
کلاس روم
روزہ کیوں رکھیں؟
*مولانا حیدر علی مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
گذشتہ کل کی چھٹی کے بعد آج اسکول کھلا تھا تو پورے اسکول میں خاموشی کے ساتھ ساتھ ایک سکون بھی چھایا ہوا دکھائی دے رہا تھا یہ یقیناً ماہِ رمضان المبارک کی ہی برکتیں تھیں ورنہ جہاں چند بچے ہوں وہاں کیسے خاموشی ہو سکتی ہے، بڑی کلاسوں کے کچھ بچوں نے ٹوپیاں بھی پہن رکھی تھیں ، کچھ اساتذہ کے بھی ہاتھوں میں تسبیح کاؤنٹر دکھائی دے رہے تھے یوں سارا ماحول ہی تقدس و احترام سے بھرا ہو تھا۔
سر بلال کلاس میں تشریف لائے تو سلام و جواب کے بعد بچوں سے ہلکی پھلکی ابتدائی گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ وائٹ بورڈ پر آج کے سبق کے عنوانات بھی تحریر کرتے گئے:
روزے کی تاریخ (History)
روزے کے مقاصد
پھر دوسرے عنوان کے نیچے بریکٹس میں مزید عنوانات لکھ دیے: تقویٰ، احساس، کردار سازی۔
پیارے بچو! جیسا کہ آپ کو پتا ہی ہے کہ مبارک مہینا رمضان شریف شروع ہو چکا ہے اور آج دوسرا روزہ بھی ہے تو آج کے سبق میں ہم اِن شآءَ اللہ بورڈ پر لکھے ہوئے انہی موضوعات (Topics) کے بارے میں پڑھیں گے، وائٹ بورڈ پر لکھ چکنے کے بعد سر نے بچوں کی طرف رخ موڑتے ہوئے باقاعدہ سبق کی ابتدا کی۔
بچو! روزہ بہت پرانی عبادت ہے یہاں تک کہ علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ اللہ پاک کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک تمام امتوں پر روزہ فرض رہا ہے۔ البتہ پچھلی قوموں کے روزوں کے دن ہم سے مختلف تھے جبکہ اسلام میں ہجرت کے دوسرے سال حکم نازل ہوا کہ مسلمانوں پر پورے ماہِ رمضان کے روزے رکھنا فرض ہیں۔(صراط الجنان،1/230)
اُسید رضا: تو سر کیا اس سے پہلے مسلمان روزہ نہیں رکھتے تھے؟
نہیں نہیں بیٹا! اس سے پہلے مسلمانوں پر دس محرم کے دن کا صرف ایک روزہ ہی فرض تھا ۔ چلیں جی اب ہم چلتے ہیں آج کے دوسرےموضوع (Topic)کی طرف یعنی روزے کے مقاصد، تو سب سے پہلا اور اہم مقصد روزے کا ہے تقویٰ یعنی پرہیز گاری کا حصول، اور یہ تو وہ اہم مقصد ہے جو خود روزے فرض کرنے والی ذات یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قراٰنِ مجید میں بیان کیا ہے، وہ فرماتا ہے: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ (پ2،البقرۃ:183)
معاویہ رضا: سر تقویٰ (پرہیزگاری)کیا ہے؟
بیٹا تقویٰ یہ ہے کہ خود کو عذاب کا سبب بننے والی چیز یعنی ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچایاجائے۔تواچھے کام کرنا اور برے کاموں سے بچنا،یہ ہے روزے کا مقصد ایسا نہ ہو کہ کھانا پینا تو چھوڑ دیں ہم لیکن گالی، چوری اور لڑائی جھگڑا نہ چھوڑیں ایسے تو روزے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا! تبھی تو ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایاایسے شخص کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ پاک کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔تقویٰ کی وضاحت کرنے کے بعد سر وائٹ بورڈ کے پاس آ کھڑے ہوئے اور احساس پر دائرہ لگاتے ہوئے کہا: بچو روزے کا دوسرا مقصد ہے احساس۔ یعنی جب کوئی شخص دن بھر بھوکا پیاسا رہے گا تو لازمی سی بات ہے کہ دل میں یہ خیال آئے گا کہ میں تو ایک مہینے میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کھا پی نہیں سکتا تو ان بے چاروں کی کیا حالت ہوتی ہوگی جو سارا سال ہی غربت کی وجہ سے ہر روز بھوک برداشت کرتے ہیں ، میں تو سارا دن بھوکا رہ کر شام میں افطاری میں مزے کی غذائیں(Dishes)کھاتا ہوں جب کہ وہ تو بھوکے رہنے کے بعد بھی مزید بھوک ہی کھاتے ہیں۔ تب دل میں غریبوں کی مدد کا احساس پیدا ہوگا اور صدقہ و خیرات کی طرف دل مائل ہوگا اور آپ کو پتا ہے رمضان میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات کا بھی خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے تبھی تو رمضان المبارک میں حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخاوت کے متعلق آپ کے چچا کے بیٹے حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما کہتے ہیں کہ آپ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کرپاتی۔ (بخاری،1/10،حدیث:6)
سر خاموش ہوئے تو کامران نے پوچھا: سر جی کردار سازی سے کیا مراد ہے؟
سر بلال: جی جی بیٹا میں اسی طرف آ رہا ہوں، یعنی پورے ایک ماہ کے روزے جو ہم پر فرض کئے گئے ہیں اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ رمضان کی برکت سے جو ہم نے نیکیاں شروع کی ہوں وہ ہماری زندگی کا باقاعدہ حصہ بن جائیں یعنی ہمارا یہ ذہن ہو کہ رمضانُ المبارک گزرجانے کے بعد بھی اسی طرح عبادت کرتے رہنا ہے۔ رمضان میں تراویح بھی پڑھتے تھے تو رمضان کے بعد کم از کم پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ پڑھتے رہیں، رمضان میں روزانہ ایک پارہ پڑھتے تھے تو رمضان کے بعد کم از کم روزانہ ایک صفحہ ہی قراٰن پاک کا پڑھتے رہیں، رمضان میں روزانہ افطاری پڑوس میں بھجواتے تھے تو رمضان کے بعد کم از کم ہفتے میں ایک بار کوئی اچھی چیز گھر بنے تو اس میں سے پڑوس میں بھجوا دی جائے، یوں مطلب کہ وہ سارے اچھے کام جو رمضان میں کرتے تھے اور وہ سارے برے کام جن سے رمضان میں بچتے تھے پورے سال بلکہ پوری زندگی کا حصہ بنالیں تب اِن شآءَ اللہ دنیا بھی اچھی اور آخرت بھی اچھی ہوگی۔ سر نے لیکچر ختم کرتے ہوئے ٹیبل پر رکھی اپنی چیزیں سمیٹنا شروع کر دی تھیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی
Comments