مومن کھیتی کی طرح ہوتا ہے

شرح حدیث  رسول

مومن کھیتی کی طرح ہوتا ہے

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025

مسلم شریف میں ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:

مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ، تُفِيئُهَا الرِّيَاحُ، تَصْرَعُهَا مَرَّةً وَتَعْدِلُهَا، حَتَّى يَاْتِيَهُ اَجَلُهُ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ الْاَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ الَّتِي لَا يُصِيبُهَا شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً وَاحِدَةً

ترجمہ:مؤمن کی مثال کھیتی کی نرم ٹہنی کی طرح ہے، جسے ہوائیں اُلٹتی پلٹتی رہتی ہیں،کبھی اس کو جھکا دیتی ہے اور کبھی اس کو سیدھا کردیتی ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے، جسے کوئی مصیبت نہیں پہنچتی حتی کہ وہ ایک ہی بار جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔ ([1])

اس حدیثِ رسول کو امام مسلم کے علاوہ امام عبدالرزاق، امام بخاری،امام احمد بن حنبل،امام ترمذی،امام ابنِ حبان اور امام بغوی ( رحمۃُ اللہِ علیہم)جیسے جلیل القدر محدثین نے روایت کیا ہے۔([2])

شرحِ حدیث:رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  (ان پر ہمارے ماں باپ، جان ومال اور عزت وآبرو قربان)کی زبان اقدس سے نکلنے والی ہر بات فصاحت وبلاغت کی بلندیوں پر فائز ہوتی ہے اور ہماری زندگیوں میں مثبت تبدیلی کے لئے مشعلِ راہ ہوتی ہے۔ مذکورہ حدیث پاک میں بھی ایک حقیقت کو سمجھایا گیا ہے جس کے لئے مومن کی مثال کھیتی اور کافر ومنافق کی مثال صنوبر سے دی گئی ہے۔

قراٰنی ونبوی اسلوب:مثال دے کر سمجھانا قراٰنی اور نبوی اسلوب ہے جس سےبات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ اللہ ربُّ العزت نے قراٰنِ پاک میں توحید و کفر، حق وباطل، نورِ الٰہی، عظمتِ قراٰن، مُوَحِّد و مشرک،گمراہی،حکمِ الٰہی کی نافرمانی کرنے والوں،مخلص اور ریا کار کے عمل وغیرہ کو مثال سے بیان کیا اورفرمایا:

)وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵)(

ترجمۂ کنزالایمان: اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔([3])

اسی طرح مدینےکے تاجدار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بھی بہت سے ارشادات میں مثالیں بیان فرمائیں جیسے ایک مقام پر مؤمن کی مثال کھجور کے درخت سےدی اور مسلمانوں کے آپس کے تعلق کی مثال ایک جسم سے دی۔

مؤمن کو کھیتی کی مثل کہنے کی وجہ:آپ نے دیکھا ہوگا کہ نرم کھیتی کو جب ہواا ُلٹتی ہے تو وہ بچھ جاتی ہے اکڑتی نہیں اور جب ہوا اسے سیدھا کرتی ہے تو وہ سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے اسی طرح مومن کے پاس اگر حکمِ الٰہی آتا ہے تو اس کی تعمیل کرتا ہے اور اس پر راضی رہتا ہے، اگر اس کے پاس بھلائی آتی ہے تو وہ اس پرخوش ہوتا ہے اورربِّ کریم کا شکر کرتا ہے، اگر اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو صبر کرتا ہے اور ثواب کی امید رکھتا ہے،جب وہ مصیبت اس سے دور ہوجاتی ہے تو وہ نارمل ہوجاتاہے اور شکر ادا کرتا ہے۔([4])

منافق وکافر کو صنوبر کی مثل کہنے کی وجہ:صنوبر،مخروطی پتوں والا ایک درخت ہے جو بڑی سست روی سے(ایک تحقیق کے مطابق 50 سال میں تقریباًتین فٹ) بڑھتاہے اور اس کی عمر بسااوقات ہزاروں سال ہوتی ہے،تیز ہوائیں اس پر کچھ اثر نہیں کرتیں بلکہ وہ سیدھا کھڑا رہتا ہے لیکن اچانک اُکھڑ کر گر جاتاہے، اسی طرح کافر پر مصیبتیں نہیں آتیں بلکہ اسے دنیا میں آسانیاں دی جاتی ہیں مگر اسے آخرت میں شدید دشواریوں کا سامنا ہوگا۔اللہ جب کافر کو ہلاک کرتا ہے تو اس کی موت نہایت سخت ہوتی ہے اور اس کی رُوح دردناک طریقے سے جسم سے جدا ہوتی ہے۔([5])

حدیثِ پاک کامطلب: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن کو اپنے جسم، اہلِ خانہ یا اپنے مال میں بہت زیادہ رنج والم پہنچتے ہیں جو اس کے گناہوں کومٹاتے ہیں اور درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں جبکہ کافر کو بہت کم مصیبتیں پہنچتی ہیں اگر پہنچتی بھی ہیں تو اس کے کسی گناہ کو نہیں مٹاتیں بلکہ قیامت کے دن کافر کے سارے گناہ اس کے اعمال نامے میں موجود ہوں گے۔([6])

مراٰۃ المناجیح میں ہے: مؤمن کی دنیوی تکلیفیں آخرت کی راحت کا سبب ہیں،منافق کی دنیوی راحتیں آخرت کی مصیبتوں کا ذریعہ، یہ بھی قاعدہ اکثریہ ہے،ورنہ مؤمن دنیا میں کتنا ہی آرام سے رہے اِن شآءَ اللہ آخرت کے دائمی عذاب سے بچے گا،کافر دنیا میں کتنی ہی مصیبت سے رہے مگر آخرت میں نجات نہیں پاسکتا۔روح البیان میں ایک جگہ فرمایا کہ ایک مصیبت زدہ کافر نے کسی عیش والے مؤمن سے کہا کہ تمہارے نبی ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )نے فرمایا ہے دنیا مؤمن کی جیل ہے اور کافر کی جنت۔ مگر یہاں تم جنت میں ہو اور میں جیل میں، انہوں نے فوراً جواب دیا کہ تُو آخرت کی مصیبتوں کو دیکھ کر دنیا کی ان تکالیف کو جنت سمجھے گا اور ہم  وہاں کی راحتوں کو دیکھ کر یہاں کے عیش کوجیل سمجھتے ہیں اورسمجھیں گے،نیز ہم ان عیشوں میں دل نہیں لگاتے،جیل اگرچہ اے کلاس ہو مگر جیل ہے اور تم یہاں سے جانا نہیں چاہتے، ہمارے نبی کی حدیث بالکل صحیح ہے۔ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔([7])

مصیبت زدوں کی اقسام:امام ابوالفرج ابن جوزی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:مصیبت زدوں کی چار قسمیں ہیں،پہلے وہ لوگ جن کی نظر مصیبت( پر صبر کرنے) کے ثواب پر ہوتی ہے،ان کے لئے مصیبت سہنا آسان ہوجاتا ہے، دوسرے وہ لوگ جو اس بات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں مالکِ کائنات نے اپنی مِلک میں تصرف کیا ہے تو وہ سرِ تسلیم خم کرلیتےہیں اور مصیبت پر شکوہ نہیں کرتے،تیسرے وہ لوگ جنہیں محبتِ الٰہی مصائب دور ہونےکے مطالبے سے روکتی ہے،یہ تیسری قسم پہلی دوقسموں سے اعلیٰ ہوتی ہے،اور چوتھی قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں مصیبت میں لذت ملتی ہے یہ سب سے اعلیٰ قسم ہے۔([8])اگر ہم ان باتوں کو پیشِ نظر رکھیں تو مصیبت پر صبرکرنا آسان ہوجائے گا۔اِن شآءَ اللہ

مومن کے لئے اشارہ:اس حدیث میں مؤمن کے لئے اشارہ ہے کہ وہ خود کو دنیا میں عارضی سمجھے جسے لذتوں اور خواہشات کی تکمیل سے الگ تھلگ رہنا ہے،اس کے برعکس خود کو حادثوں اور آفات کاسامنا کرنے کے لئے تیار رکھنا چاہئے جو(صبر کرنے پر) انسان کی آخرت بہتر کرتی ہیں اور اسے داخلِ جنت کرواتی ہیں۔([9])

عمل کی کمی مصیبت کے ذریعے پوری کی جاتی ہے:فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جب کسی بندے کے لئے اللہ پاک کی طرف سے کوئی درجہ مقدر ہوچکا ہو جہاں تک یہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتا تو پاک اسے اس کے جسم یا مال یا اولاد کی آفت میں مبتلا کردیتا ہے پھر اسے اس پر صبر بھی دیتا ہے یہاں تک کہ اسے اس درجہ تک پہنچا دیتا ہے جو اللہ نے اس کے لئے مقدر فرمایا ہے۔([10])

عاشقانِ رسول! جس طرح ہم خوشی اور آسانی کےمنتظر ہوتے ہیں، اسی طرح ہمیں رنج ومصیبت کا سامنا کرنےکے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں صابر وشاکر بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 مصیبت پر صبر کے فضائل اور طریقہ جاننےکے لئے مکتبۃ المدینہ کی ان مطبوعات کو پڑھ لیجئے:’’مینڈک سوار بچھو ،  خودکشی کا علاج، اپنی مصیبت دوسرے کو بتانا کیسا؟ صبرِ جمیل کسے کہتے ہیں؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])مسلم، ص1156، حدیث:7095

([2])مصنف عبد الرزاق، 10/ 200، حدیث: 4797- مسند احمد، 13 / 220، حدیث:7814-بخاری،4/3،حدیث:5643-ترمذی،4/396،حدیث: 2875- ابن حبان، 4/251،حدیث: 2904- شرح السنہ للبغوی، 3 / 190، حدیث: 1431

([3])پ13، ابراہیم:25

([4])دیکھئے: ارشاد الساری، 12/   436، تحت الحدیث: 5643

([5])دیکھئے :ارشاد الساری، 12/   436، تحت الحدیث: 5643

([6])شرح مسلم للنووی ، 17/ 153

([7])مراٰۃ المناجیح، 2/412

([8])دیکھئے :ارشاد الساری، 12/   436، تحت الحدیث: 5643

([9])دیکھئے: ارشاد الساری، 12/   436، تحت الحدیث: 5643

([10])ابوداؤد ،3/ 246،حدیث:3090


Share