حضور اکرمﷺ بحیثیت معلم
(بعثت مبارکہ کا عظیم مقصد علم کو عام کرنا )
جہالت کے اندھیروں سے بھری اس دنیا میں علم وآگہی کی شمعیں جلانے، طالبانِ حق کو معرفت وحقیقت کے جام پلانے اور بھٹکتی انسانیت کو اپنے خالق کا پتا بتانے کے لیے رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معلمِ کائنات بن کر تشریف لائے، آپ کی تشریف آوری کا ایک عظیم مقصد علم کی روشنی پھیلانا بھی تھا، قراٰن وسنت میں اِس مقصد ِبعثت کی صراحت موجود ہے، چنانچہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴))
ترجَمۂ
کنزالعرفان:بیشک
اللہ نے
ایمان والوں
پر بڑا
احسان فرمایا
جب ان میں ایک
رسول مَبعوث
فرمایا جو
انہی میں سے
ہے۔ وہ ان کے
سامنے اللہ کی آیتیں
تلاوت فرماتا
ہے اور انہیں
پاک کرتا ہے
اور انہیں
کتاب اور حکمت
کی تعلیم دیتا
ہے اگرچہ یہ
لوگ اس سے
پہلے یقیناًکھلی
گمراہی میں
پڑے ہوئے تھے۔
([1])
(اس
آیت کی مزید
وضاحت کے لئے
یہاں کلک
کریں)
پہلی وحی کا آغاز بھی پڑھائی کی اہمیت کو خوب واضح کرتا ہے:
(اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲) اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) )
ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیاآدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا پڑھواور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔([2])
اسی طرح کثیر احادیثِ کریمہ حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا معلم واستاد ہونا بیان کرتی ہیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے ایک حجرۂ مبارکہ سے باہر آئے، پھرمسجد شریف میں داخل ہوئے، وہاں دو حلقے ملاحظہ فرمائے، ایک حلقے والے قراٰنِ پاک پڑھ رہے تھے اور اللہ پاک سے دعا کررہے تھے جبکہ دوسرے حلقے والے علم سیکھ اور سکھا رہے تھے،یہ دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ، هَؤُلَاءِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ، فَاِنْ شَاءَ اَعْطَاهُمْ، وَاِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَهَؤُلَاءِ يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، وَاِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا یعنی یہ دونوں حلقے بھلائی پر ہیں، یہ والے قراٰن پاک پڑھتے اور اللہ پاک سے دعا کر رہے ہیں،پس اگر اللہ پاک چاہے تو انہیں عطا فرمائے اور چاہے تو منع کردے اور یہ دوسرے والے علم سیکھنے سکھانے میں مصروف ہیں اور میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔یہ فرماکرسیکھنے سکھانے والوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔([3])
معیاری علم کون سا ہے؟
واضح رہے کہ علم کی اہمیت مُسَلَّم ہے مگر معیاری اور غیر معیاری علم کون سا ہے؟ اس کا تعین ہر ایک اپنے ذوق، ضرورت اور فہم وفراست کے حساب سے کرتا ہے مگر معلمِ کائنات حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معیاری علم اُسے قرار دیا جو “ نفع بخش“ ہو، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعا ہے: ہم ایسے علم سے اللہ پاک کی پناہ مانگتے ہیں جو نفع نہ دے۔([4]) لہٰذا جس بھی علم کو نفع بخش ہونے کے معیار پر جانچا جائے گا وہ نقصان وہلاکت خیزی سے لازما محفوظ رہے گا۔ قابلیت (Skills) بڑھانے کی موجودہ ڈگر میں اگر ہر شخص نیت کی درستی کے ساتھ اِس معیاری علم کو اپنا لے تو مفاد پرستی کا خاتمہ ہوگا اور معاشرہ نیک سیرت و ہمدرد افراد سے بھر جائےگا۔معیاری علم سکھانے، پڑھانے اور سمجھانے میں حضور جانِ رحمت،معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تعلیمی اصول، تربیت ودرس کے اندازو طریقے بھی بڑے شاندار ولاجواب اور قابلِ تحسین ولائقِ اتباع ہیں، ذیل میں ہم بعض کو بیان کرتے ہیں۔
علم سکھانے کے مقصد کی لگن :
مقصد میں کامیابی کے لیے اُس کی لگن وچاہت بڑا کردار ادا کرتی ہے، استقامت بجائے خود ایک کرامت ہے، استقلال وہمت کامیابی کی بنیادی سیڑھی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حکمِ الٰہی کے مطابق اپنے مقصد کے حصول، تعلیماتِ الٰہی سے افراد کو روشناس کروانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے، کبھی پیچھے نہ ہٹے۔دین ودنیا کے علوم سکھانے کےعظیم مقصد میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی لگن بڑی مثالی تھی، بڑی سے بڑی مشکل بھی راہ میں حائل نہ ہوسکی۔ واقعہ طائف ہو، شعب ابی طالب میں محصوری ہو، ظلم وستم کی آندھیاں ہوں یا مشرکین کی مال ودولت کی پیشکش ہوکوئی شے بھی معلمِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سَدِّ راہ نہ ہوسکی۔
جاں سوزی اور درد مندی:
میرکاروان کے لیے نگاہ کی بلندی،سخن کی دلنواز ی کے ساتھ ساتھ جان کی پرسوزی ودرمندی انتہائی اہم ہے،حضور نبیِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی قوم کو گمراہی سے نکالنے، انہیں راہِ حق پر چلانے اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیے شب و روز دل گداز کیفیت میں گزارتے رہے۔اِس کو سمجھنے کے لیے یہ حدیث شریف ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ چنانچہ حضور رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اُس آگ نے اِردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس پر غالب آ کر آگ میں دَھڑا دَھڑ گر رہے ہیں، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے، میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنّم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنّم کے پاس سے ہٹ جاؤ ! جہنّم کے پاس سے ہٹ جاؤ ! اور تم لوگ میری بات نہ مان کر (پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح)جہنّم میں گرے چلے جارہے ہو۔([5])
بات سمجھانے کی کامل مہارت :
دوسروں کو سکھانے کے لیے یہ مہارت بے حد ضروری ہے کہ سکھانے والا بات سمجھانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہو اورتفہیم کے جملہ تقاضوں سے آگاہ ہو۔ اس تعلق سے حضور نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شخصیت میں مہارت بدرجہ کمال موجود تھی، اول سے آخر تک آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گفتگو نہایت صاف ہوتی،جامع گفتگو فرماتے یعنی الفاظ کم مگر پرتاثیر ہوتے، آپ کو جوامع الکلم کی خصوصیت عطا کی گئی تھی یعنی آپ کثیر مفہوم ومعانی کو چند لفظوں میں سمجھادیتے۔
حضرت اُمِّ مَعْبد رضی اللہ عنہ ا جنہوں نے بڑے شاندار طریقے سے حسن وجمالِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بیان کیا ہے، وہ فرماتی ہیں: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شیریں کلام اور واضح بیان تھے، نہ کم گو تھے اور نہ زیادہ گو تھے اور گفتگو ایسی تھی جیسے موتی کے دانے پرو دیے گئے ہوں۔اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ا بیان کرتی ہیں:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کلمات میں فصاحت وبلاغت واضح تھی، آپ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے، اگر کوئی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے الفاظ شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا تھا۔([6])
افہام وتفہیم میں نرم رویہ:
