اسلام میں انسانی جان کی قدرو قیمت
اللہ کریم نے مخلوق کو بےشُمار نعمتوں سے نوازا ہے جن کی قدر و قیمت اور اہمیت ہر ذِی شعور پر عَیاں اور ظاہر ہے۔ بیش بہا اور انمول نعمتوں میں سے ایک نعمت ’’جان ‘‘ہے۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس نعمت کی قدر کرنےاور اس سے نفع اُٹھانے کی ترغیب دلائی اور اسے کسی بھی طرح نقصان پہنچانے سے سختی سے منع کیا ہے۔دینِ اسلام کی بے شُمار خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام انسانی جان کا محافظ ہے۔ یاد رکھئے! اسلام صرف انسانی جان کا ہی نہیں بلکہ ہر جان دار چیز کی جان کی اہمیّت بیان کرتا اور بلاوجہ کسی کی بھی جان لینے سے منع کرتا اور ظلم و زیادتی کرنے والوں کو ’’سَزا کی نوید‘‘ سناتا ہے۔
اسلام سے پہلے انسانی جان:
اسلام سے پہلے کے عرب معاشرے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو جگہ جگہ معمولی باتوں اور تنازعوں پر انسانی خون بکھرا ہوا نظر آتا ہےاس لئے کہ اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں انسانی خون کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ عرب معاشرہ معمولی باتوں پر خون بہانے کو فخر سمجھتا تھا۔ ایسے ہولناک مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں کہ آدھی آدھی صدی تلواروں سے ایک دوسرے کے سر کاٹ کاٹ کر بازو شل نہیں ہوتے، دل ذرا نہیں پسیجتے، ان سارے کارناموں پر نہ تو کوئی شَرْم و عار محسوس ہوتی بلکہ یہ تو جہاں جمع ہوتے انسانی جانوں کو یوں بےدریغ قتل کرنے کو اپنی بہادری کے کارناموں میں شُمار کر کر کے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ بچّیوں کو زندہ دفن کرنا، غلاموں کو بےوقعت جاننا، قبیلہ پرستی کے نام پر قتلِ عام کرنا اور انتقام کی آگ میں نسلوں تک لڑائیاں جاری رکھنا ان کی پہچان تھی۔ زمانۂ جاہلیت میں اَدنیٰ سی بات پر تلواریں نکل آتیں۔ گھوڑے یا اونٹ کی سبقت، پانی پلانے میں دیر یا اَنا کی چھوٹی سی ٹھیس نسلوں تک جاری رہنے والی جنگوں میں بدل جاتی۔ چار دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگِ بَسوس اور چالیس سال تک ختم نہ ہونے والی جنگِ داحس و غبراء اسلام سے پہلے کے سیاہ کارناموں میں سے ہیں۔
چالیس سال جاری رہنے والی جنگ کی وجہ :
جنگِ بسوس دو قبائل بنو بَکر اور بنو تَغلِب کے درمیان لڑی گئی۔ بنو تغلب سے تعلق رکھنے والا وائل بن رَبیعہ ”کُلَیب “کے لقب سے مشہور تھا اس کا اثر و رسوخ بہت پھیل چکا تھا۔اس نے اپنے لیے ایک ایسی چراہ گاہ بنوائی جس میں کسی دوسرے کو چلنےا ور جانور چَرانے کی اجازت نہیں تھی اور وہاں کی کسی چیز کو تکلیف پہنچانا بھی ممنوع تھا۔ اس نے اپنی زمینوں کے شکار کو ممنوع کر رکھا تھا،اپنے اونٹوں کے ساتھ دوسروں کے اونٹوں کی شمولیت کو حرام قراردے دیا تھا،اس کی آگ کےساتھ دوسری آگ جلانے کی اجازت نہیں تھی،ان کے گھروں کے درمیان سے گزرنا بھی ممنوع تھا۔یہاں تک کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیرکسی جگہ حملہ کرنے کی اجازت تک نہیں تھی چنانچہ یہی امور ان کے آپسی جنگ کا سبب بنے۔ کُلیب کی شادی قبیلہ بنوبَکر میں جَساس بن مرّہ کی بہن سے ہو ئی تھی۔ایک دن جساس کی خالہ” بسوس“ كے گهر ایك مہمان آیا،اس کی اونٹنی بھی تھی جو جساس کی اونٹنیوں کے ساتھ کلیب کی چراہ گا ہ میں چَر رہی تھی،کلیب نے منع کیا کہ اگر آئندہ یہ مجھے نظر آئی تو میں اسے قتل کردوں گا۔پھر کچھ دن بعد دوبارہ کلیب نے دیکھا کہ وہ اونٹی یہاں چر رہی ہے تو اس نے ایک تیر اس کے تھن پر ماردیا۔جب اونٹنی کے مالک کو اس کا علم ہوا تو اس نے اوربسوس نے غم کا اظہار کیا جس پر جساس نے کہا کہ میں عنقریب اس اونٹنی سے زیادہ قیمتی اونٹ کو قتل کردوں گا۔ اس کی مراد کلیب کو قتل کرنا تھی چنانچہ اس نے موقع دیکھ کر کلیب کی پیٹھ میں نیزہ مارا اور اسے قتل کر دیا۔جب اس سارے واقعے کا علم کُلیب کے بھائی کو ہوا تو اس نے اپنے بال كاٹ دیے،کپڑے پھاڑ لیےا ور خود پر شراب اور كھیل کود کو حرام کر لیا۔اس نے کہا میں خوشبو نہیں سونگھوں گا،تیل نہیں لگاؤں گا جب تک میں کلیب کے ہر عضو کے بدلے بنو بکر بن وائل كے ایک آدمی کو قتل نہ کردوں۔ اور پھر بالآخرجنگ شروع ہو گئی جو 40 سال تک جاری رہی۔ ([1])
جنگِ داحس و غبراء:
بنو عَبس کے سردارقَیس بن زُہیر کا داحس نامی گھوڑا تھااور حُذیفہ بن بدر ذُبْیانی کا بھی ایک گھوڑا تھاجس کا نام غَبراء تھا۔ یہ دونوں سردار آپس میں رشتہ دار تھے، دونوں نے گھوڑوں کی دوڑ کا مقابلہ رکھا،جیت پر بیس اونٹ انعام مقرر ہوا۔ دوڑ شرع ہونے سے پہلے حذیفہ نے اپنی قوم کے کچھ لوگ تیار کئے اور انہیں مقرّرہ ہدف کے قریب بٹھا دیا کہ اگر داحس،غبراء سے آگے نکلنے لگے تو اسے تھپڑمارنا۔ جب داحس گھوڑا غبراء سے سبقت لے جانے لگا تو حُذیفہ کے آدمی عمیر نے اسے تھپڑمار دیا۔یوں داحس یہ مقابلہ ہار گیا۔ جب قیس بن زُہیر کو واقعہ کا پتا چلاتو تکرار اور ہاتھا پائی کے بعد یہ معاملہ قتل وغارت گری تک جا پہنچااور دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ چھڑگئی جو کہ چار دہائیوں تک جاری رہی۔([2])ان دونوں جنگوں کی ابتِدا کس قدر معمولی تھی لیکن انجام ہزاروں جانوں کے نقصان کی صورت میں سامنے آیا۔ اسلام سے قبل خونِ انسانی کی ناقدری اور ارزانی کو اس بات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہاں قصاص کا کوئی اصول نہ تھا۔ طاقتور قبیلہ اگر کسی کو قتل کر دیتا تو اس کے بدلے کمزور قبیلے کا کوئی معزز شخص مار دیا جاتا۔
قربان جائیں دینِ اسلام کی مبارک تعلیمات پر کہ جس نے انسانوں کو انسانی خون کی قدر کرنا سکھایا،ننھی ننھی جانوں کی حفاظت،ان کی پرورش پر جنت کی بشارت عطا فرمائی۔یہ اسلام ہی ہے کہ جس نے خون کے پیاسوں کو انسانی جانوں کا محافظ بنا دیا۔اب ذرا اسلام کی مبارک تعلیمات پر بھی ایک نظر ڈالئے، قلب و جگر کو سکون پہنچائیے، مسلمان ہونے پر اپنے رب کا شکر اداکیجئے،اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غلامی پر اللہ کے بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائیے،اپنی بیٹیوں کو بتائیے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے انہیں جینے کا حق عطا فرمایا، اسلام نے نہ صرف ان کی جان کو تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کی پرورش پر ان کے والد کو جنت کی نوید و بشارت بھی عطا فرمائی بلکہ پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنت میں اپنی رفاقت کی خوش خبری بھی عطا فرمائی ہے۔
اسلام اور انسانی جان کی اہمیت:
اسلام میں ایک انسانی جان کی اہمیت کس قدر ہے اسے اس بات سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس نے بلا اجازتِ شرعی کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا کیونکہ اس نے اللہ تعالی کا حق، بندوں کے حقوق اور حدودِ شریعت سب کو پامال کردیا اور جس نے کسی ایک کی زندگی بچالی جیسے کسی کو قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے یا بھوک سے مرنے وغیرہ اَسباب ِہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو بچالیا۔ اسے قراٰنِ پاک میں یوں ذکر کیا گیا ہے:
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ٘-ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ(۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس کے سبب ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بیشک ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد (بھی) زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں۔([3])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اسلام کی نظر میں انسانی جان کی اہمیّت کو اس آیت سے خوب سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں وہ لوگ بھی انصاف کا خون نہ کریں کہ جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پسِ پُشت ڈال دیتے اور دینِ اسلام کو قتل و غارت گری یا دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں۔اس آیتِ کریمہ سے وہ لوگ بھی ہوش کے ناخن لیں کہ جو مسلمان کہلوانے کے باوجود بے قصور لوگوں کو نہایت بے دردی اور سفاکی کے ساتھ بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا نشانہ بناتے اور اس گھناؤنے اور غیر اسلامی کام پر فخر کرتے ہیں۔ایک اور مقام پر اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔([4])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
خوب یاد رہے کہ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر قتل کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا آدمی ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہےگا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہِ کبیرہ ہے اور ایسا آدمی مدّت ِ دراز تک جہنّم میں رہے گا۔
پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک انسانی جان :
انسانی جان کا قتل کبیرہ ترین گناہوں میں ہے،اس گناہ کی شناعت و بدبختی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جس انسان نے قتل کا کام ایجاد کیا آج بھی دنیا بھر میں ہونے والے ناحق قتل کا گناہ اسے بھی مل رہا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کوئی بھی شخص ناحق قتل ہوتا ہے تو اس قتل کا گناہ پہلے قاتل ابنِ آدم (قابیل) کو ضَرور ملتا ہے کیونکہ اُسی نے سب سے پہلے قتل کا طریقہ رائج کیا۔([5]) انسانوں کے سب سے بڑے خیرخواہ،اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان(حقوق العباد میں سے ) خون بہانے کے متعلق فیصلہ کیا جائےگا۔([6]) اللہ پاک کے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی مومن کوقتل کرنے میں اگر زمین وآسمان والے شریک ہوجائیں تو اللہ پاک ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔([7]) محسنِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کریم کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیادہ آسان ہے۔([8])کسی پاکیزہ جان کو قتل کر دینا تو بہت بڑا گُنا ہ ہے ہی اس گناہ میں ذرا برابر مددگار بننا بھی اپنے آپ کو اللہ کی رَحمت سے دور کرنا ہے جیسا کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قِیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں یوں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا:یہ اللہ کریم کی رَحمت سے مایوس ہے۔([9])
یوں تو اسلام کی ہر تعلیم انسانیت کے لیے سراپا رَحمت ہے لیکن انسانی جان کی حرمت پر اسلام کا اس قدر زور دینا جہاں بھر کو یہ پیغام دیتا ہے کہ مسلمان کبھی بھی ظلم و زیادتی اور ناحق خون بہانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ آج کے پُرآشوب دور میں جہاں نفرت، دہشت گردی اور قتل و غارت کو مختلف بہانوں کے ساتھ رواج دیا جا رہا ہے، ہمیں بطورِ مسلمان قراٰن و حدیث کی ان واضح ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اسلام اَمن و محّبت کا دین ہے، ظلم نہیں بلکہ عدل اور انصاف کا پیغام دیتا ہے۔
Comments