اسلام ہی مکمل ضابطۂ حیات ہے(قسط:02)
عائلی و خاندانی ضَروریات اور اسلام :
اسلام نےاپنے ماننے والوں کو غاروں اور پہاڑوں میں زندگی گزارنے کی کوئی ترغیب و فضیلت بیان نہیں فرمائی بلکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان تنہائی میں اجنبیّت اور اپنے ہم جنسوں میں اُنسیَّت و اپنائیت محسوس کرتا ہے۔بلکہ اگر غور کیا جائے تو ہر جنس اپنی ہم جنس سے مانوس ہوتی اور ان کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے۔ انسانوں کی قدیم تاریخ بھی یہی ہے کہ کائنات میں بننے والا سب سے پہلا رشتہ میاں بیوی کا رشتہ ہے جو کہ پہلے نبی و رسول حضرت آدم علیہ السّلام اور امّاں حوّا رحمۃُ اللہ علیہا کے درمیان قائم ہوا۔ انسان جب رشتۂ نکاح سے منسلک ہوتا ہے تو اسے کئی افراد کے حُقوق و فرائض اَدا کرنے پڑتے ہیں۔ نکاح، اس کے متعلّقات اور اس کے نتیجے میں بننے والے رشتوں کی جامع معلومات صرف اسلام فراہم کرتا ہے۔ اسلام نکاح سے پہلے رشتہ کی تلاش اور عورت کے انتخاب کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے۔حُسن و جَمال اور مال و مَنال اور جاہ و نسب میں سے کس کو اختِیار کرنا ہے اس بارے میں ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے: مال، حَسَب نَسَب،حُسْن وجمال اور دِین مگر تم دِین والی کو ترجیح دو۔ ([1])اسلام نے اپنے ماننے والوں کو خاندانی نظام سے جوڑا ہے،اس نظام کو مسلمان بوجھ سمجھ کر نہ نبھائے بلکہ عبادت اور سعادت سمجھ کر پورا کرے اس کے لیے بہتر صلے کی بشارت اور رِزْق میں برکت کی نوید ہے جیسا کہ فرمانِ رسول ہے:جسے یہ پسند ہوکہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ کردیا جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچّھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کیا کرے۔ ([2])مزید فرمایا: جو اپنے والدین کے ساتھ اچّھا سُلوک کرے اس کے لیے خوش خبری ہے کہ اللہ کریم اُس کی عمر میں اضافہ فرما دیتا ہے۔([3]) مسلمان کو نکاح کے نتیجے میں اللہ کریم اولاد کی نعمت عطا فرمائے تو اسلام بتاتا ہے کہ اس کی تربیَت کو اُخروی سعادت،ان پر خرچ کو نیکی اور اللہ کی رضا پانے کا ذریعہ سمجھو اور اولاد والدین کو مہربانی و شفقت سے دیکھ کر حج کا ثواب کمائے۔ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عائلی و خاندانی نظام کو اُخروی نَجات و کامیابی سے کیسے جوڑا ہے اس روایت سے سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، نانی یا دادی کی کفالت کرنے والے کے متعلّق اپنی شہادت اور اس کے ساتھ والی انگلی کو ملا کر فرمایا : جس نے دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو خالاؤں یا دو پھپھیوں یا نانی اور دادی کی کَفالت کی تو وہ اور میں جنّت میں یوں ایک ساتھ ہوں گے۔([4])ایسی بشارتوں اور ثواب کی نویدوں کے ہوتے کون اسے بوجھ سمجھے گا بلکہ ہر مسلمان اُخروی سعادت سمجھتے ہوئے اپنی ذمّہ داریوں کو پورا کرے گا اور قربِ الٰہی پا لے گا۔
سماجی و معاشرتی ضروریات اور اسلام :
افراد کے ملنے سے معاشرہ بنتا ہے۔ اَمْن،چین،سُکون و قرار، احساس و ہمدردی،جان و مال کی حفاظت،اِرد گِرد کا خوشگوار ماحول،صفائی ستھرائی،آپسی پیار محبّت، دُکھ درد میں کام آنے والے لوگوں کے جنّت نظیر معاشرے کا کون طَلَب گار نہیں۔ ایک بے مثل و بے نظیر معاشرہ اسلامی تعلیم پر عمل کرکے ہی تشکیل دیا جا سکتا ہے جیساکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اُسے قید کرتاہے اور جوکوئی اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ پاک اس کی حاجت پوری فرماتاہے اور جو کسی مسلمان کی ایک پریشانی دور کرے گا اللہ پاک اُس کی قِیامت کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔([5])جاننے والے اور انجان افراد بھی معاشرے کا حصّہ ہوتے ہیں اسلام نے سب کے بارے میں ایسی رہنمائی فرمائی کہ سب ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر پیار محبّت اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزاریں اس کے لیے سلام کو عام کرنے کی ترغیب دی گئی جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جسے جانتے ہو يا نہ جانتے ہو سب کو سلام کرو۔([6]) اس لیے کہ سلام کی بَرَکت سے لوگوں میں محبّت پیدا ہوتی ہے۔ اسلام کا تعلّق صرف بندے کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کے فوت ہو جانے کے بعد اُس کی اولاد کو اس کے جاننے والوں،دوست احباب سے بھی حُسنِ سُلوک باقی رکھنے کی رغبت دلائی گئی ہے جیساکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ سے محبّت کرنے والوں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔([7]) مسلمان کے سلام کا جواب دینے، دعوت قبول کرنے، خیر خواہی کرنے، چھینک کا جواب دینے،بیمار کی عیادت کرنے اور فوت شدّہ کے جنازے میں شریک ہونے کو ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق بتایا۔([8])یہ سب اس لیے ہے کہ ایک بہترین معاشرہ ان تمام چیزوں کا تقاضا کرتا ہے اور اسلام اس پر بھرپور رَہنمائی فرماتا ہے۔
معاشرے کی ظاہری صفائی ستھرائی ہو یا اس کے حسنِ باطن کا معاملہ ہو اسلام کامل رَہنمائی فرماتا ہے،جہاں درخت لگا کر ماحول کو خوشگوار اور آب و ہوا کو صاف ستھرا رکھنے کی ترغیب پر احادیث موجود ہیں وہیں راستوں کے حُقوق ادا کرنے کی ترغیب اور ہر اُس کام سے رُک جانےکا حکم ہے جو مسلمان کی عزت اور حرمت کو پامال کرنے والا ہو، اب چاہے اُس کا تعلّق معاشرے کو تباہ کر دینے والے غیبت و چغلی جیسے باطنی اَمْراض سے ہو یا ملکی اور ٹریفک قوانین وغیرہ سے ہو کہ جن کی خلاف ورزی کر کے اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرنا پایا جاتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے عزیز و اَقارب کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے حُقوق ادا کرنے کی بھی زبردست ترغیب موجود ہے۔ اسلام انہیں بلاوجہ تکلیف پہنچانے والے ہر کام سے منع فرماتا ہے تاکہ احساس وہمدردی اور خیر خواہی پر مشتمل اسلامی معاشرہ قائم و دائم رہے۔
نجی و ذاتی ضروریات اور اسلام :
اللہ کریم نے انسان کو جان جیسی انمول نِعمت عطا فرمائی۔ اسلام اس کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔اسلام اپنی جان مال عزّت آبرو حَسَب نَسَب کو ہر طرح کی گندگی، کَدورت، نَجاست اور آلودگی سے بچانے کا حکم دیتا ہے۔دنیا میں رہتے ہوئے انسان اپنی ضروریات کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سَفَر کرتا ہے۔ اسلام اس سفر کے بارے میں بھی رہنمائی فرماتا ہے،سفر کے لیے دن،وقت اور حتّٰی کہ رفتار کی کمی و زیادتی کے متعلّق بھی ہماری اصلاح فرماتا اور ہماری جان و مال کو تحفّظ فراہم کرتا ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عرفہ کے دن نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ (مَیدانِ عَرَفات سے مُزْدَلِفَہ کے لیے) چلے تو نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے پیچھے (حجاج کی) اونٹوں کو سخت ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ (کی آواز) سنی تو انہیں اپنے کوڑے سے اشارہ فرمایا اور حکم دیا:”يَا اَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَاِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالْاِيضَاعِ یعنی اے لوگو! اطمینان اختیار کرو، کیونکہ سُواری تیز دوڑانے میں بھلائی نہیں۔“ ([9])یعنی اس جگہ اونٹ دوڑانا ثواب نہیں بلکہ خطرہ ہے کہ گُناہ بن جائے کہ ہجوم زیادہ ہے تیز دوڑانے میں حجاج کے کچل جانے، چوٹ کھا جانے کا خطرہ ہے،بلکہ ثواب تو اطمینان سے اَرکان ادا کرنے میں ہے،اب بھی حجاج کو چاہیے کہ وہ بھاگ دوڑ سے بچیں۔([10]) الغرض اسلام ہی وہ واحد دینِ کامل و اکمل ہے جو زندگی کے ہر ہر شعبے میں ہماری رہنمائی فرماتا ہے۔وہ عبادت و ریاضت ہو،کھانا پینا ہو،نکاح و طلاق کے معاملات ہوں،اولاد کی تربیَت کا معاملہ ہو یا زوجہ کے حُقوق کی بات،اُستادو شاگرد کے آپسی حُقوق ہوں یا والدین کی خدمت اور عزیزو اقارب سے حسنِ سلوک کا معاملہ، ہمسایوں سے تعلقات کی بات ہو یا اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ ہو،اَمن و سلامتی کا معاملہ ہو یا جنگ و جدال کی صورتِ حال ہو،ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کا مسئلہ ہو یا قیدیوں کے حقوق کی بات ہو،حکمرانوں کی اصلاح کا معاملہ ہو یا عوام کی تربیَت و رَہنمائی کا مسئلہ اسلام کسی بھی معاملے میں اپنے ماننے والوں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔ غرض اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں رہنما اُصول بیان کرتا ہے جن پر جُدا جُدا مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ ضَرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے والے بن جائیں،دنیا بھی سنور جائے گی اور آخِرکا بہترین صِلہ و اَجْر تو ہے ہی مسلمانوں کے لیے۔
Comments