بازار جانا ضروری یا مجبوری؟

بازار جانا ضروری یا مجبوری؟

نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تُو نہیں جہاں کے لیے

فطرتی بات ہے کہ ہر چھوٹی بڑی تبدیلی انسان کی توجّہ کھینچتی ہے۔ مومن کی توجّہ کا مرکز ہمیشہ آخِرت کی زندگی ہوتا ہے۔ جبکہ غافل لوگوں کی نظریں ہمیشہ دنیا اور موج مستی پر رہا کرتی ہیں۔دنیا میں رہتے ہوئے کچھ کام ہمارے لیے ضَروری بھی ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی ٹاپ پر کچھ مجبوری والے کام بھی ہوتے ہیں اب سب سے پہلے ہمیں ضَروری اور مجبوری کا فرق جاننا ہوگا، ضَرورت کسی چیز کی حاجت یا طَلَب کو ظاہر کرتی ہے مطلب یہ کہ کچھ ایسا ہے جو کسی مقصد کے لیے لازمی ہے۔ یہ کسی بھی چیز کے لیے ہو سکتی ہے، جیسے کہ پانی، خوراک، یا تعلیم۔ جبکہ مجبوری کسی ناگزیر(Inevitable) حالت یا صورت حال کو ظاہر کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ کوئی شخص کسی مجبوری کے تحت کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ کسی بھی صورتِ حال کے لیے ہو سکتی ہے جس میں انسان کے پاس کوئی اور راستہ نہ ہو۔ یہ لفظ عام طور پر اس وقت استِعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی پریشانی یا مشکل میں ہو۔ جیسے مالی مشکلات، صحت کے مسائل، یا ذاتی مسائل۔ ضَرورت اور مجبوری کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ مجھے نوکری کی ضَرورت ہے کیونکہ مجھے پیسے کمانے ہیں۔مجھے نوکری کرنی پڑتی ہے کیونکہ میری مالی حالت خراب ہے۔ دونوں جملوں میں فرق واضح ہے۔ پہلے جملے میں ضَرورت کا ذکر ہے جبکہ دوسرے جملے میں مجبوری کا۔ ضَرورت کسی اور کے ذریعے بھی پوری ہوسکتی ہے مگر مجبوری میں صرف اپنی ذات سے ہی کام لیا جاسکتا ہے۔ آج کے زمانے میں کچھ کام ہماری ضَرورت ہیں کچھ مجبوری، ان میں سے ایک کام بازار جانا بھی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ بازار جانا خواتین کے لیے ضَروری ہے یا مجبوری؟ چونکہ ہر کام میں شریعت ہی ہمارا معیار ہے تو آئیےپہلے شریعت کی رو سے ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پردہ و حِجاب اِسلامی شِعار کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اِسلام سے پہلے عورت بے پردہ تھی اور اِسلام نے اسے پردہ و حِجاب کے زیور سے آراستہ کر کے عَظَمَت و کِردار کی بُلندی عطا فرمائی، جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے: ترجمۂ کنزُ الایمان: ”اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بےپردگی۔“([1]) تفسیر خزائن العرفان میں ہے: اگلی جاہِلیَّت سے مُراد قَبلِ اِسلام کا زمانہ ہے، اُس زمانہ میں عورتیں اِتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومَحَاسِن (یعنی بناؤ سنگھار وغیرہ) کا اِظْہار کرتی تھیں کہ غیر مَرد دیکھیں۔ لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اَعضا اچھّی طرح نہ ڈھکیں۔([2])اَفسوس! موجودہ دَور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت والی بےپردَگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا وَیسا ہی اب بھی ہے۔ ایک بار اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا سَودہ رضی اللہُ عنہا سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ باقی اَزواج کی طرح حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟تو آپ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا:میں نے حج و عمرہ کر لیا ہے، چونکہ میرے ربّ نے مُجھے گھر میں رہنے کا حکْم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں پَیامِ اَجَل (موت) آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رضی اللہُ عنہا گھر کے دروازے سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔([3])ان باتوں کو سامنے رکھ کر ہم اپنا جائزہ لیں ہم کیا احتِیاطی پہلو اپنائیں؟ بِلاوجہ بازار نہ جائیں جیساکہ ونڈوشاپنگ کے نام پر عورتیں گھومتی ہیں، اگر مَحْرم سامان لاتے ہیں تو صرف ان کے ہی ذمّہ یہ کام لگایا جائے، اگر مَحرم نہیں لاتے، یا مَحرم ہیں ہی نہیں تو کسی اور کے ذریعے جیسا کہ پڑوسن کو کہہ کر ان کے مَحرم کے ذریعے منگوا لیں یا جیسا کہ آج کل آن لائن بہت سی چیزیں آسانی سے گھر بیٹھیں مل جاتی ہیں اگر آن لائن بھی شرعی احتیاطوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ضَرورت پوری ہورہی ہو تو خود نہ جائیں، ان میں سے کسی بھی طرح ممکن نہیں تو اب خود جانا مجبوری ہے۔ اس صورت میں احتیاطی پہلوؤں کو مدِّ نظر رکھ کر سارے ضروری سامان کی لسٹ بنا کرمہینے میں ایک ہی بار بازار جا کر خریداری کرلی جائے، اب چاہے ماہانہ سودا سلف لینا ہو یا عیدین/شادی کےکپڑوں کی شاپنگ وقت ایسا چُنا جائے کہ جس میں مردوں کی چہل پہل نہ ہو،نامحرموں سے ٹچ ہوئے بغیر بآسانی بازار جا کر اپنا ضَروری سامان لے لیا جائے اورمغرب سے پہلے پہلے گھر واپسی ہوجائے،نیز دُکاندار سے بےوجہ بحث کرنا، جان پہچان بڑھانا مثلاً ہم یہیں سے سامان لیتے ہیں وغیرہ ان تمام خرافات سے خود کو ہمیشہ ہمیشہ بچا کر رکھیں۔ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: اگر مرد محض اپنی سُستی کی وجہ سے گھر کا سَودا سَلَف نہیں لاتے تو یہ بَہُت سخت بے احتیاطی ہے کہ اب اس کی زَوجہ یامَحرَمہ یعنی ماں یا بہن یا بیٹی غیر مردوں سے ضَرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے گھر سے باہَر نکلے گی اگر چِہ عورت کےلیے فی نفسہٖ خریدوفروخت کی مُمانَعت نہیں تاہم بے باکی کا دَور ہے اور آج کل کے بازار کا حال کون نہیں جانتا! باپردہ عورت بھی فی زمانہ بازار جائے اور گُناہوں کے بِغیر لوٹ کر آئے یہ بے انتِہا مشکل اَمْر ہے۔ اگر عورَت بے پردَگی کے ساتھ یعنی سر کے بال، کان، گلا وغیرہ سِتْرکا کوئی حصہ کھولے بازار جاتی ہےاور باوُجودِ قدرت مرد مَنْع نہیں کرتا تودونوں صورتوں میں ایسامرد دَیُّوث اوروہ عورت فاسِقہ ہے۔ اگرہر طرح کی کوشِش کے باوُجُود مرد نہیں جاتے اور ضَروریاتِ زندگی کی اشیاء کے حُصُول کی کوئی اور صورت نہیں تو اب عورت ان کاموں کے لیے شَرعی پردے کی رعایت کے ساتھ نکلے۔([4]) اس سلسلے میں عورت گھر سے نکلتے وَقْت غیر جاذِبِ نظر کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالا بُرقع اَوڑھے، ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جُرابیں پہنے۔ مگر دستانوں اور جُرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ بُرقع اِس طرح بھی اوپر نہ اٹھائے کہ کپڑوں پر غیر مردوں کی نظر پڑے۔ واضح رہے کہ عورت کے سر سے لے کر پاؤں کے گِٹّوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ بھی مَثَلاً سر کے بال یا بازو یا کلائی یاگلا یاپیٹ یا پنڈلی وغیرہ اجنبی مَرد (یعنی جسں سے شادی ہمیشہ کے لیے حرام نہ ہو) پر بلااِجازَتِ شَرْعی ظاہِر نہ ہو (کہ یہ بے پَردَگی ہے۔)([5])سنتیں سیکھنے سکھانے کے لیے دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوجائیے، سچی وَفا یہ ہے کہ جب خود دینی ماحول کی برکتوں سے فیض یاب ہوں تو اپنے گھر والوں کو بھی دینی ماحول کی خوشبودارفضا سے دُور نہ رہنے دیجیے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن



([1])پ22،الاحزاب:33

([2])خزائن العرفان،ص780

([3])در منثور،6/599،پ22،الاحزاب،تحت الآیۃ:33

([4])پردے کے بارے میں سوال جواب ،ص220

([5])پردے کے بارے میں سوال جواب ،ص42


Share