
وفادار دوست
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : يَتْبَعُ المَيِّتَ ثَلاَثَةٌ، فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ: يَتْبَعُهٗ اَهْلُهٗ وَمَالُهٗ وَعَمَلُهٗ، فَيَرْجِعُ اَهْلُهٗ وَمَالُهٗ وَيَبْقَى عَمَلُهٗ۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں،ان میں سے دو چیزیں واپس آجاتی ہیں جبکہ ایک چیز وہیں رہ جاتی ہے۔ میت کے گھر والے ، اس کا مال اور اس کاعمل پیچھے جاتا ہے، پھر اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں جبکہ اس کا عمل اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ([1])
یہ حدیثِ رسول سفرِ آخرت کی حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔اس سفر کی پہلی منزل قبر ہے۔اس سفر پر رخصت کرنے کے لیے تین چیزیں مرنے والےکے ساتھ جاتی ہیں۔ دو بے وفا جو مردے کو چھوڑ کر لوٹ آتی ہیں۔ ایک وفادار جو ساتھ رہتی ہے۔([2])
(1)اہل وعیال : سب سے پہلے گھروالوں کا ذکر ہے کہ وہ بھی قبر تک میت کے ساتھ جاتے ہیں ۔عَلَّامَہ عَلِی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: گھر کے لوگوں سے مراد بال بچے، عزیز و اَقارب اور دوست و آشنا ہیں۔([3]) جب دفنانے کا مرحلہ ختم ہوتا ہے تو سب واپس لوٹ جاتے ہیں خواہ دفن کے بعد کچھ دیر ٹھہرتے ہوں یا فوراً واپس چلے جائیں۔([4])
بال بچوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہوتی ہے لیکن تدفین کے بعد یہ بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
کیوں روتے ہو؟
ایک شخص شدید بیمار تھا ، ایسا لگتاتھا کہ دنیا میں کچھ ہی دیر کا مہمان ہے۔اس کے بچے، زوجہ اورماں باپ اِرد گرد کھڑے آنسو بہارہے تھے۔اس نے پوچھا: ’’ابا جان! آپ کو کس چیز نے رُلایا؟“ باپ نے جواب دیا:’’میرے جِگر کے ٹکڑے! جدائی کا غم رُلا رہا ہے، تمہارے مرنے کے بعد ہمارا کیا بنے گا؟‘‘ اس شخص نے اپنی والدہ سے پوچھا: ’’پیاری امّی جان! آپ کیوں رو رہی ہیں؟“ ماں نے جواب دیا: ”میرے لال! دنیا سے تیری رُخصتی کا سوچ کر رو رہی ہوں، میں تیرے بغیر کیسے رہ پاؤں گی؟“پھراپنی بیوی سے پوچھا:”تمہیں کس چیز نے رونے پر مجبورکیا؟“اس نے بھی کہا:’’میرے سَرتا ج! آپ کے بغیر ہماری زندگی اَجِیرن ہوجائے گی، جُدائی کا غم میرے دل کو گھائل کر رہا ہے، آپ کے بعد میرا کیا بنے گا؟“ پھر اپنے روتے ہوئے بچو ں کو قریب بلایا اور پوچھا:”میرے بچو! تمہیں کس چیز نے رُلایا ہے؟“ بچے کہنے لگے:”آپ کے وِصال کے بعد ہم یتیم ہوجائیں گے، ہمارے سر سے باپ کا سایہ اٹھ جائے گا، آپ کے بعد ہمارا کیا بنے گا؟“ ان سب کی یہ باتیں سن کر وہ شخص کہنے لگا :”تم سب میرے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے رو رہے ہو، کیا تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جسے اس بات نے رُلایا ہو کہ مرنے کے بعد قبر میں میرا کیا حال ہوگا، عنقریب مجھے وحشت ناک، تنگ وتاریک قبر میں چھوڑ دیا جائے گا، کیا تم میں سے کوئی اس بات پر بھی رویا کہ مجھے مرنے کے بعد مُنْکَرنَکِیْر (یعنی قبر میں سوالات کرنے والے فرشتوں) سے واسطہ پڑے گا!کیاتم میں سے کوئی اس خوف سے بھی رویا کہ مجھے ربِّ جلیل کے سامنے حساب وکتاب کے لیے کھڑا کیا جائے گا! آہ! تم میں سے کوئی بھی میری اُخروی پریشانیوں کی وجہ سے نہیں رویا بلکہ ہر ایک اپنی دنیا کی وجہ سے رو رہا ہے۔“اس گفتگو کے کچھ ہی دیر بعد اس کی رُوح پرواز کرگئی۔([5])
