
پہلوان کو پچھاڑدیا
ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی معجزانہ شان و شوکت کا اظہار مختلف موقعوں پر مختلف وجوہات اور حکمتوں کے سبب کیا کرتے تھے، بارہا معجزہ ظاہر کرنے کی حکمت یہ بھی ہوتی کہ لوگ آپ کی نُبُوَّت کی سچائی کو تسلیم کریں اور اسلام کے دامن میں آجائیں مکہ میں (رُکانہ نام کا)ایک شخص تھا جو نہایت طاقتور تھا، کشتی([1]) میں ماہر تھا لوگ دور دور سے اس کے ساتھ کشتی لڑنے آتے مگر اس سے ہار جاتے، ایک دن کسی گھاٹی یا مکّہ کے کسی پہاڑی راستے میں اس کا سامنا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ہو گیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے اللہ پاک کا خوف دلاتے ہوئے قبولِ اسلام کی دعوت دی، رُکانہ بولا: اے محمد! کیا تمہارے پاس کوئی ایسی نشانی ہے جو تمہاری سچائی پر دلیل ہو؟ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر میں تمہیں کُشتی میں گرا دوں تو کیا تم ایمان لے آؤ گے؟ رُکانہ نے کہا: ہاں، جبکہ ایک روایت کے مطابق کُشتی کا مطالبہ رُکانہ نے کیا تھا۔ بہرحال رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کُشتی کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اس نے کہا: میں تیّار ہوں۔ پھر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے قریب گئے اور اسے زمین پر گرا دیا۔ رُکانہ حیران رہ گیا کیونکہ اس کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ کوئی اسے ہرا سکے گا۔ اس نے دوبارہ کُشتی کا چیلنج دیا، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوسری اور پھر تیسری بار بھی اس کے ساتھ کشتی لڑی اور ہر بار اسے پٹخ دیا۔ رُکانہ حیرت زدہ ہو گیا اور کہا: یقیناً تمہارا معاملہ بہت حیرتناک ہے اور پھر ایک قول کے مطابِق وہ اسی وقت ایمان لے آئے، جبکہ ایک قول یہ ہے کہ رُکانہ فتحِ مکّہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔(دیکھئے: زرقانی علی المواہب، 6/101)
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باقاعدہ پہلوانی نہیں کیا کرتے تھے مگر اس کے باوجود رُکانہ جیسے مشہور پہلوان کو پچھاڑنا یقیناً حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی معجزانہ شان ہی کی بدولت تھا ورنہ اُسے تو بڑے بڑے پہلوان بھی کبھی نہیں ہرا سکے تھے۔ اس معجزانہ واقعہ کی روشنی میں ہمیں چند باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں:
*نیکی کی دعوت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
*راہ چلتے میں بھی اگر کسی سے ملاقات ہو تو حسبِ حال اسے بھلائی کی دعوت دینی چاہئے۔
*اگر خود اعتمادی اور اللہ پاک پر یقین ہو تو مشکل ہدف قبول کرنے میں ہچکچاہٹ و گھبراہٹ نہیں ہوتی اور اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو معمولی اَہداف پورے کرنے کی بھی ہمّت نہیں ہوتی۔
*ہر فرد سے اس کی دلچسپی اور اس کی فیلڈ کے مطابِق بات کرنی چاہیے تاکہ دل کی چابی تک رسائی ہو اور وہ بات یا دلیل کو بآسانی سمجھےاور قبول کرے۔
*اپنی حیثیّت، صلاحیّت، طاقت یا علم و کمال کا اظہار فخر و تکبر کے لیےنہیں بلکہ اچّھی نیّت اور نیک مقصد سے کرنا چاہیے نیز اگر کوئی ہم سے ہماری بات یا ہمارے مؤقف کی دلیل مانگے تو غصّے اور جذبات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
*اگر ہم کسی کو ایک بار مطمئن کر دیں مگر اس کے باوُجود وہ بار بار اپنی تسلی اور اطمینان کا مطالبہ کرے تو خجالت و اُکتاہٹ میں مبتلا ہو کر غصہ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے بلکہ صبر و تحمل سے اس کی مکمل تسلی کرنی چاہیے۔
*اگرچہ ہم کسی سے بار بار جیت جائیں مگر تکبر و گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے یہی ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہمیشہ عملی تعلیم رہی۔
*دوسروں کو خیر و بھلائی کی صرف زبانی دعوت دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار اس کے لیے عملی کوشش بھی کرنی پڑتی ہے۔
* جو شکست و ہار انسان کی آنکھیں کھول دے، حقیقت دکھائے، صحیح رُخ پر سوچنے کا موقع دے، راہِ راست پر لائے اور اُخروی فائدے کا سبب بنے وہ شکست و ہار بھی درحقیقت فتح و جیت ہے۔
*باطل کے مقابلے میں جیت ہمیشہ حق و صداقت ہی کی ہوتی ہے۔
انسان کی چھوٹی چھوٹی کوششوں کے بڑے بڑے اور مُفید نتائج بھی نکل آتے ہیں۔
(1)کشتی لڑنا اگر لَہْو و لَعب کے طور پر نہ ہو بلکہ اس لیے ہو کہ جسم میں قوّت آئے اور کفار سے لڑنے میں کام دے، یہ جائز و مستحسن و کارِ ثواب ہے بشرطیکہ سَتْر پوشی کے ساتھ ہو۔ آج کل عام طور پر جو شارٹ کپڑے پہن کر کشتی لڑی جاتی ہے جس میں رانیں کھلی ہوتی ہیں یہ ناجائز ہے۔(دیکھئے:بہارِ شریعت، 3/512)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments