سچ نے بچا لیا


سچ نے بچالیا


اُسید رضا، محمد ریان، ثوبان رضا، کلاس مانیٹر معاویہ باری باری سبھی کے نام پکارتے ہوئے ان کی حاضری لگا رہے تھے جب کہ سَر بلال اپنی کرسی پر سُر جھکائے کسی سوچ میں گم تھے، حاضری ختم ہوئی تو سبق شروع کرنے سے پہلے سَر بلال بیٹھے بیٹھے ہی بچّوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: جو جو بچّے کل غیر حاضر تھے کھڑے ہو جائیں، یہ سن کر صرف ایک بچّہ علی کھڑا ہو گیا۔

سر بلال: جی بیٹا آپ کل کیوں نہیں آئے تھے؟

علی پہلے تو سر جُھکائے خاموش کھڑا رہا پھر دوبارہ  پوچھنے پر کہنے لگا: سر جی کل ناں وہ میتھ کا ٹیسٹ تھا میں پرسوں تیّاری نہیں کر سکا تھا تو اس لیے نہیں آیا۔

علی کی بات پر ساری کلاس حیرانی سے اسے دیکھنے لگی اور سوچ رہی تھی کہ اب علی کو سارا پیریڈ کھڑا رہنا پڑے گا لیکن سر بلال کی بات نے انہیں مزید حیران کر دیا : دیکھو علی بیٹا! چھٹی سے آپ کا اپنا نقصان ہوتا ہے اور پھر صرف ایک کتاب کا ٹیسٹ تیار نہ ہونے کی وجہ سے آپ اپنی بقایا سبھی کتابوں کے سبق کا نقصان کر بیٹھے ہیں، آپ نے کوئی جھوٹا بہانہ نہیں بنایا بلکہ سچ سچ بتانے کی جُرأت کی اس لیے بٹھا رہا ہوں اسے اپنی سچّائی کا انعام سمجھیں لیکن آئندہ ایسی باتوں پر چھٹّی مت کیجیے گا۔

علی شکریہ اَدا کرتے ہوئے بیٹھ گیا تو معاویہ بولے: لیکن سر ! ہر بار سچ بولنے سے انعام تو نہیں ملتا بلکہ کبھی تو سچ بول کر ہم پھنس جاتے ہیں۔

سَر بلال: جی بیٹا بعض اوقات ایسا ہی لگتا ہے کہ ہم جھوٹ بولیں گے تو والدین یا اُستاد کی ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ سے بچ جائیں گے جبکہ سچ بولنے پہ سزا ملے گی تو بیٹا ایسی حالت میں بھی سچ ہی بولنا چاہیے کیونکہ جھوٹ سے جو فائدہ ملتا ہے وہ وقتی ہوتا ہے لیکن سچائی ہمیشہ کے لیے ہمیں بچا لیتی ہے، اللہ پاک کے آخِری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: سچائی بھلائی ہے اور بھلائی جنّت کی طرف رہبری کرتی ہے اور جھوٹ بدکاری ہے اور بدکاری آگ کی طرف رہبری کرتی ہے۔(دیکھیے:بخاری،4/125، حدیث:6094)

چلیں آج میں آپ لوگوں کو تاریخِ اسلام کا ایک سچا واقعہ سناتا ہوں پھر آپ کو میری بات سمجھ آ جائے گی کہ سچ کیسے انعام دلاتا بلکہ کبھی کبھی تو ہماری ہی نہیں بلکہ ہمارے پیاروں کی بھی جان بچانے کا سبب بن جاتا ہے، بچو تاریخ میں ایک انتہائی ظالم حاکم گزرا ہے سینکڑوں بے گناہوں کی جان اس نے لی تھی، اسی کے شہر میں ایک حضرت رِبعی بن حراش  رحمۃُ اللہ علیہ  نامی بزرگ رہتے تھے جو کہ مولا علی اور حضرت عمر  رضی اللہ عنہما  جیسے بڑے بڑے صحابہ کے شاگرد رہے تھے، صحابۂ کرام کی تربیت کی برکت تھی کہ ان بزرگوں نے ساری عمر کبھی جھوٹ نہ بولا تھا، ایک بار کیا ہوا کہ اس ظالم حاکم نے حضرت رِبعی کے دو بیٹوں کو کوئی ذمہ داری دے کر کہیں بھیجا لیکن آپ کے بیٹے ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے اپنے گھر جا کر چھپ گئے۔

آپ کو پتا ہے ناں بچو کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی ایک کی برائی دوسرے کے سامنے کرتے رہنا ایسوں کو چغل خور کہتے ہیں ان کی عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کی چغلی حاکم یا بڑے لوگوں کے سامنے کرتے رہیں تاکہ حاکم کی نظروں میں ہماری عزت بڑھ جائے اور وہ ہمیں اپنا وفادار سمجھے حالانکہ بچو یاد رکھو کسی دوسرے کو چھوٹا دکھا کر ہم بڑے نہیں بن سکتے۔ خیر ایسے ہی ایک چغل خور نے اس حاکم کے سامنے حضرت رِبعی کی چغلی کرتے ہوئے کہنے لگا: ویسے تو رِبعی کی قوم سمجھتی ہے کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا لیکن جناب والا دیکھیے گا آج وہ آپ کے سامنےجھوٹ بولے گا وہ  اس لئے کہ آپ نے اس کے دونوں بیٹوں کو کہیں بھیجا تھا لیکن انہوں نے آپ کی نافرمانی کی ہے اور دونوں اپنے گھر میں موجود ہیں۔  چنانچہ حضرت رِبعی کو بلوایا گیا۔ جب آپ حاکم کے دربار میں آئے تو اس نے دیکھا کہ آپ بہت بوڑھے اور کمزور ہیں،پوچھنے لگا:تمہارے دونوں بیٹوں  کا کیا معاملہ ہے؟

بچو حضرت رِبعی کے جواب سننے سے پہلے ایک بار سوچیں کہ اپنے وقت کا طاقت ور ظالم شخص ایک بات پوچھ رہا ہے ظالم بھی ایسا کہ جس کی نافرمانی کرنے پر سیدھا سر قلم کر دیا جاتا تھا یعنی آپ علیہ الرَّحمہ کے بیٹوں کی جان خطرے میں تھی، اس سب کے باوجود جب حضرت رِبعی نے لب ہلائے تو فرمایا: وہ دونوں گھر میں ہیں۔

یہ سچ سُن کر اس ظالم حاکم نے آپ کو انعام واکرام دیا اور سرکاری حکم نامہ order جاری کر دیا کہ ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آیا جائے۔ یعنی حضرت رِبعی کے جرأت بھرے سچ کی برکت سے نہ صرف آپ کے بچوں کی جان بچ گئی بلکہ انعام و اکرام بھی ملا۔(دیکھیے:حلیۃ الاولیاء، 4/409)

تو بچّو! آپ بھی حضرت رِبعی کے طریقے پر عمل کی پکی نیت کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے اور ہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ چغلی لگانا بہت بری عادت ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی


Share