اس حکایت میں ہمارے لیے عبرت ہی عبرت ہے کہ وہ اہل وعیال جن کے عیش وآرام کے لیے ہم اپنی نیندیں قربان کردیتے ہیں، جنہیں آسائشیں دینے کے لیے ہم بڑی خوشی سے مشقتیں برداشت کرتے ہیں، جن کی راحتوں کے لیے ہم خود کو غموں کے حوالے کردیتے ہیں، جونہی ہمارا سفرِ زندگی ختم ہوتا ہے انہیں ہماری نہیں اپنی فکر ستانے لگتی ہے کہ اِس کے جانے کے بعد ہمارا کیا بنے گا؟ کاش! وہ یہ بھی سوچتے کہ مرنے کے بعد اِس کا کیا بنے گا؟
(2)مال: دوسرے نمبر پر مال ہے جو میت کو قبر میں تنہا چھوڑ کر واپس آجاتا ہے یعنی اس کے غلام، باندیاں، سواری، خیمہ اور دیگر اس قسم کی چیزیں۔علامہ مظہرفرماتے ہیں: ”اس سے مراد میت کے مال میں سے کچھ چیزیں ہیں، خاص طور پر اس کے خادم اور ملازم۔“ مال کا میت سے اس وقت ایک خاص تعلق ہوتا ہے جیسے اسے غسل دینے، کفن دینے، جنازہ اٹھانے اور دفن کرنے کے اخراجات وغیرہ۔لیکن جب میت کو دفن کر دیا جاتا ہے تو مال کا یہ تعلق مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔([6])
(3)عمل: اس کے ساتھ قبر میں رہتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے نتیجے میں ثواب یا عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ:”قبر عمل کا صندوق ہے۔“([7])اَعمال سے مراد سارے اچھے بُرے عمل ہیں جو میت نے اپنی زندگی میں کئے۔ اَعمال کے ساتھ جانے سے مراد ان کا میت کے ساتھ تعلق ہے جو مرنے کے بعد قائم رہتا ہے۔نیک اَعمال جو قبول ہوگئے ہمیشہ اُس کے ساتھ رہتے ہیں، بُرے اَعمال شفاعت، بخشش یا سزا بھگتنے تک چمٹے رہتے ہیں، اِن چیزوں کے بعد پیچھا چھوڑتے ہیں، جس پر مولیٰ رحم کرے۔ ([8])
کاش میں نے تجھے ترجیح دی ہوتی!
حضرت سیِّدُنا عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”جب میِّت کو قبرمیں رکھا جاتا ہے توسب سے پہلے اُس کا عمل آ کر اس کی بائیں ران کو حَرَکت دیتا اور کہتا ہے: میں تیرا عمل ہوں۔ وہ مُردہ پوچھتا ہے: ”میرے بال بچّے کہاں ہیں؟ میری نعمتیں، میری دَولتیں کہاں ہیں؟“ تو عمل کہتا ہے:”یہ سب تیرے پیچھے رَہ گئے اور میرے سوا تیری قبر میں کوئی نہیں آیا۔“ وہ مُردہ حسرت سے کہتا ہے:”اے کاش! میں نے اپنے بال بچوں، اپنی نعمتوں اور دولتوں کے مقابلے میں تجھے ترجیح دی ہوتی کیونکہ تیرے سوا میرے ساتھ کوئی نہیں آیا۔“([9])
جو عمل مرنے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں
نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: انسان جب مرجاتا ہے اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں (کہ مرنے کے بعد بھی یہ عمل ختم نہیں ہوتے اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے ہیں) (1)صدقہ جاریہ اور (2)علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہو اور (3) اولاد صالح جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے۔([10])
ایک حدیثِ پاک میں 7 چیزوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مومن کے انتقال کے بعد اس کے عمل اور نیکیوں میں سے جو کچھ اسے ملتا رہے گا، وہ یہ ہے۔ (1)اس کا وہ علم جسے اس نے سکھایا اور پھیلایا اور(2) نیک بیٹا جسے اس نے چھوڑا، یا(3) وہ قراٰن پاک جسے ورثہ میں چھوڑا، یا (4) وہ مسجد جسے اس نے بنایا،یا (5) مسافرخانہ بنایا ،یا (6) کسی نہر کو جاری کیا،یا (7) وہ صدقہ جاریہ جسے اس نے حالتِ صحت اور زندگی میں اپنے مال سے دیا، ان کا ثواب اسے موت کے بعد بھی ملتا رہے گا۔ ([11])
اللہ ہمیں قبر وحشرکی تیاری کی توفیق دے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments