حضرت سیدنا اسحاق علیہ السّلام(تیسری اور آخری قسط)
حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کی وصیت:حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السَّلام بڑے مہمان نواز تھے مسکینوں پر رحم اور مسافروں پر شفقت فرماتے تھے ایک مرتبہ کئی دن گزر گئے لیکن کوئی مہمان نہ آیا جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السَّلام بے چین ہوگئے اور کسی کی مہمان نوازی کر نے کےلیے باہر راستے پر بیٹھ گئے وہاں سے حضرت عزرائیل علیہ السَّلام آدمی کی صورت میں گزرے اور حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کو سلام کیا حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے جواب دیا اور پوچھا: تم کون ہو؟ ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السَّلام نے جواب دیا: دور دراز سے آیا ہوں، حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے فرمایا: میں یہاں تمہارے جیسے کسی آدمی ہی کی تلاش میں بیٹھا ہوں، پھر حضرت عزرائیل علیہ السَّلام کا ہاتھ پکڑ کر کہا: میرے ساتھ چلو، حضرت عزرائیل علیہ السَّلام حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کے ساتھ چل دئیے اور ان کے گھر پہنچ گئے، حضرت سیدنا اسحاق علیہ السَّلام نے ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السَّلام کو دیکھا توپہچان گئے کہ یہ ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السَّلام ہیں لہٰذا رونے لگے حضرت بی بی سَارَہ رضیَ اللہ عنہا اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السَّلام کے رونے کی وجہ سے خود بھی رونے لگیں، انہیں روتا دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السَّلام بھی رونے لگے، آخر کار ملک الموت علیہ السَّلام وہاں سے چلے گئے، رونے کا معاملہ کچھ کم ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے ناراض ہوکر فرمایا: تم میرے مہمان کے سامنے روئے تو وہ چلا گیا، حضرت اسحاق علیہ السَّلام نے عرض کی: اے میرے والد محترم! مجھے ملامت مت کیجیے یہ آپ کے مہمان نہیں تھےیہ ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السَّلام تھے اگر مجھے معلوم ہوتا یہ میری یا میری والدہ کی روح قبض کرنے آئے ہیں تو میں نہ روتا لیکن میرا گمان یہی تھا وہ آپ کی روح مبارکہ قبض کرنے آئے تھے۔ آپ ہمیں کچھ وصیت کردیجیے۔([1]) حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کی اپنے بیٹوں کے لیے ایک وصیت یہ بھی تھی: بیشک اللہ نے یہ دین تمہارے لیے چن لیاہے توتم ہرگز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔([2]) اے اللہ ! ہمارے ایمان کی حفاظت فرما اور ہمیں بھی اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق عطا فرما۔
نکاح : حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے اپنے غلام کو بھیج کر اپنے بھائی کی پوتی بی بی رِفْقا اور ان کی دایہ اور کنیزوں کو بلوالیا پھر اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السَّلام ( کے نکاح ) کا خطبہ پڑھا اور ان کی شادی بی بی رفقا سے کردی۔([3])بی بی رفقا سے نکاح کے وقت حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی عمر مبارک 40 برس تھی۔([4])
اولاد :حضرت اسحاق علیہ السَّلام نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی پیٹھ سے ایک بہت بڑا درخت نکلا جس کی بہت ساری ٹہنیاں اور شاخیں ہیں ہر ٹہنی پر ایک نور ہے آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ یہ ٹہنیاں آپ کی اولاد میں انبیائے کرام ہیں، آپ بیدار ہوگئے اور اپنی زوجہ کو اس خواب کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگیں : اے اللہ کےنبی! میں حمل سے ہوں اور (مجھے لگتا ہے کہ) میرے پیٹ میں دو بچے ہیں۔([5]) اللہ کریم نے حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی طرف وحی فرمائی: میں تمہاری زوجہ کے پیٹ سے دو (بیٹے یعنی) امتیں پیدا کروں گا میں چھوٹے بیٹے کو بڑے بیٹے سے زیادہ مقام و مرتبہ عطا کروں گا،دونوں بیٹے جڑواں پیدا ہوئے پہلے عیص کی ولادت ہوئی پھر عقب میں (یعنی پیچھے) حضرت یعقوب علیہ السَّلام کی ولادت ہوئی،([6])کتابوں میں حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی ایک بیٹی کا ذکرِ خیر بھی ملتا ہے۔([7])
اولاد کو دعا دی: حضرت اسحاق علیہ السَّلام نے حضرت یعقوب علیہ السَّلام کو یہ دعا دی: بھائیوں میں قدرو منزلت بڑھ جائے، حضرت یعقوب کی بات بھائیوں اور دیگر قبائل پر غالب رہے، رزق اور اولاد میں برکت ہوجائے، جبکہ عِیْص کو یہ دعا دی: زمین اولاد سے بھر جائے اور رزق اور پھلوں کی کثرت ہوجائے([8]) عرب میں عیص گنجان درخت کو کہتے ہیں(لہٰذا عیص بن اسحاق کی نسل بہت زیادہ پھیل گئی)۔ ([9])حضرت اسحاق علیہ السَّلام نے جوانی میں حضرت یعقوب علیہ السَّلام کو ان کے ماموں کے علاقہ حُرَّان کی طرف بھیج دیا تھا([10])پھر یعقوب علیہ السَّلام کو اللہ کریم نے اَہلِ کَنْعان کے لیے رسول بنایا([11])اور اپنے والد اور قوم کے پاس واپس جانے کا حکم ارشاد فرمایا([12])لہٰذا حضرت یعقوب علیہ السَّلام حضرت اسحاق علیہ السَّلام کے پاس لوٹ آئے اور زمینِ کنعان کی بستی حبرون میں قیام فرمایا پھر حضرت اسحاق علیہ السَّلام بیمار ہوگئے۔([13])
حضرت اسحاق کی وصیت :حضرت اسحاق علیہ السَّلام نے ایک وصیت حضرت یعقوب علیہ السَّلام کو یہ بھی کی تھی کہ کنعانیوں کی کسی عورت سے شادی نہ کرنا۔([14])
دعا ئے اسحاق: یوں تو انبیائے کرام کی دعائیں مقبول ہوا کرتی ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ ہر نبی علیہ السَّلام کو ایک مقبول دعا بھی عطا کی جاتی ہے اللہ کریم نے حضرت اسحٰق علیہ السَّلام کی طرف وحی کی:دعا کرو،بے شک! آپ کی دعا قبول کی جائے گی، حضرت اسحاق علیہ السَّلام نے یوں دعا کی:اے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ اولین وآخرین میں سے جو بھی بندہ تجھ سے اس حال میں ملے کہ اس نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو تُو اسے جنت میں داخل کردے۔([15]) اے اللہ ! ہمارے ایمان کی حفاظت فرما اور ہمیں بھی حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی اس دعا سے وافر حصہ عطا فرما۔
وفات اقدس اور تدفین: حضرت اسحاق علیہ السَّلام نے بیت المقدس میں ہی اسی مقام پر تدفین کی وصیت کی تھی([16])جسے حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے خریدا تھا([17])اور جہاں حضرت بی بی سارہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کی تدفین ہوئی تھی۔([18]) پہلے حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی زوجہ بی بی رِفْقا کا انتقال ہوا جن کی تدفین حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں قبلہ کی جانب ہوئی پھر حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی وفات مبارکہ ہوئی([19]) حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی قبر مبارک عمارت کے احاطہ میں منبر کے پاس والے ستون کی جانب ہے([20])اسی مقام پر حضرت یعقوب علیہ السَّلام کی قبر مبارک بھی ہے،([21])ایک عرصہ گزرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے اسی مقام پر حضرت یوسف علیہ السَّلام کی تدفین کی۔([22]) ایک قول کے مطابق والدہ ماجدہ حضرت بی بی سَارَہ نے 127 برس کی عمر پائی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السَّلام نے اپنی عمر مبارک کے 175 سال گزارے([23])حضرت اسحاق علیہ السَّلام کی دنیاوی زندگی 180 برس تھی([24])اور حضرت یعقوب علیہ السَّلام نے 147 سال کی عمر میں انتقال فرمایا جبکہ حضرت یوسف علیہ السَّلام 120 برس کی عمر پاکر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔([25])
تبرکات:حضرت اسحاق علیہ السَّلام کے پاس کمر پر باندھنے کے لیے ایک پٹکا بھی تھا جو آپ علیہ السَّلام کی بڑی بیٹی کےپاس رہا، یاد رہے کہ یہ وہی بیٹی ہیں جنہوں نے اپنے بھائی حضرت یعقوب علیہ السَّلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السَّلام کی پرورش کی تھی یہ اپنے بھتیجے حضرت یوسف علیہ السَّلام سے بےپناہ محبت کیا کرتی تھیں۔([26]) حضرت اسحاق علیہ السَّلام کے اس پٹکے سے لوگ برکتیں حاصل کیا کرتے تھے([27])بَوقتِ وصال حضرت اسحاق علیہ السَّلام کے پاس گائے، اونٹ، بھیڑ بکریاں تھیں۔([28])
بابرکت کلمات: حضرت ابراہیم علیہ السَّلام حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السَّلام پر کچھ کلمات پڑھ کر دَم کیا کرتے تھے، اور یہی کلمات حضور پرنور رحمت دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم امام حسن اور امام حسین رضیَ اللہ عنہما پر پڑھ کر پھونکا کرتے تھے۔ وہ کلمات یہ ہیں: اَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ۔ ترجمہ: میں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر شیطان و زہریلے جانور اور ہر بیمار کرنے والی نظر سے پناہ مانگتا ہوں۔([29]) اللہ کریم ہمیں حضرت اسحاق اور دیگر انبیائے کرامعلیہمُ السَّلام و اولیا وصالحین رضیَ اللہ عنہم کے ذکرِ خیر کرنے سے فیوض و برکات عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments