
اعلیٰ حضرت کا اعلیٰ کردار
انسان کے اخلاق و عادات اُس کے ستھرے اور پاکیزہ کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک اچھے انسان کے اعلیٰ کردار کے لیے اس کی ذات میں چند بنیادی صفات کا ہونا بےحد ضروری ہے۔ انسان کی شخصیت کو نکھارنے کے لیے صداقت و امانت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے،اس کے علاوہ ایک عمدہ کردار کا حامل شخص اپنے فرائض کی ادائیگی اور حقوق العباد کی بجا آوری، حلم اور بردباری نیز دوسروں کے معاملات میں انصاف پسندی اور ہر موقع پر لوگوں کی خیر خواہی، عاجزی و انکساری اورصبر ورضائے الٰہی کاپیکر ہوتا ہے۔ اعلیٰ حضرت، امام ِاہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی ذاتِ بابرکات میں یہ پاکیزہ اوصاف بدرجہ اَحسن و اَتم موجود تھے، آپ کی پاکیزہ سیرت و کردار سے متعلق چند واقعات ملاحظہ کیجیے:
اعلیٰ حضرت اور بھائی چارہ
ایک صاحب امامِ اَہلِ سنّت کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ بھی کبھی کبھی اُن کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور (اعلیٰ حضرت) ان کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بیچارہ غریب مسلمان ٹُوٹی ہوئی پُرانی چارپائی پر جو صحن کے کَنارے پڑی تھی، جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحِبِ خانہ نے نہایت کڑوے تَیوروں سے اُس کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت سے سر جُھکائے اُٹھ کرچلاگیا۔ اعلیٰ حضرت کو صاحبِ خانہ کے ا ِس مغرورانہ انداز سے سخت تکلیف پہنچی مگر کچھ فرمایا نہیں۔ کچھ دنوں بعد وہ آپ کے یہاں آئے۔ اعلیٰ حضرت نے اپنی چارپائی پر جگہ دی، وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش نامی حجّام حُضور (اعلیٰ حضرت) کا خط بنانے کے لیے آئے،وہ اِس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں؟اعلیٰ حضرت نے فرمایا:بھائی کریم بخش!کیوں کھڑے ہو؟مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اُن صاحب کے برابر میں بیٹھنے کا اشارہ فرمایا،وہ بیٹھ گئے۔ ([1])
اس واقعے میں اعلیٰ حضرت نے دِینی بھائی چارے اور مسلمانوں میں مساوات کی فضا قائم رکھنے کے بارے میں کیسا زبردست ذہن دیا ہے۔ آپ نے عملی طور پر یہ بتا دیا کہ کوئی مسلمان چاہے کتنا ہی امیر وکبیرہو،دنیوی عزّت ومرتبے والا ہو یا کسی اعلیٰ خاندان سے تعلُّق رکھتا ہو اسے ہر گز ہرگز یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی مسلمان کو اپنے سے کمتر جانے، کسی جائز پیشے والے کو لوگوں کے سامنے ذلیل کرے بلکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہر ایک کے ساتھ حُسنِ سُلُوک سے پیش آنا، آنے والے کی دِلجوئی کے لیے مسکرا کر ملنا اسے عزّت کے ساتھ بٹھانا اور مسلمانوں میں مساوات قائم رکھنا اسلام کی روشن تعلیمات کا حصہ ہے مگر افسوس! آج ہم اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کر اپنی قوم، زبان اور نسب پر فخر کرتے اور خود کو دوسروں سے افضل واعلیٰ جانتے ہیں حالانکہ اللہ پاک کے نزدیک وہی مسلمان زیادہ عزّت و اِکرام والا ہے جوتقویٰ و پرہیزگاری میں دوسروں سے زیادہ ہو،چنانچہ پارہ 26 سُوْرَۃُ الْحُجُرات کی آیت نمبر 13 میں ارشادہوتا ہے: ترجمۂ کنز الایمان : بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزّت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
اعلی حضرت اور ایثارِمسلمین
اعلیٰ حضرت،امامِ اہل سُنَّت رحمۃُ اللہِ علیہ کے اعلیٰ کردار کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ اپنی محبوب اورپسندیدہ چیزوں کو دوسروں پر اِیثارکردیا کرتے تھے،چنانچہ
چھتری حاجتمند کو عطا فرمادی
موسمِ برسات میں بعض اوقات مسجد کی حاضری دورانِ بارش ہو اکرتی تھی۔حاجی کفایت اللہ صاحب نے اس تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ایک چھتری(Umbrella) خرید کر نذر کی اور اپنے ہی پاس رکھ لی کہ جب اعلیٰ حضرت کاشانۂ اقدس سے تشریف لاتے حاجی صاحب چھتری لگا کر مسجد تک لے جاتے، ابھی کچھ ہی دن گزرے تھےکہ ایک حاجت مند نے چھتری کا سوال کیا آپ نے فوراً وہ چھتری حاجی صاحب سے لے کر اُس حاجت مند کو عطا فرمادی۔([2])
دیکھا آپ نے! ہمارے اعلیٰ حضرت کی ذات میں ایثار وسخاوت کا کیسا جذبہ تھا کہ ضرورت کے باوُجُود اپنی چیزیں دوسروں کو ایثار کردیا کرتے کیونکہ آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ اسلام ہمیں باہمی ہمدردی کا پیغام دیتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کادرس دیتاہے،ایک دوسرے کے دل میں محبت پیدا کرنے کے لیے جائز طریقے سے تحائف دینے کی تعلیم دیتا ہے، اسی لیے آپ نےخیرخواہی کرتے ہوئے خوشی خوشی اپنی ذات پر دوسرے مسلمان بھائی کو ترجیح دی۔ حدیثِ پاک میں ہے ’’جوشخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُس خواہش کو روک کر اپنے اُوپر(دوسرے کو) ترجیح دے، تو اللہ پاک اُسے بخش دیتاہے۔‘‘ ([3])
اعلیٰ حضرت اور حُقوقُ الْعِباد
اعلیٰ حضرت،امام ِ اہل سُنَّت رحمۃُ اللہِ علیہ کے اعلیٰ کردار کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ حُقوقُ اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوقُ العباد (بندوں کے حقوق) کے بارے میں بہت حسّاس تھےکیونکہ آپ کومعلوم تھا کہ حقوقُ العبادکا مُعاملہ حقوقُ اللہ سےبھی نازک ترہے۔حقوقُ العباد کےبارے میں اعلیٰ حضرت کاایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجیے:
بچے سے معافی مانگی
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف کی مسجدمیں معتکف تھے۔آپ بعدِافطارکھانا تناول نہ فرماتے بلکہ صرف پان کھاتے۔ جبکہ سحری کے وقت گھر سے صرف ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرینی اورایک پیالی میں چٹنی آیاکرتی تھی،وہ نوش فرمایا کرتے تھے۔ایک دن شام کو پان نہیں آئےاورآپ کی یہ پختہ عادت تھی کہ کھانےکی کوئی چیزطلب نہیں فرماتے تھے، چنانچہ خاموش رہے۔ مغرب سےتقریباً2گھنٹہ بعد گھر کاملازم ایک بچہ پان لایا،اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نےاسےایک چپت مارکر فرمایا: اتنی دیر میں لایا؟ لیکن بعدمیں آپ کوخیال آیاکہ اس بے چارے کا تو کوئی قصور نہ تھا،قصور تو دیر سے بھیجنے والےکاتھا۔
چنانچہ سحری کےبعداُس بچے کوبلوایا جوشام کوپان دیرمیں لایاتھااورفرمایا:شام کومیں نے غلطی کی جو تمہارے چپت ماری، دیر سے بھیجنے والے کا قصور تھا، لہٰذا تم میرے سر پر چپت مارو اور ٹوپی اتار کر اصرار فرماتے رہے۔ دوسرےمعتکفین یہ سُن کر مُضطرب اورپریشان ہوگئےاوروہ بچہ بھی بہت پریشان اور کانپنے لگا۔اس نےہاتھ جوڑکرعرض کی:حضور!میں نے معاف کیا۔فرمایا:تم نابالغ ہوتمہیں معاف کرنے کا حق نہیں، تم چپت مارو۔مگروہ مارنے کی ہمت نہ کر سکا۔ آپ نے اپنا بکس منگواکر مٹھی بھرپیسےنکالےاوروہ پیسےدکھاکرفرمایا: میں تم کویہ دوں گا،تم چپت مارو۔مگربےچارہ یہی کہتارہا، حضور!میں نے معاف کیا۔آخرکار اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نےاس کا ہاتھ پکڑکر بہت سی چپتیں اپنے سرمبارک پر اس کے ہاتھ سے لگائیں اور پھر اس کوپیسے دےکر رخصت کر دیا۔([4])
اس واقعے میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے چاہنے والوں کو عملی طور پر یہ بتادیا کہ چاہے کوئی کتناہی بڑے منصب پر فائز کیوں نہ ہواگر اس سے کسی کی حق تلفی ہوجائے تواسے معافی مانگنے میں ہرگز شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ حقوقُ العباد کا معاملہ انتہائی نازک ہے۔اس کی وجہ سے بندہ بہت سے گناہوں میں مبتلا ہوسکتا ہے جو اس کے لیے دنیاوی اور اُخروی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں،مثلاً حُقوقُ العِباد ادا نہ کرنے سے بندہ دوسروں کی دل آزاری جیسےکبیرہ گُناہ میں مبُتلا ہوسکتا ہے اوریہی دل آزاری،حسد،کینے،بُغْض اوردُشمنی جیسےکئی گُناہوں پراُبھارسکتی ہے۔ان گُناہوں میں پڑنے کے سبب غیبتوں، چغلیوں،تہمتوں،بدگمانیوں اور کئی کبیرہ گُناہوں کا دروازہ کھل جاتاہے۔جن کےحُقُوق تَلَف کیے انہیں راضی کرنے کے لیے بروزِ قیامت اپنی نیکیاں بھی دینی پڑسکتی ہیں اور نیکیاں نہ ہونےکی صورت میں ان لوگوں کے گناہوں کابوجھ اُٹھانا پڑےگااوریُوں جنَّت سے محروم ہو کر عبرتناک اَنجام سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔
اعلیٰ حضرت اور شفقت و خیر خواہی
اعلیٰ حضر ت،امامِ اہلِ سُنَّت رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرتِ مبارکہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ دُعا مانگتے وقت اپنے عزیز و اَقارب، دوست اَحباب، مُریدوں اور دیگر مسلمانوں کو بھی یاد رکھتے اور ان کے لیے دعا کا خُصوصی اہتمام فرماتے تھے،چنانچہ
دُعا کے لیے فہرست بنائی
آپ نے اپنے اعزّا، اَقرِبا،اصحاب واحباب اور خاص خاص مُریدوں کے ناموں کی ایک طویل فہرست بنائی ہوئی تھی۔بعد نماز ِ فجر اپنے اَوْراد و وَظائِف کے آخر میں اُن سب کے لیے نام بنام دُعا فرمایا کرتے۔ لوگ اِس بات کی تمنا رکھتے کہ اُن کا نام بھی اِس فہرست میں شامل ہوجائے۔
جنازہ میں کثرت سے دُعا مانگتے
امام ِ اہلِ سنت تما م عوامِ اہلِ سنت کے لیے درد مند دل رکھتے تھے،چنانچہ آپ اکثر و بیشتر جنازوں میں تشریف لے جاتے اور میت سے ہمدردی کا یوں اظہار فرماتے کہ دوران ِ جنازہ اور جناز ہ کے بعد میت کے لیے کثرت سے دُعا فرماتے۔([5])
اعلیٰ حضرت اور خود داری
اعلیٰ حضر ت،امامِ اہلِ سُنَّت رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت کا ایک پہلو آپ کی خود داری بھی ہے،آپ لوگوں کے مسائل کسی دنیاوی غرض و مقصد کے حصول کے لیے نہیں کرتے تھے، اگر کوئی نذرانہ یا تحائف اس لیے پیش کرتا کہ اپنا کام ہوجائے تو آپ اس کا مسئلہ حل فرماکر وہ نذرانہ اس کے ساتھ ہی واپس کردیا کرتے، ایک صاحب نے (اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں) بدایونی پیڑوں کی ہانڈی پیش کی،آپ نے (ان سے) فرمایا:کیسے تکلیف فرمائی؟ انہوں نے کہاکہ سلام کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، اعلیٰ حضرت جوابِ سلام فرما کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر دریافت فرمایا، کوئی کام ہے؟ انہوں نے عرض کی کچھ نہیں، حضور!محض مزاج پُرسی کے لیے آیا تھا۔ ارشاد فرمایا: عنایت و نوازش۔اور کافی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر آپ نے مخاطب ہوکر فرمایا، کچھ فرمائیے گا؟انہوں نے پھر نَفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے وہ شیرینی مکان میں بھجوادی۔اب وہ صاحب تھوڑی دیر بعد ایک تعویذ کی درخواست کرتے ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نےارشاد فرمایا:میں نے تو آپ سے 3 بار دریافت کیا تھا مگر آپ نے کچھ نہیں بتایا، اچھا تشریف رکھیے اوراپنے بھانجے علی احمد خان صاحب (جو تعویذ دیا کرتے تھے) کےپاس سے تعویذ منگا کران صاحب کو عطا فرمایا اور ساتھ ہی حاجی کفایتُ اللہ صاحب نے اعلیٰ حضرت کا اشارہ پاتے ہی مکان سے وہ مٹھائی کی ہانڈی منگواکر سامنے رکھ دی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے وہ مٹھائی ان الفاظ کے ساتھ واپس فرمادی۔”اس ہانڈی کو ساتھ لیتے جائیے، میرے یہاں تعویذ بکتا نہیں ہے۔“ انہوں نے بہت کچھ معذرت کی، مگر قبول نہ فرمایا، بالآخر بے چارے اپنی شِیْرِینی واپس لیتے گئے۔([6])
اعلیٰ حضرت اور نمازِ باجماعت کی پابندی
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کےپاؤں کاانگوٹھا پک گیا، اُن کے خاص جراح (Surgeon) (جو شہر میں سب سے ہوشیارجراح تھے انہوں) نے اِس انگوٹھے کا آپریشن کیا، پٹی (Bandage) باندھنے کے بعد انہوں نےعرض کی:حضور اگر حرکت نہ کریں گے تو یہ زخم دس بارہ( 10/12 )روز میں ٹھیک ہو جائے گا ورنہ زیادہ وقت لگے گاوہ یہ کہہ کر چلے گئے،یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ مسجد کی حاضری اورجماعت کی پابندی ترک کردی جائے۔ جب ظہر کا وقت آیا تو اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے وضو کیا کھڑے نہ ہو سکتے تھے تو بیٹھ کر باہر دروازے تک آگئے لوگوں نے کُرسی پر بٹھا کر مسجدمیں پہنچا دیا اور اسی وقت اہلِ محلہ اور خاندان والوں نے یہ طےکیا کہ ہر اذان کے بعد ہم سب میں سے چار مضبوط آدمی کرسی لے کر حاضر ہو جایا کریں گے اور پلنگ سے ہی کرسی پربٹھاکرمسجد کی محراب کے قریب بٹھادیا کریں گے۔یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک بڑی پابند ی سے چلتا رہا جب زخم اچھا ہو گیااور آپ خود چلنے کے قابل ہو گئے تو یہ سلسلہ ختم ہوا۔ اعلیٰ حضرت کی نماز تو نماز ہے آپ کی جماعت کا ترک بھی بلاعُذرِ شرعی شاید کسی صاحب کو یاد نہ ہوگا۔([7])
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی نمازِ باجماعت سے محبت اور جذبہ بھی کیا خوب تھا کہ پاؤں میں شدید زخم کے سبب چلنے میں دُشواری ہے، پھر بھی مسجد میں جا کر نمازِ باجماعت ادا فرمارہے ہیں۔ لیکن بعض نادان مسلمان نماز کے اوقات میں گلی کے کونوں اور چوکوں اور دکانوں پر بیٹھے فضول باتوں میں مشغول رہتے ہیں، دکانداروں اور دفاتر میں کام کرنے والوں کی لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ اَذانیں ہوجاتی ہیں،مساجد میں جماعت بھی خَتم ہوجاتی ہیں حتی کہ مَصروفیت کے نام پر نماز کا وقت بھی گزار دیتے ہیں مگر انہیں اِحساس تک نہیں ہوتااورجو لوگ نماز پڑھتے ہیں یا تو بغیر جماعت کے پڑھتے ہیں یا پھر گھر میں ہی پڑھ لیتے ہیں۔حالانکہ ہمارے ہاتھ پاؤ ں سَلامت ہیں، آنے جانے میں بھی کوئی دُشْواری نہیں مسجدیں ہمارے گھروں کے قَریب مَوْجُود ہیں، اگر ذَراسی دُور بھی ہو اور پیدل جانے میں سُستی ہوتوگاڑی، موٹرسائیکل کے ذَریعےجا سکتے ہیں مگر پھر بھی ہم نَفْس وشیطان کے بہکاوے میں آکرفقط غفلت و سُستی کی بنا پرباجماعت نماز کا ثواب چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ توجُّہ کے ساتھ یہ حدیثِ پاک سُنیں اوربار بار اس پر غور کریں اور عبرت کے مدنی پُھول چُن کرسُستی و غفلت سے جان چُھڑاتے ہوئے،نمازِ باجماعت کی پابندی کا ذہن بنائیں۔ چنانچہ
رحمت والے آقا،مکی مدنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضِر پایا تو ارشاد فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی شخص کوحکم دُوں کہ وہ نماز پڑھائے، پھرمیں ان لوگوں کی طرف جاؤں جونمازِ(با جماعت ) سےپیچھے رہ جاتے ہیں اوران پران کے گھرجلادوں۔([8])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments