
بچّوں کو کسی کام سے روکنے کے پُرحکمت طریقے
ذہین اور ایکٹیو بچّے گھر بھر کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں، جہاں بچّوں کی شرارتیں دلوں کو موہ لیتی ہیں اور لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں وہیں بعض اوقات بڑے نقصان کا سبب بھی بن جاتی ہیں ، اسی ڈر کی وجہ سے بعض والدین بچّوں کے ہر کام پر بے جا پابندیاں عائد کردیتے ہیں اور بات بات پر ان کو جھڑکتے اور ڈانٹتے ہیں جس سے بچّوں میں ضد اور کئی نفسیاتی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، اس وقت والدین کو حکمت سے کام لینا چاہیے اور بچّوں کو سمجھانا چاہیے، اس مضمون کو پڑھ کر آپ کچھ ایسے ہی پر حکمت طریقے سیکھ سکتے ہیں ۔
(1)نعم البدل فراہم کریں (Provide a substitute)
جب بچّہ کوئی ایسا کام کرے جو آپ کو پسند نہ ہو یا بچّے کے لیے مناسب نہ ہو تو فورا ً یہ نہ کہیں: مت کرو ، یہ نہ کرو! بلکہ اس کی توجّہ کسی دوسرے کام کی طرف کروائیں : مثلا ً دیوار پر کلر پینسل سے کلر کرنے لگے تو اسے سمجھائیں : اگر یہ کلرنگ آپ کاغذ پر کریں گے تو بہت اچھی لگے گی، آؤ! ہم مل کر کاغذ پر کلرنگ کرتے ہیں، یا کلرنگ بُکس گھر میں لاکر رکھ دیں اور اس موقع پر بچّے کو وہ بکس دیں، اس طرح بچّے میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوگی ۔
(2) وجہ سمجھائیں (Explain the reason)
بچّہ آپ کی بات نہ مانے تو اس کام کا نقصان اور نتیجہ اس کے سامنے بیان کریں کہ یہ کام کرنے سے آپ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے مثلاً اگر کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ نہیں دھوؤگے تو بیمار پڑ جاؤگے ،اور پھر کڑوی کسیلی گولیاں اور سیرپ پینا پڑیں گے،آپ کو پرہیز کرنا پڑےگا آپ اپنی من پسند کی چیزیں نہیں کھا سکیں گے وغیرہ وغیرہ الغرض بچّوں کو لوجیکل انداز میں سوچنا سکھائیں ۔
(3) پیار اور نرمی سے سمجھائیے
ہر بات سختی سے نہیں سمجھائی جاتی آپ اپنے رویّے اور لہجے میں نرمی لائیں کبھی بچّے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر،کبھی اس کا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر ، کبھی اسے سینے سے لگاکر کبھی اس کی پیشانی چوم کر اس سے نرم لہجے میں بات کریں مثلاً: آپ کا بچّہ دوسرے بچّے کو تنگ کررہا ہے اور اسے یہ کام کرنے میں مزہ آرہاہے تو اسے اپنے پاس بلاکر بانہوں میں بھر لیں اور تھوڑا سا بھینچ لیں یا اسے تھوڑی سی گدگدی کریں اور کہیں: میں آپ کو تنگ کروں ، پھر دوسرے بچّوں کے ساتھ مل کر کھیلنے کا اسے طریقہ بتائیں ۔
(4)فوراً ردعمل نہ دیں (Don’t react immediately)
کبھی بچّہ غَلَط کام کر بیٹھے یا ایسی حرکت کرگزرے جو آپ کو سخت ناپسند ہو یا گھر میں کوئی چیز توڑ دی تو فوراً غصّہ نہ کریں، 5 یا 10 سیکنڈ کا انتظا ر کریں اس دوران دو تین گہرے سانس لیں، بچّے کے چہرے کے تأثرات بغور دیکھیں پھر نرمی سے ردِ عمل دیں۔ اس سے بچّے کے دل ودماغ پر والدین کی گفتگو کا اچھا اَثر پڑتا ہے اور ماحول بگڑنے سے بچتا ہے۔
(5)عمل کو بُرا کہیں، بچّے کو نہیں
(Criticize the action, not the child)
بچّے کی اصلاح ضَرور کریں مگر اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کی شخصیت کو بُرا نہ کہیں بلکہ ان کے سامنے اس عمل کو بُرا کہیں مثلاً:تم بہت بدتمیز ہو! تم اتنا چیخ کر بات کیوں کرتے ہو ، یہ مت کہیں بلکہ خود نرم لہجے میں یوں کہیں: چیخنا اچھے بچّوں کا کام نہیں ہے اچھے بچّے نرمی سے بات کرتے ہیں ہمیں نرمی سے بات کرنی چاہیے۔
اس سے بچّے کو خود اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ اصلاح کو قبول کرےگا۔
(6)کہانی سنا کر یا مثال دے کر سمجھائیں
(Explain by telling a story or giving an example)
بار بار نصیحت کرنا بھی بچّوں کو چڑ چڑا بنادیتا ہے،بچّے ان نصیحتوں کو سن تو لیتے ہیں لیکن اپنا قدم عمل کی طرف نہیں بڑھاتے، اس لیے انہیں کہانیوں کے ذریعے بھی سکھائیں۔ مثلاً: ریحان ایک بہت اچھا بچہ تھا ایک مرتبہ اس نے کھیل کے دوران دوستوں سے ایک بات کہی تو سب نے اس کی بات مان لی ، اس کو یہ بہت اچھا لگا ، اب وہ ہر بات میں اپنی چلانے لگا اور کہتا : جو میں کہہ رہا ہوں بس وہی صحیح ہے تم سب بھی وہی مانو، آہستہ آہستہ سب دوستوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ اکیلا رہ گیا ،آخِر کار اس نے سب دوستوں سے معافی مانگ لی، سارے دوستوں نے اسے معاف کردیا اور سب مِل جُل کر کھیلنے لگے۔ اور آخِر میں بچّوں سے یہ بھی پوچھیں: اس کہانی سے ہمیں سیکھنے کو کیا ملا؟ اس طریقے سے بچے فوراً متوجّہ ہوتے ہیں اور سیکھنے میں دل لگاتے ہیں اور خود نتیجہ اَخْذ کرتے ہیں ۔
(7)بچے کی پسند پر بات کریں
دو اچھی چیزیں بچے کے سامنے رکھ کر اسے اختِیار دیں کہ وہ اپنے لیے کون سی چیز خود پسند کرتا ہے،مثلاً دو کھلونے سامنے رکھ کر اختیار دیں آپ کو کون سا کھلونا لینا چاہیے ، جب بچّہ ایک کھلونے کو اختیار کرلے تو اس سے سوال کریں: آپ نے اس کھلونے کو کیوں لیا دوسرے کو کیوں چھوڑ دیا ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس سے بچّے میں اپنا نفع نقصان سمجھنے کی صلاحیت بیدار ہوگی اور وہ ذمّہ داری بھی سیکھےگا ۔
(8)روحانی اور اخلاقی تربیَت
(Spiritual and moral training)
بچّوں کو سمجھائیں کہ اللہ ہمیں اور ہمارے ہر کام کو دیکھ رہا ہے، وہ ہماری ہر بات سنتا ہے ،اس لیے بُرے کام سے دُور رہیں، کیا آپ یہ چاہیں گے کہ اللہ آپ سے ناراض ہوجائے؟، اسی طرح کبھی یوں سمجھائیں : اللہ کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر اچھی بات کو پسند کرتے تھے اس لیے اچھے اچھے کام کرنے چاہئیں، اس سے بچوں کے دل میں خوفِ خدا اور محبّت رسول پیدا ہوتی ہے۔
(9)دعا کرنا مت بھولیں (Don't forget to pray)
حدیثِ پاک میں ہے: دُعا مومن کا ہتھیار ہے(مسند ابویعلیٰ، 2/201، حدیث :1806) لہٰذا روزانہ اپنے بچّوں کے لیے دُعا ضَرور کریں، اے اللہ ! میرے بچّوں کو اچھا اور نیک بنادے، ان کی بُری عادتیں ختم ہوجائیں،سب کے ساتھ مل جُل کر رہیں، انہیں نَمازی بنادے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بھی اپنی اولاد کےلیے دُعا کی تھی: ﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ ﴾ترجمۂ کنز العرفان: اے میرے رب! مجھے اور کچھ میری اولاد کونماز قائم کرنے والا رکھ۔ (پ13،ابرٰہیم:40 )
Comments