
آپ کاج، مہا کاج
آج کے سبق کا کوئی خاص عنوان نہیں تھا۔ دراصل ہفتے (Week) میں ایک بار سر بلال پرنسپل صاحب کی ہدایت کے مطابق بچّوں کی کسی ایک اخلاقی موضوع پر تربیَت کیا کرتے تھے، آج بھی وہ کلاس روم کی طرف جاتے ہوئے اسی سوچ میں مگن تھے کہ کس موضوع پر تربیَت کی جائے تبھی انہیں کل کلاس میں دیکھا ایک منظر یاد آیا تو ساتھ ہی لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی گویا انہیں موضوع مل چکا تھا۔
کلاس روم میں آتے ہی سر نے مسکراتے ہوئے سب بچّوں کو پُرخُلوص سلام کیا، جس کا جواب بچّوں نے انتہائی خوش دلی اور جوش سے دیا۔ اس کے بعد سر بلال سیدھا وائٹ بورڈ کی طرف گئے اور اس پر ایک جملہ لکھ دیا: ”آپ کاج، مہا کاج“
بچّے حیرانی سے بورڈ پر لکھا جملہ دیکھ رہے تھے، اردو میں ہونے کی وجہ سے پڑھا تو جا رہا تھا لیکن معنیٰ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
لکھنے کے بعد جیسے ہی سر بلال نے اسٹوڈنٹ کی طرف رُخ کیاتو اُسید رضا نے اس جملے کا مطلب پوچھا۔
سر کہنے لگے: جی جی بتاتا ہوں، پہلے آپ لوگ میرے ایک سُوال کا جواب دیجیے کہ آپ نے جو شوز پہنے ہوئے ہیں، کس کس نے یہ خود پالش کیے تھے؟
سر کے سُوال پر سارے بچّے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر صرف چار سے پانچ بچّوں کے ہاتھ بلند ہوئے۔ اتنے کم ہاتھ کھڑے دیکھ کر سر مسکرائے اور پھر کہنے لگے: آؤ بچو! ایک واقعہ سنتے ہیں، ایک سفر کے دوران صحابۂ کِرام علیہمُ الرّضوان نے کھانا پکانے کا فیصلہ کیا اور سارے کام آپس میں تقسیم کر لیے، کسی نے کہا میں بکری ذبح کروں گا، کسی نے کھال اُتارنے کا کام لیا اور کسی نے گوشت پکانے کی ذمّہ داری لے لی۔ یہ سن کر نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لکڑیاں میں جمع کروں گا۔
یہ سُن کر صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض بھی کیا کہ آپ تکلیف نہ کریں ہم یہ کام بھی کر لیں گے، آگے سے پتا ہے ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیا جواب دیا؟ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جو جواب دیا وہ ہم میں سے ہر ایک مسلمان کو اپنے دل پر لکھ لینا چاہیے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تم میرا کام بھی کر لو گے مگر مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں اپنے ساتھیوں میں منفرد دِکھوں۔(شرح الزرقانی علی المواہب،6/48)
اچھا بچو، گھر سے باہر ہی نہیں گھر میں بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایسی ہی عادت تھی، امّی جان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود کرتے، بکری کا دودھ دوہتے، اپنے کپڑوں میں ٹانکا لگاتے (یہاں تک کہ) اپنے جوتے ٹھیک کرتے۔(آداب زندگی،ص 151)
تو بچّو! جب ہمارے نبی ساری مخلوقات کے سردار ہو کر بھی اپنا کام خود کرنا پسند کرتے تھے تو ہم تو ان کے اُمّتی ہیں، ہمیں بھی اپنا کام خود ہی کرنا چاہیے۔
سر کی بات مکمل ہوئی تو علی نے ہاتھ کھڑا کیا: سر! اگر کوئی کام بہت مشکل ہو جائے، جیسے بڑی چیز اُٹھانا یا کوئی اُلجھا ہوا سُوال، تو کیا تب بھی خود ہی کرنا چاہیے؟
سر بلال: جی بیٹا! آپ نے بہت اچّھا سوال کیا ہے، دیکھیں بچو! اگر واقعی مدد کی ضَرورت ہو تو ضَرور مانگنی بھی چاہیے اور ہمیں ایسے موقع پر دوسروں کی مدد کرنی بھی چاہیے کیونکہ اکیلے کوئی کام غلط کرلینے سے بہتر ہے کسی کی مدد لے لی جائے لیکن جو چھوٹے موٹے کام ہیں وہ تو ہمیں خود ہی کر لینے چاہئیں جیسے: خود سے اٹھ کر پانی پی لینا، اپنا بستر سمیٹ لینا، اپنا سامان خود سے اٹھا لینا۔ مدد تب ہی مانگیں جب واقعی مشکل کام ہو، ایسا نہیں کرنا کہ ہوم ورک کرنے کو دل نہیں کر رہا تو بھائی سے کروا لیتا ہوں ۔
سر کی آخِری بات پر ساری کلاس مسکرانے لگی۔
اچّھا تو اب ہم چلتے ہیں اُسید کے سوال کی طرف، یعنی اس جملے کا مطلب کیا ہے تو بچو! یہ اردو کی ضرب المثل (Proverb) ہے جس کا مطلب ہے کہ دوسروں کے آسرے میں رہ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ اپنا کام خود ہی کرنا چاہیے کہ اپنا کام جتنا اچھا اپنے ہاتھ سے ہوتا ہے ویسا دوسرے کے ہاتھ سے نہیں ہوتا۔ اور پتا ہے بچو! اپنا کام خود کرنا تو ایسی خوبی( Quality) ہے کہ پچھلے انبیائے کرام علیہم السّلام بھی اس حوالے سے تربیَت فرماتے تھے، اللہ کے پیارے نبی حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تھا: جو اپنے ہاتھ سے کام کرتا ہے وہ تم سے بہتر ہے۔(آداب زندگی، ص 150) تو بچو آپ بھی بہتر بننا چاہتے ہیں ناں؟
سب بچوں نے بیک آواز کہا: جی سر
سر بلال: تو پھر آج سے نیّت کریں کہ ہم اپنا کام خود کریں گے اور دوسروں پر بوجھ نہیں بنیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مدرس جامعۃُ المدینہ، فیضان آن لائن اکیڈمی
Comments