وطن سے محبت
ہر انسان کو اپنا وطن عزیز ہوتا ہے، وطن سے محبت فطری جذبہ ہے اور اسلام نے بھی اس جذبے کو سراہا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جب مکہ سے ہجرت کی تو اپنی محبوب سرزمین سے جدائی پر اشک بار ہوئے اور فرمایا: اے مکہ! تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ (ترمذی،5/486،حدیث:3951) اس میں ہمارے لیے تعلیم ہے کہ وطن سے محبت، وفاداری اور خدمت، ہر شہری کا اخلاقی، قانونی اور دینی فریضہ ہے۔
ایک وفادار شہری صرف دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے اپنی محبت کا ثبوت دیتا ہے۔ وہ حکومت سے اپنے حقوق لیتا ہے مگر ساتھ میں فرائض بھی نبھاتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے ہر فرد کو اس کے دائرۂ کار میں وطن سے وفاداری کے تقاضوں سے روشناس کرایا جائے۔
عام شہری کے فرائض
(1)ملک کے قوانین کا احترام کرے:ایک باشعور شہری ہونے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے قوانین کی مکمل پاسداری کریں۔ قوانین دراصل ایک معاشرتی معاہدہ ہوتے ہیں جو عوام کی فلاح، انصاف اور امن کو یقینی بناتے ہیں، اگر ہر فرد قانون کی عزت کرے گا تو معاشرہ انتشار، بدامنی اور ناانصافی سے محفوظ رہے گا، قانون شکنی صرف فرد کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔
(2)امانت و دیانت داری سے کام کرے: امانت اور دیانت داری کسی بھی قوم کی ترقی کا ستون ہیں، ایک عام شہری اگر اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھائے تو اداروں کا عوام پر اعتماد بڑھے گا۔ اسی طرح اگر ادارے بھی اپنے کام دیانت داری سے کریں تو عوام بھی اداروں پر اعتماد کرے گی، یوں معاشرے میں شفافیت آئے گی؛ دفتر، دکان، فیکٹری یا کوئی بھی میدان ہو اگر ہر شخص دیانت داری کو شعار بنا لے تو بدعنوانی خود بخود ختم ہو جائے گی۔
(3)صفائی، نظم و ضبط:صفائی نصف ایمان ہے، اور نظم و ضبط کسی بھی مہذب قوم کی پہچان ہوتا ہے۔ ایک ذمے دار شہری کو چاہیے کہ اپنے اِردگِرد کے ماحول کو صاف رکھے اور عوامی مقامات و سڑکوں پر نظم و ضبط کا مظاہرہ کرے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی تبدیلیوں کی بنیاد بنتی ہیں۔
(4)ملکی املاک کو نقصان سے محفوظ رکھیے:ملکی املاک (پارک، سڑک، اسکول، اسپتال وغیرہ) قوم کی مشترکہ دولت ہوتی ہے، جنہیں محفوظ رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ پارکوں میں درختوں کو نقصان پہنچانا، دیواروں پر لکھائی کرنا، یا سرکاری عمارتوں کی چیزوں کو توڑنا درحقیقت اپنے ہی وطن کو نقصان پہنچانا ہے۔ ایک مہذب شہری اِن املاک کو اپنی ذاتی چیزوں کی طرح قیمتی سمجھتا ہے۔
(5)انتشار و فتنہ سے بچے:معاشرے میں امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد نفرت اور فساد انگیزی سے دور رہے۔ فتنہ و فساد نہ صرف ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ عوام کے درمیان اعتماد اور بھائی چارے کو بھی متأثر کرتا ہے۔ ایک سمجھدار شہری کبھی ایسے عناصر کا حصہ نہیں بنتا بلکہ انہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے۔
طلبہ و طالبات کی ذمہ داریاں
(1)علم حاصل کریں تاکہ ملک کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں:طلبہ و طالبات قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی ذمہ داری علم حاصل کرنا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ نسل ہی کسی ملک کی ترقی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ علم نہ صرف فرد کی شخصیت نکھارتا ہے بلکہ اسے ملک و قوم کے لیے مفید شہری بناتا ہے۔ لہٰذا طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں حصولِ علم پر مرکوز رکھیں تاکہ کل وہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔
(2)سچائی، دیانت، محنت اور خدمت کا جذبہ اپنائیں:ایک طالبِ علم کا کردار اس کی تعلیم سے بڑھ کر اہم ہوتا ہے۔ سچائی، دیانت داری، محنت اور دوسروں کی خدمت کا جذبہ، یہ وہ اخلاقی اوصاف ہیں جو ایک فرد کو عظیم بناتے ہیں۔ جب یہ صفات طلبہ میں پیدا ہوں گی تو وہ نہ صرف اچھے طالبِ علم بلکہ مثالی شہری بھی بنیں گے، جو ملک کے لیے سرمایہ ہوں گے۔
(3)تعلیمی اداروں کو احترام دیں:تعلیمی ادارے قوم کی تعمیر کا ذریعہ ہوتے ہیں، ان کا احترام اور حفاظت طلبہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ جو طالبِ علم ادارے کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، وہ دراصل اپنی ہی تعلیم اور قوم کے مستقبل کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ایک ذمہ دار طالبِ علم ادارے کی ہر چیز کو امانت سمجھتا ہے۔
(4)وقت کی پابندی، ادب و اخلاق کو اپنائیں:تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہیں بلکہ تربیت بھی اس کا لازمی حصہ ہے۔ وقت کی پابندی، بڑوں کا ادب اور دوسروں سے حسنِ سلوک، یہ وہ خوبیاں ہیں جو ایک طالبِ علم کی شخصیت کو نکھارتی ہیں۔ ایسے طلبہ ہی کل کے کامیاب راہنما، استاد اور مخلص شہری بن سکتے ہیں۔
سرکاری ملازمین اور اداروں کی ذمہ داریاں
(1)قوم کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھیں:سرکاری ملازمین عوامی خدمت پر مامور ہوتے ہیں، اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیں تو ملک میں انصاف، ترقی اور خوشحالی آ سکتی ہے۔ خدمت کے جذبے سے کام کرنے والا افسر یا ملازم صرف تنخواہ کے لیے نہیں بلکہ قوم کی بھلائی کے لیے سرگرم ہوتا ہے۔
(2)عوام کے ساتھ حسنِ سلوک اور عدل و انصاف سے پیش آئیں:سرکاری اداروں میں آنے والے افراد اکثر مسائل اور پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں، اگر سرکاری ملازمین ان سے نرمی، خلوص اور انصاف کے ساتھ پیش آئیں تو عوام کا اعتماد بڑھے گا اور اداروں کی ساکھ بہتر ہو گی۔ حسنِ سلوک اور عدل کسی بھی نظام کا حسن ہوتے ہیں۔
(3)کرپشن،بِلا جواز سفارش اور بددیانتی سے بچیں:قوم کا سب سے بڑا نقصان بدعنوانی، سفارش اور بددیانتی سے ہوتا ہے۔ اگر سرکاری اداروں کے افراد دیانت داری اور میرٹ کو اپنائیں تو نظام خود بخود بہتر ہو جائے گا۔ ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ایسی برائیوں سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی روکے۔
(4)ادارے کی خفیہ باتیں اور چیزیں کسی پر ظاہر نہ کریں: سرکاری معاملات میں کئی اہم اور خفیہ امور ہوتے ہیں جن کا تحفظ ہر ملازم کی ذمے داری ہے، ادارے کےراز کھولنا قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایک مخلص ملازم ہمیشہ ادارے کے وقار کو مقدم رکھتا ہے اور راز داری کا لحاظ رکھتا ہے۔
نوجوانوں کی ذمہ داریاں
(1)تخلیقی صلاحیتوں کو قوم کی خدمت کے لیے استعمال کریں: نوجوانوں میں بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں، جنہیں سائنسی تحقیق، ادب، فن، یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ صلاحیتیں اگر قومی خدمت کے لیے بروئے کار لائی جائیں تو ملک ترقی کی نئی منزلیں طے کر سکتا ہے۔
(2)سوشل میڈیا پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں: آج کا نوجوان ڈیجیٹل دور میں پروان چڑھ رہا ہے، سوشل میڈیا کا استعمال آزادی کا ذریعہ ضرور ہے مگر اس کے ساتھ ذمہ داری بھی لازم ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ جھوٹی خبروں، نفرت انگیزی اور بدتمیزی سے پرہیز کریں اور مثبت پیغام عام کریں۔