تعلیم وتربیت میں نرم رویہ تیر بہدف کاکام کرتا ہے، کیونکہ نرمی فلاح وکامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے، سختی سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے جو نرمی کے ساتھ سمجھانے سے حاصل ہوتے ہیں۔رحمتِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انتہائی نرم دل تھے، سوائے محارمِ الٰہیہ وحدودِ شرع کے سختی نہیں فرماتے، پیارسے سمجھاتے، ڈانٹ ڈَپَٹ نہ کرتے، مجسمِ رافت ورحمت تھے۔
اللہ پاک قراٰنِ کریم ارشاد فرماتا ہے:
(فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ-فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹))
ترجَمۂ کنزُالایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔([7])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حضورِ اکرم، ہادیِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعلیم دینے کا ایسا عملی انداز عطا فرمایا ہے کہ جس میں نہ ڈانٹ ڈَپَٹ ہے اور نہ ہی جھڑکیاں اور ماردھاڑ ہے۔ شواہد کے طور پر کثیر احادیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہے، سرِدست ایک روایت ملاحظہ فرمائیے۔ چنانچہ
حضرت مُعاویہ بن حکم سُلمی رضی اللہ عنہ نماز ادا فرما رہے تھے، دورانِ نماز کسی کو چھینک آگئی، حضرت معاویہ بن حکم نے ” یَرْحَمُکَ اللہ “ کہا تو اِردگرد موجود نمازیوں کو تشویش ہوئی اور اپنے انداز سے آپ کو اس چیز کا احساس دِلا دیا، نماز سے فراغت کے بعد معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو اپنے پاس بلایا۔ اِس موقع پر آپ فرماتے ہیں: میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بڑھ کر سکھانے والا نہیں دیکھا، اللہ پاک کی قسم! نہ تو آپ نے مجھے جِھڑکا، نہ مارا اور نہ ڈانٹا بلکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اِس نماز میں لوگوں کی بات قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، نماز تو تسبیح و تکبیر اور قراءتِ قراٰن کا نام ہے۔([8])
مخاطب کی ذہنی صلاحیت اوراحوال کا خیال:
سکھانے کے عمل میں مخاطب کی ذہنی صلاحیت اور ذاتی احوال کا خیال رکھنا بھی بہتر نتائج فراہم کرتا ہے، لوگ مختلف خیالات اور طبیعتوں کے حامل ہوتے ہیں، معلم کو اس کا دھیان رکھنا ناگزیر ہے، کتبِ احادیث وسیرت بتاتی ہیں کہ تعلیم وتدریس اور تفہیم وترغیب اور سوالات کے جوابات دینے میں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مخاطب کی ذہنی صلاحیت اور مزاج کا پورا لحاظ رکھتے، سامنے والے کی وسعتِ ظرفی اور عملی حیثیت دیکھ کر بات کرتے۔بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کی سوچ سمجھ کے مطابق معاملہ فرماتے اور یہی وجہ ہے کہ معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سائلین ومخاطبین کی عملی کیفیات کو دیکھتے ہوئے مختلف مواقع پر مختلف چیزوں کو افضل بتایا،جس میں جو کمی محسوس کی اُسے حکمت کے ساتھ اُسی بات کی ترغیب ارشاد فرمائی۔کسی کو فرمایا افضل عمل ذکر ہے، کبھی بتایا افضل شے رات کی نماز ہے، کسی کے لیے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا افضل ارشاد ہوا اور کسی کو نماز کا افضل ہونا بتایا۔
ماتحتوں پرانفرادی توجہ:
