آخری نبی، محمد عربیﷺ سونے کا انداز (دوسری اور آخری قسط)


آخری نبی محمد عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سونے کاانداز (دوسری اور آخری قسط)


(3)اُمُّ المومنین حضرت حَفْصہ   رضی اللہ عنہ ا  فرماتی ہیں کہ رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سوتے وقت تین مرتبہ فرماتے: اَللّٰهُمَّ قِنِى عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ یعنی اے اللہ! جب تو (قِیامت میں) اپنے بندوں کو اُٹھائے اُس دن اپنے عذاب سے مجھے بچالینا۔ ([1])

(4)حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتےہیں: رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب اپنے بستر پر جاتے تو فرماتے:اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِيَ لَهُ وَلَا مُؤْوِيَ یعنی خُدا کا شکر ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، ہمیں کافی ہوا اور ہمیں پناہ دی کیونکہ بہت سےلوگ وہ ہیں جنہیں نہ کوئی کافی ہے نہ پناہ دینے والا۔([2])

(5)حضرت عبدُاللہ بن عُمَر  رضی اللہ عنہ  نے سونے سے پہلے یہ دُعا پڑھنے کی تلقین کی: اَللّٰهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَاَنْتَ تَوَفَّاهَا، لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، اِنْ اَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا، وَاِنْ اَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا، اللّٰهُمَّ اِنِّي اَسْاَلُكَ الْعَافِيَةَ یعنی اے اللہ!تو نے میری ذات کو پیدا کیا اورتوہی اِسے موت دےگا،اِس کا مرنا اور اِس کاجینا تیری خاطر(توہی اسے زندگی دینے اور اس کی زندگی لینے کا مالک ہے،تیرے سوا ان دونوں کا کوئی مالک نہیں)ہے، اگر تو اِسے زندگی دے (اور جوکام تجھے ناپسند ہیں اُن میں پڑنے سے) تو اُس کی حفاظت فرما اور اگرتو اِس کوموت دے تو اِس (کے گُناہوں) کو بخش دے،اے اللہ! میں تجھ سے عافیَت مانگتا ہوں۔

وہ کہنے لگا:کیاآپ نےیہ دُعا ( اپنے والد) حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سےسنی ہے؟ جواباً فرمایا: حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے بھی بہتر شخصیت یعنی رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے سنی ہے۔ ([3])

(6)حضرت ابو ازہر اَنْمارِی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  رات کے وقت سوتے ہوئے یہ پڑھتے: بِسْمِ اللَّهِ وَضَعْتُ جَنْبِي، اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، وَاخْسأْ شَيْطَانِي، وَفُكَّ رِهَانِي، وَاجْعَلْنِي فِي النَّدِيِّ الْاَعْلىٰ ترجمہ:اللہ کا نام لے کر میں نے اپنی کروٹ رکھ دی الٰہی میرے(اُمّتیوں کے) گناہ بخش دے اور میرے شیطان کو دور فرمادے میرا رہن چھوڑا دے اور مجھے اعلیٰ مجلس میں داخل فرما۔([4])

”میرے گُناہ“ سے مراد یا تو میری اُمّت کے گُناہ ہیں یا (میری امت کی)خطائیں مراد ہیں یا یہ لفظ ہماری تعلیم کے لیے ہے ورنہ حُضور گناہوں سے معصوم ہیں۔شیطان سے مراد انسانی شیطان ہیں یا قرین شیطان ہے،ربّ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی کہ آپ کا قرین شیطان مؤمن ہوگیا۔اخسا؛ خساءٌ سے بنا ہے، بمعنی: کتّے کو دُرکا رنا۔رہن گروی چیز کو کہتے ہیں، یہاں مراد اپنی ذات ہے کیونکہ انسان کی ذات اپنے اعمال میں گِروی ہے، ربّ تعالیٰ فرماتا ہے:

كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ(۲۱)

(ترجمہ کنز العرفان: ہر آدمی اپنے اعمال میں گِروی ہے)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی مجھے نیک اعمال کی توفیق دے کر میرے نفس کو گِروی ہونے سے چھڑا دے۔([5])

ہمارے پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سونے سے پہلے تسبیحات پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے چنانچہ شیرِخُدا حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ   رضی اللہ عنہ ا  نے رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سےایک خدمت گار کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اِس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ جب سونے لگو تو 33بار ”سبحان الله“، 33 بار ”الحمدُ لله“ اور 34 بار ”الله اكبر“ کہو۔([6])

 مولائے کائنات حضرت علیُّ المرتضی  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: میں نے اُس دن سے کسی بھی رات انہیں پڑھنانہیں چھوڑا۔ پوچھا گیا: کیا صِفِّین کی رات بھی ؟ فرمایا:صِفِّین کی رات بھی میں نے انہیں نہیں چھوڑا۔([7])

آخِری نبی کا بستر اور آرام فرمانے کا انداز

اللہ کےآخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کبھی زمین پر،کبھی چٹائی پر اورکبھی چمڑے سے بنےاُس بستر پرآرام فرماتے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوتی۔ایک موٹا کھردرا بچھونا بھی تھااُس پر بھی آپ آرام فرماتے تھے۔([8])

کس انداز سے آرام فرماتے؟

(1)رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنے بستر مبارَک پر تشریف لاتے تو اپنی سیدھی ہتھیلی سیدھے گال مبارَک کے نیچے رکھتے۔([9])

(2)حضرت ابنِ عبّاس  رضی اللہ عنہ  نےاپنی خالہ اُمُّ المومنین حضرت میمونہ   رضی اللہ عنہ ا  کے گھر رات گُزاری، آپ فرماتے ہیں: میں بستر کی چوڑائی میں لیٹ گیا، اور رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اس کی لمبائی میں کروٹ کے بل آرام فرما ہوئے اور سوگئے۔اس کے بعد حضرت ابنِ عبّاس  رضی اللہ عنہ  نے رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا رات میں اندازِ عِبادت بیان فرمایا۔([10])

دوران ِ سفرآرام فرمانے کا انداز:

حضرت قَتادہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےکہ نبی پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب رات کے آخِری حصّے میں کہیں پڑاؤ فرماتے تو اپنی سیدھی کروٹ پر آرام فرماتےاور جب صُبح سے کچھ پہلے کہیں ٹھہرتے تو اپنا(سیدھا) ہاتھ کھڑا رکھتے اور اپنا سَر مبارَک اپنی ہتھیلی پر رکھتے۔([11])

آپ نے رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سونے کا معمول تفصیل سے پڑھا، اِسی انداز میں سونے کا معمول بنائیے تاکہ دین و دنیا کی بَرَکتیں حاصل ہوں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مرکز خدمۃ الحدیث و علومہ



([1])ابوداؤد،4/404، حدیث:5045

([2])مسلم،ص1116،حدیث: 6894

([3])مسلم،ص:1115،حدیث:6888،فیض القدیر،2 /195

([4])ابو داؤد،4/406حدیث: 5054

([5])مراٰۃ المناجیح، 4/25

([6])بخاری3/516، حدیث :5362

([7])شرح البخاری لابن بطال،7/539

([8])مواہب لدنیہ،2/185

([9])شمائل محمدیہ،ص157

([10])شمائل محمدیہ،ص162

([11])شمائل محمدیہ،ص162


Share