(3) منشیات، بے راہ روی سے دور رہیں: منشیات اور بے راہ روی نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر نوجوان ان سے بچیں اور خود کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول رکھیں تو نہ صرف وہ خود کامیاب ہوں گے بلکہ قوم بھی ترقی کرے گی۔
(4)مثبت سرگرمیوں میں حصہ لیں:نوجوان طلبہ کو چاہئے کہ تعمیری وفلاحی کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں میں میں اپنا حصہ شامل کریں، نوجوان کئی طریقوں سے ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ جب نوجوان اپنی توانائیوں کو تعمیری سرگرمیوں میں صرف کریں گے تو پاکستان کو ایک باشعور اور فعال نسل میسر آئے گی۔
علما، اساتذہ اور مشائخ کی ذمہ داریاں
(1) شعور، اتحاد، امن اور قربانی کا جذبہ پیدا کریں:علما، اساتذہ اور مشائخ سماج کے راہنما ہوتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ عوام میں قومی شعور بیدار کریں، بھائی چارے کو فروغ دیں، اور قربانی کے جذبے کو زندہ رکھیں۔ ان کی بات کا اثر دلوں پر ہوتا ہے، اس لیے وہ مثبت پیغام پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
(2)دین و وطن کے ساتھ وفاداری کا درس دیں: یہ ذمہ دار طبقہ نئی نسل کو نہ صرف دین کے اصول سکھاتا ہے بلکہ وطن سے محبت اور وفاداری کا سبق بھی دیتا ہے۔ جب یہ راہنما خود دیانت، قربانی اور خدمت کی مثال بنیں گے تو عوام بھی ان کے نقشِ قدم پر چلے گی ۔
ذرائع ابلاغ (میڈیا) کی ذمہ داریاں
(1) سچ بولیں، سنسنی پھیلانے سے گریز کریں:میڈیا عوام کو خبریں اور معلومات فراہم کرتا ہے، اس لیے اس پر سچ بولنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جھوٹ اور سنسنی پھیلانےسے معاشرتی فتنہ پیدا ہوتا ہے، جو کسی طور بھی ملک و قوم کے لیے مفید نہیں۔
(2) ملکی سالمیت، اتحاد اور وقار کے خلاف مواد سے پرہیز کریں: میڈیا کو چاہیے کہ وہ اپنی رپورٹنگ اور پروگرامز میں ایسے خیالات یا خبریں نہ دکھائے جو ملک کے اتحاد کو نقصان پہنچائیں۔ یہ ادارہ عوام کے جذبات اور خیالات کو متأثر کرتا ہے، اس لیے اسے نہایت ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔
(3) نوجوانوں کو تعمیری سوچ دیں:میڈیا کی بڑی ذمہ داریوں میں یہ بھی ہے کہ وہ نوجوان نسل کی سوچ اور کرادر کو درست سمت لے جائے۔کرادر سازی کے لیے سیرتِ رسول،ذکرِ صحابہ و اہلِ بیت اور اسلاف کے تذکرے پر مشتمل پروگرامز نشر کرے تاکہ نوجوانوں کے دلوں میں عشقِ رسول،محبتِ صحابہ و اہلِ بیت پیدا ہو اور اسلاف سے عقیدت کی ترغیب ملنے کے ساتھ ساتھ نیکی کی راہ پر گامزن رہنے کا ذہن بھی بنے۔ اس حوالے سے مدنی چینل ایک روشن مثال ہے، جو دینی تعلیم، اخلاقی تربیت، اور مثبت کردار سازی کے ذریعے ہر طرح کے طبقے کے افراد کو ایک بہتر مسلمان اور اچھا شہری بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ خاص طور پر یومِ آزادی کے موقع پر لوگوں کے دِلوں میں وطن کی محبت اُجاگر کرنے کے لیے مدنی چینل پر مختلف پروگرامز نشر ہوتے ہیں جس سے نہ صرف وطن کی محبت پیدا ہوتی ہے بلکہ لوگوں کے اسلامی اقدار میں بھی بہتری آتی ہےاورعملی زندگی میں بھی کچھ اچھا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
محترم قارئین!وطن کی ترقی اس وقت ممکن ہے جب ہر شہری اپنے فرائض کو خلوص، دیانت اور ذمے داری کے ساتھ انجام دے۔ صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا کافی نہیں بلکہ اپنے حصے کا فرض ادا کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ وطن سے محبت صرف نعرے لگانے سے ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ یہ عمل، کردار اور قربانی سے جھلکتی ہے۔ اگر ہم سب اپنی اپنی جگہ خلوصِ نیت سے اپنے فرائض نبھائیں تو پاکستان کو ایک عظیم، باوقار اور ترقی یافتہ ملک بنایا جا سکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments