقت جانور جس طرح تڑپ رہا ہوتا ہے اُس طرح میرا دل آپ کے عشق میں تڑپ رہا ہو حضور! اُس وقت آپ تسلی کے لئے اپنا دستِ اقدس میرے سینے پر رکھ دیجئے گا۔

حضور نبیِ رحمت  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا شفقت و رحمت کا یہ انداز ایک عظیم قائد و راہنما، ایک ماہرِ نفسیات اور ایک شفیق و مہربان سرپرست کی شان کو ہم پر عیاں کرتاہے، آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سیرت ِ طیبہ کے اس پہلو میں ہمارے لیے کئی طرح کی نصیحتیں اور دروس ہیں:

راہنمائی دل سے کی جائے، محض زبان سے نہیں:نبیِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سینوں پر ہاتھ رکھ کر صحابہ کے دلوں میں نورِ ایمان، ہدایت، علم، شجاعت اور حکمت منتقل کی یہ قیادت کا ایسا روحانی اسلوب ہے جو دلوں کو فتح کرتا ہے، آج کے رہنما اگر چاہیں کہ ان کے ماننے والے خلوص سے ان کے ساتھ جڑیں، تو وہ صرف خطاب نہ کریں، بلکہ دلوں سے تعلق پیدا کریں۔

دعا اور فیضان کے ذریعے صلاحیت اُجاگر کرنا:رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے صحابہ کی صلاحیتوں کو پہچانا، ان کے دلوں پر ہاتھ رکھ کر دعا کی، اور ان کے اندر پوشیدہ بصیرت و فہم کو جگایا۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر شاگرد، ہر نَو آموز، ہر ماتحت میں ایک پوشیدہ خزانہ ہوتا ہے۔ایک اچھا قائد وہی ہوتا ہے جو اسے تلاش کرے، نکھارے اور اس پر اعتماد کرے۔

محبت بھرے لمس کی طاقت:آج کے دور میں تربیت، اصلاح اور راہنمائی کا عمل سخت کلامی، تنقید اور ڈانٹ ڈپٹ سے غیرمؤثر ہوجاتاہے۔ مگر رسول کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے محبت اور جسمانی نرمی (ہاتھ رکھ کر دعا دینا) کو ذریعہ بنایا، اس انداز کو آج کے والدین، اساتذہ، علما اور راہنماؤں کو اپنانا چاہئے تاکہ دل میں تبدیلی آئے۔

ہر فرد کو اس کی اہلیت کے مطابق موقع دینا:حضرت علی، معاذ، ابنِ عباس رضی  اللہ  عنہم جیسے نوجوانوں کو حضور  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بڑے کاموں کے لیے چنا، ان پر ہاتھ رکھ کر دعائیں کیں اور ان پر اعتماد فرمایا۔ آج کے قائدین کو بھی نوجوانوں پر بھروسا کرنا سیکھنا چاہیے، انہیں مواقع دینا چاہئیں اور ان کی فکری تربیت کرنی چاہئے۔

باطن کی اصلاح کو مقدم رکھنا:بعض واقعات میں رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہدایت کے ملنے اور شیطان سے بچنے کی دعا فرمائی، قیادت کا اصل مقصد صرف ظاہری تبدیلی نہیں بلکہ باطنی صفائی اور فکری بیداری ہے۔ آج کے مبلغین اور راہنماؤں کو دلوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

قیادت شفا اور رحمت بنے، سختی اور رعب نہیں:قیادت کا اصل جوہر اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب وہ صرف راہ دکھانے والی نہ ہو بلکہ درد بانٹنے والی ہو، اور چھوٹوں پر شفقت کرنے والی ہو۔ رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بیماری اور تکلیف کے مواقع پر صحابہ کے ساتھ شریکِ غم ہوئے، ان کی عیادت کی، ان کے سرہانے بیٹھے، دل جوئی کی اور سینے پر ہاتھ رکھ کر شفا کی دعا دی۔ جب حضرت سعد بیمار ہوئے تو آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کے پاس جا کر نہ صرف تسلی دی بلکہ علاج کی جانب راہنمائی بھی فرمائی۔

فیصلہ سازی میں عقل اور بصیرت کی تربیت دینا:حضرتمعاذ بن جبل کے واقعے سے ہمیں سیکھنا چاہئے کہ قیادت فیصلہ سازی کی تربیت دینا بھی ہے۔ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا، اخلاقی بصیرت اُبھارنا، تاکہ ماتحت خود سوچ سکیں۔

الغرض آج کا قائد، سرپرست، عالم، استاد، بزرگ، باپ یا ماں اگر واقعی اثر انگیز بننا چاہتے ہیں تو انہیں رسول  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے فیض بھرے انداز کو اپنانا ہوگا، نرمی سے دل جیتنا، دعاؤں سے اصلاح کرنا، اعتماد سے کردار بنانا، علم سے سینے منور کرنا، روحانیت سے روشنی بانٹنا اور سب سے بڑھ کر محبت سے سینے کو ٹھنڈک دینا۔

 اللہ  کریم ہمیں اپنے چھوٹوں کے لیے ایسے ہی شفقت و تربیت بھرا انداز اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])معجم کبیر، 12/236، حدیث: 13191

([2])ابن ماجہ، 3/90، حدیث:2310

([3])معجم کبیر، 10/237، حدیث:10585

([4])ابوداؤد، 4/11، حدیث:3875

([5])دیکھئے: مراٰۃ المناجیح، 6/41

([6])دیکھئے:مسند امام احمد، 10/274، حدیث:27023

([7])مسلم، ص315، حدیث:1885

([8])دیکھئے: مسلم، ص318، حدیث: 1904

([9])مراٰۃ المناجیح، 3/278

([10])ابوداؤد، 3/424، حدیث:3592

([11])مراٰۃ المناجیح، 5/380

([12])دیکھئے: بخاری، 3/125، 126، حدیث:4357

([13])دیکھئے: مراٰۃ المناجیح، 8/205

([14])دیکھئے: معجم کبیر، 9/47، حدیث: 8347-دلائل النبوہ لابی نعیم، ص277، حدیث:396

([15])دیکھئے: تاریخ ابن عساکر، 20/21-کنزالعمال، جز13، 7/123، حدیث:36819- خصائص کبریٰ للسیوطی، 2/142

([16])معجم اوسط، 6/210، حدیث: 8536

([17])دیکھئے: معجم کبیر، 14/77، حدیث:14682- الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 7/261

([18])دارمی، 2/320، حدیث: 2533

([19])دیکھئے: معجم کبیر، 2/157، حدیث: 1651-الترغیب والترہیب، 3/131، حدیث:24

([20])ذوقِ نعت، ص136


Share