تعلیم وتربیت میں اپنے ماتحتوں، شاگردوں اور مریدوں کو انفرادی توجہ دینے کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ کرام کو نام لے کر بلاتے، کبھی محبت والا نام رکھتے جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ا کو حمیرا اور عائش وغیرہ کہنا، کسی کو ابوتراب،ابوہریرہ وغیرہ کے القابات وکنیتوں سے نوازا، بعض افراد کی انفرادی خصوصیت کا اعتراف کیا، ان کی تحسین فرمائی اور ان کے فضائل بیان کیے۔ یہ ایسے امور ہیں جو سکھانے اور سیکھنے والے کے درمیان اپنائیت کو جنم دیتے ہیں۔ یوں ہی حضور نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنائیت وتعلق کی مضبوطی اور تعلیم وتعلم کے عمل کوتام کرنے کے لیے کبھی کبھی حضرات صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوانسے شائستہ انداز میں مزاح بھی فرماتے، فرحت وانبساط پیدا کرنے کے لیے پُرلطف جملے کہتے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے فرمایا:يَا ذَا الْاُذُنَيْنِ یعنی اے دو کانوں والے۔([9])نیز آپ ہی بیان کرتے ہیں:رسولِ پاک صاحبِ لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے ساتھ بڑے پیارسے اور گھل مل کر رہتے تھے حتی کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے: يَا اَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ اے ابوعمیر! تمہارے بلبل کو کیا ہوا۔([10])
قول وفعل میں مطابقت:
قول و فعل کا تضاد بڑے بڑوں کو لائقِ اتباع نہیں رہنے دیتا، سیکھنے والے بھی اُسے اپنے قلوب واذہان میں جگہ نہیں دیتے اور ایسے معلم کی بات میں تاثیر نہیں رہتی۔ لہٰذا معلم واستاد کو باعمل وباکردار ہونا چاہیے، اس کے افعال اس کے اقوال کی تصدیق کریں۔اس معاملے میں بھی حضور معلمِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شخصیت بے داغ ہے،آپ کے قول وفعل کی یکسانیت ویگانگت کی گواہی دشمن بھی صادق وامین کہہ کر دیتے تھے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری زندگی میں قول وفعل میں تضاد کی ایک بھی مثال نہیں ملتی لہٰذا استاد کو اپنی بات اور عمل میں تضاد سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔
آسانی پہنچانا، مشکل سے بچانا:
حضور نبیِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا وَبَشِّرُوا وَلاَ تُنَفِّرُوا یعنی آسانی پیدا کرو، تنگی نہ کرو، خوشخبری دو، نفرت پیدا نہ کرو۔([11])ایک روایت میں ”وَسَکِّنُوْا“ کے الفاظ ہیں یعنی سکون پہنچاؤ۔اساتذہ کو چاہیے کہ طلبہ پر آسانی کریں، تنگی نہ کریں، ایسا کام نہ کریں کہ وہ آپ سے بدظن ومتنفر ہوں۔ حضور معلمِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سیکھنے والوں پر آسانی کے لیے مختلف طریقے اپناتے، اپنی گفتگو میں مثالیں دیتے، نقشوں سے سمجھاتے، واقعات سناتے اور کبھی پہیلی نماسوال بھی پوچھتے وغیرہ وغیرہ۔
رحمتِ دو عالم، معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ طیبہ انسانیت کے لیے ایسا مینارِ نور ہے جو ہر دور کی تاریکیوں میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہے گا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعلیم کو محض زبان و بیان کا فن نہیں بلکہ تزکیۂ نفس، اصلاحِ قلب و روح، اور تعمیرِ کردار کا ذریعہ بنایا۔ آپ کا ہر قول، ہر فعل، ہر اندازِ تربیت ایک ایسا درِ حکمت ہے جس سے صدیاں مستفید ہوتی رہی ہیں اور تا قیامت ہوتی رہیں گی۔ آج جب کہ دنیا جدید تعلیم و مہارت کی دوڑ میں مصروف ہے، ہمیں معلمِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا تعلیمی ماحول تشکیل دینا ہوگا جہاں علم کے ساتھ حلم، فہم کے ساتھ رحم، اور ہنر کے ساتھ خیرخواہی کو بھی جگہ دی جائے۔ ہمیں چاہیئے کہ تعلیم و تربیت کے ہر مرحلے پر اسوۂ رسول کو معیار بنائیں۔ معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات اگر ہمارے نظامِ تعلیم کی روح بن جائیں تو یقیناً یہ معاشرہ علم و عرفان کا گلزار اور انسانیت کا عکاس بن جائے گا۔ اِن شآءَ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments