تسبیحات
و اذکارِ نَماز
کی حکمتیں
نَماز بلاشُبہ اسلام کا شعار ہے اور ایک انتہائی منظم عبادت ہے جو بظاہر تو بارگاہِ الٰہی میں مُناجات پیش کرنے کا نام ہے، مگر اس معاملے میں کسی کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے رب کی بارگاہ میں جیسے چاہے مُناجات کرے، نَماز اَدا کرنا اُمّت کی وحدت اور اجتماعیت کی علامت ہے اور یہ طریقہ وہی ہے جو اللہ پاک کے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”صَلُّوْا كَمَا رَاَيْتُمُوْنِي اُصَلِّي“یعنی نماز ویسے ہی پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔(مسند الشافعی، ص55)
معلوم ہوا نماز صرف قِیام اور رُکوع و سُجود ہی میں حُضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طریقے کو اپنانے کا نام نہیں، بلکہ نَماز میں مُناجات بھی حُضور کے بتائے ہوئے مخصوص طریقے کے مطابق ہی ادا کرنا لازم ہے۔ چنانچہ نماز میں حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق جو تسبیحات و اَذکار کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس کی بھی اپنی ہی حکمتیں ہیں، جو مختلف علمائے کرام نے اپنے اپنے انداز میں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند حکمتیں ملاحظہ فرمائیے:
حضرت مولانا عبدُ الحامد بدایونی رحمۃُ اللہ علیہ اپنی کتاب فلسفہ عِباداتِ اسلامی کے صفحات 21 تا 24 پر نماز کی تسبیحات و اذکار پڑھنے سے متعلّق فرماتے ہیں: ایک خادم اپنے آقا کے حضور، ایک ملازم افسر کے سامنے، محکوم حاکم کے دربار میں اس کی عظمت و شان کا لحاظ کرتے ہوئے بہتر سے بہتر الفاظ میں خطاب کرتا ہے۔ چنانچہ احکم الحاکمین مالک حقیقی کے دربار میں بندہ مومن اپنی عجز وکمتری خدا کی برتری کا خیال کرتے ہوئے تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر گُنا ہوں سے توبہ کرتا ہے اور عرض کرتا ہے: اللہ اکبر۔ یعنی اے مولا ! تو سب سے بڑا ہے تیری کبریائی وعظمت میں کوئی شریک نہیں، اے خدا! تو پاک ہے تعریف کے لائق تو ہی ہے، برکت والا نام تیرا ہی ہے۔ تو بُزرگی و عظمت والا ہے، تیرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ یہ وقت چونکہ حضوری کا ہوتا ہے اور اس وقت انوارِ قُدرت کا ظہور ہوتا ہے تو شیاطین راستہ روک کر کہتے ہیں: ہم دربار سے نکال دیے گئے تجھے بھی نہ جانے دیں گے۔ چنانچہ ان کی شیطنت دیکھ کر اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحیم کہہ کر شیطان کو بھگایا جاتا ہے جب شیاطین بھاگتے ہیں تو نمازی آہستہ آہستہ کہتا ہے :اے اللہ! جو رَحمان و رحیم ہے میں تیرے ہی نام سے آغازِ عبادت کرتا ہوں۔ اس کے بعد حمد و ثنا کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے عرض کرتا ہے: اے جہانوں کے پیدا کرنے والے رب تمام تعریفوں کا مستحق تو ہے، تو ہی رحمان و رحیم ہے۔ یومُ الحساب کا بھی تو مالک ہے۔ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں، تجھی سے مدد مانگتا ہوں، صِراطِ مستقیم دکھا، راہ بھی انکی جن پر تو نے انعام کیا، اُن کی نہیں جو تیرے مَغْضُوب وگمراہ تھے۔ پھر قبولیّتِ دعا کے لئے آہستہ سے آمین کہتے ہیں۔
حمد کے بعد سورت کا ملانا :
ایک حکیم کے پاس مریض جب حاضر ہوتا ہے تو وہ مرض کے حالات بیان کرتا ہے۔ طبیب نسخہ تجویز کر کے دوا پینے کی تاکید کرتا ہے۔ پرہیز اور استعمال کا طریقہ بتاتا ہے۔ انسان ہزاروں روحانی امراض میں مبتلا تھا، اُس نے طبیب حقیقی کی طرف رجوع کیا، طبیب مریض کے امراض و اسبابِ مرض سے واقف تھا اس نے پہلے سورۂ شفا تجویز کی سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کے دوسرے اَجزا نسخہ میں شامل فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ اس نسخہ کے پینے سے شفا ہو گی۔
پرہیز:
طبیب مریض کی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے ان اشیا سے جو مرض کو بڑھانے والی ہوں پرہیز کی تاکید کرتا ہے، جسمانی اَمرض کیلئے پرہیز لازمۂ علاج سمجھا جاتا ہے، ممنوع اشیا سے پرہیز کرنا ہر بیمار ضَروری سمجھتا ہے۔ شرک، کفر، فسق، ریا، تکبر، کینہ، حسد، جھوٹ، غیبت، شراب نوشی، قِمار بازی، زناکاری، سود خواری یہ وہ اَمراض تھے جو انسان کی روح اور اس کے تمام اخلاق و عادات کو خراب کر رہے تھے ان سب سے پرہیز کرنا تجویز فرمایا گیا۔
رُکوع وسُجود و قیام:
حمد و سورت پڑھ چکا تو خیال آیا دیر سے ہاتھ باندھے عرض کر رہا ہوں، مناسب ہے سر جھکا لوں، اب وہ جھکا اور عرض کرنے لگا: میرا رب بُزرگ اور پاک ہے۔ وہ سر جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور اعضائے جسم میں معظّم ہے اسے بھی مولا کے سامنے جھکا دوں، بیقراری بڑھتی جا رہی ہے، نہ کھڑے رہ کر چین آیا نہ رکوع میں تو اب اپنے مولا کی عظمت کا اعلان کر کے سر زمین پر رکھ دیا، سر جھکا دیکھ کر سرفراز کیا گیا۔ ارشاد ہوا کہ ایک آخری حالت باقی ہے: بیٹھ جا اور میرا جلوہ دیکھ۔
التحیات:
اب یہ دیدار میں محو ہے، بیٹھے بیٹھے جلوے دیکھ رہا ہے، ایک ایک عُضو کو مطلوب کے حضور جھکا کر اُس کی طرف رُخ کر کے مصروفِ جمال ہے اور یوں عرض کرتا ہے : تمام قولی، بدنی، مالی عِبادتیں تیرے ہی لئے ہیں۔ اتنا عرض کر چکا تو معاً خیال آیا جس نبی برحق کی بدولت یہاں تک پہنچ سکا اُن کی بارگاہ میں سلام عرض کروں۔ ادھر سے فرمایا گیا: نبیِ رَحمت پر سلامتی ہماری طرف سے: اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِی کی نوید سنی۔ اپنے آقا پر سلام سن کر دل نے کہا: وہ جو اس دربار میں حاضر ہیں اور جو نہیں ہیں اُن سب کے لئے سلامتی کی دعا کیوں نہ کروں۔ چنانچہ اَلسّلامُ عَلَيْنَا میں سب کو شامل کر لیا۔ عمومیّت کے ساتھ خصوصیّت ضَروری تھی اس لئے وعَلىٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ میں نیک بندوں کی سلامتی کی دُعا کی۔
توحید ورسالت اصل ایمان ہے، اس لئے بندہ پھر مالک حقیقی کی رَبوبیّت اور اُس کے رسول کی رسالت کے اقرار شہادت کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں تیرے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں، محمد تیرے بندے اور رسول ہیں۔ اس اِقرار پر گواہی کی ضَرورت تھی، سیدھے ہاتھ کی انگلی کو اٹھا کر اقرارِ شہادت کیا۔ اسی لئے اس اُنگلی کو اَنگشتِ شہادت کہتے ہیں۔
دُرود شریف:
جلوہ ذات کا مشاہدہ ہو چکا، اگر چہ وہاں غیر اور غیریت کو دخل نہیں، مگر قدرت کو پسند نہ آیا کہ میرے دربار میں حاضر ہو کر ثنا و حمد کے گلدستے پیش ہوں اور اس کا معزّز نبی یا اس کی وہ اولادِ پاک جو اگرچہ اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِین میں شامل تھی مگر عمومیت اور مبہم انداز میں ان سب کو یاد کیا گیا اس لئے بصراحت ان سب کے لیے طلبِ رَحمت کی دُعا کرے، یوں عرض کرنا شروع کیا:خداوندا! محمد اور ان کی اولاد پر رَحمت نازل کر جیسے تو نے ابراہیم اور ان کی آل پر رَحمت بھیجی، تو تعریف کیا گیا بزرگ ہے !
اللہ اللہ! حُضور کی آل کا یہ درجہ بلند ہوا کہ نَمازوں کے قَعدوں میں اُن کے لیے دعائیں کرنا داخل و شامل کیا گیا۔ عبادت کا فریضہ ختم ہونے پر آیا تو وہ فرشتے جو حاضر تھے اور وہ جماعت والے جن کے ساتھ شریک اُن سب پر سلامتی کی دُعا کرتا ہوا دربار سے رُخصت ہوا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(چیف ایڈیٹر ماہنامہ خواتین دعوتِ اسلامی (ویب ایڈیشن))
Comments