معراج سے واپسی پر قافلوں کی خبر
مہینوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرنا حُضورِ اکرم کے معجزات میں سےہے آئیے آج اسی سے تعلّق رکھنے والے معجزے کے بارے میں سنتے ہیں:
جب رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قریش کو سَفَرِ معراج کے بارے میں بتایا تو مٌطْعِم بن عَدی نے پوچھا کہ کہاں تک کی سیر کی؟ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیتُ المقدّس تک تو اس پر مٌطْعِم نے یہ کہہ کر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزے کو جھٹلا دیا کہ واہ! ہمیں تو مکّہ سے بیتُ المقدُس کے لیے ایک مہینا جانے اور ایک مہینا واپسی کا طویل اور دُشوار سفر کرنا پڑتا ہے اور آپ صرف ایک رات میں وہاں جاکر واپس بھی آگئے۔ کفّارِ قریش نے کہا:آپ ہمیں ہمارے قافلوں کے بارے میں بتائیے کہ کیا راستے میں وہ قافلے آپ کو ملے تھے؟ غیب بتانے والے آقا،شبِ اسریٰ کے دولہا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مقامِ روحاء میں میرا گُزر فلاں قبیلے کے قافلے پر ہوا تھا ان لوگوں کا اونٹ (Camel)گم ہوگیا تھا اور وہ اسے تلاش کر رہے تھے، میں ان کے سامان کی طرف آیا تو وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا، پانی کا ایک پیالہ وہاں رکھا ہوا تھا،میں نے اسے پی لیا اور پھر اسے ڈھکن سے ڈھک دیا۔اب وہ قافلہ بدھ کے دن سورج غُروب ہوتے ہوئے یہاں پہنچ جائے گا۔پھر تم لوگ اس سے دریافت کر لینا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کر کے واپَس آئے تھے تو انہوں نے اپنے بھرے ہوئے پیالے کو پانی سے خالی پایا تھا یا نہیں؟ اور یہ بھی پوچھ لینا کہ جب تم اونٹ کی تلاش میں تھے تو کیا تمہیں کسی نے پُکار کر کہا تھا کہ تمہارا اونٹ فلاں جگہ پر ہے، جس پر تم حیران ہوکر کہہ رہے تھے کہ ملکِ شام میں یہ محمد کی آواز کیسے آگئی؟ مگر جب تم نے اس آواز کے مطابق اس مقام پر جا کر دیکھا تھا تو تمہیں اپنا اونٹ مل گیا تھا یا نہیں؟قریش نے کہا:ہاں! یہ ٹھیک ہے، یہ بڑی نشانی ہے۔
پھر حُضورِ اکرم،نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ فلاں قبیلے کے قافلے پر بھی میرا گُزر ہوا تھا جن کے دو آدمی ایک ہی اونٹ پر سوار تھے۔ان کا اونٹ،براق کی تیز رفتاری (Speed) کی وجہ سے بِدک کر بھاگا جس کی وجہ سے وہ دونوں سوار گر گئے اور ان میں سے فلاں شخص کی کلائی ٹوٹ گئی ہے۔ اب بدھ کے دن ٹھیک دوپہر کو وہ قافلہ یہاں پہنچ جائے گاپھر تم ان دونوں سے اس بارے میں پوچھ لینا،کفارِ قریش کہنے لگے :بہت اچّھا،یہ نشانی بھی اچّھی ہے۔
پھر حُضورِ اکرم،نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ فلاں قبیلے کے قافلے پر مقامِ تَنْعیم کےپاس میرا گُزر ہوا تھا،اس قافلے میں آگے آگے ایک خاکی رنگ کا اونٹ تھا جس کے اوپر دھاری دار دو بوریاں غلّے کی لدی ہوئی تھیں اور ایک حبشی بھی اُس پر سوار تھا،اسی قافلے میں فلاں شخص کو سردی لگ رہی تھی اور وہ اپنے غلام سے کمبل مانگ رہاتھا۔یہ قافلہ بہت قریب پہنچ چکا ہے،صبح سورج طلوع ہوتے وقت یہ قافلہ یہاں پہنچ جائے گا۔
چنانچِہ طلوعِ آفتاب سے پہلے کچھ لوگ ایک پہاڑی پر آبیٹھے اور قافلہ کا انتظار کرنے لگے،کچھ لوگ سورج کے انتظار میں مقرّر کئے گئے تاکہ وہ اس کے نکلنے پر خصوصی نظر رکھیں۔ اچانک ان مقرّر کردہ آدمیوں میں سے ایک نے چیخ کر کہا: لو! وہ دیکھو ! سورج نکل آیا۔اتنے میں کسی نے پُکارا :وہ دیکھو قافلہ بھی آچکا ہے۔دیکھا تو واقعی قافلے کے آگے آگے خاکی رنگ کا ایک اونٹ تھا جس پر دھاری دار دو بوریاں غلّے کی لدی ہوئی تھیں۔
اس کے بعد بدھ کی دوپہر کو کفّارِ قُریش کی ایک جماعت پہاڑی پر بیٹھ کر اس قافلے کی آمد کا انتظار کرنے لگی،جس کی آمد کے بارے میں حُضورِ اکرم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بتایا تھا کہ وہ بدھ کے دن دوپہر کو پہنچے گا۔چنانچہ عین دوپہر کے وقت وہ دوسرا قافلہ بھی پہنچ گیا،اور جس شخص کے گرنے کی خبر دی گئی تھی واقعی اس کی کلائی ٹوٹی ہوئی تھی۔
اس کے بعد کچھ لوگ اُس تیسرے قافلے کی تاک میں بیٹھ گئے،جس کی آمد غُروبِ آفتاب کے وقت بتائی گئی تھی، غُروبِ آفتاب کا وقت قریب ہوگیا اور اس وقت تک قافلہ نہیں پہنچا، رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دُعا کی تو سورج کو روک دیا گیا، جب قافلہ پہنچا تب سورج غروب ہوا۔جب قافلے والوں سے حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خبروں کا پوچھا گیا تو انہوں نے تمام باتوں کی تصدیق کردی جس پر مُشْرِکیْن شَرْمِنْدہ تو ہوئے لىکن اىمان نہ لائے۔(دیکھئے: تحفۂ معراج النبی،ص 506،مقالاتِ کاظمی،1 / 177تا 179،خصائصِ کبری،1 / 369تا 375،سیرۃ سید الانبیاء، ص131، سبل الھدی والرشاد،3 / 94)
یاد رہے کہ مٌطْعِم بن عَدی کے پوچھنے پر حضورِ اکرم نے سفرِ معراج کا صرف زمینی حصہ ہی بیان فرمایا ورنہ سیر تو آسمانوں بلکہ اس سے بھی اوپر تک کی ہوئی تھی، دورِ نبوی میں مسجد حرام سے مسجدِ اَقصی تک جاکر واپس آنے میں تقریباً دو ماہ لگتے تھے مگر حُضورِ اکرم کا رات کے تھوڑے سے حصّے میں یہ فاصلہ مکمل کرلینا نیز کفّارِ قُریش کے قافلوں کی خبریں اور واپسی کا وقت بیان کرنا اور سورج کا ٹھہرنا حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حیرتناک معجزات ہیں۔اس معجزاتی واقعے کی روشنی میں ہمیں چند باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں:
قافلوں کی نشانیاں بیان کرنا، وقتِ واپَسی کی اطلاع دینا اور زمینی مشاہدات کا اظہار کرنا یہ بات واضح کرتا ہے کہ سفرِ معراج صرف خواب یا کشف نہیں بلکہ بیداری میں پیش آیا ہوا حقیقی اور جسمانی سفر تھا۔
* اللہ پاک کے نبیوں کے معجزات عقل میں نہیں سماتے، لہٰذا مٌطْعِم بن عَدی اور دیگر کفار کا اپنی محدود عقل کی وجہ سے معجزے کا انکار کرنا یہ سکھاتا ہے کہ معجزات کو عقل کے تَرازو سے نہیں، ایمان کی نظر سے پرکھنا چاہیے۔
*اللہ پاک کی عطا سے نبیوں کو غیب کا علم ہوتا ہے۔
*اللہ کے نبی کی بتائی ہوئی غیبی خبریں حرف بہ حرف سچ ہوتی ہیں۔
*مخالفین اور دُشمن لوگ اگر ثبوت و دلیل مانگیں تو انکار نہیں کرنا چاہئے خواہ وہ لوگ ثبوت ملنے کے بعد مخالفت سے باز آئیں یا نہ آئیں۔
*بد نصیبوں کی پرانی عادت ہے کہ دلیل تو مانگتے ہیں پر دلیل و ثُبوت ملنے کے بعد حَق و سچ کو قبول نہیں کرتے۔
*نیّت درست نہ ہو تو دلیلیں مانگنابھی فائدہ نہیں دیتا۔
*ایمان کی دولت نصیب ہونا معجزہ دیکھنے پر موقوف نہیں بلکہ اللہ پاک کی طرف سے ہدایت و توفیق پر منحصر ہے۔
*حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات قِیامت تک مسلمانوں کا ایمان مضبوط ہونے اور غیر مسلموں کو ہدایت ملنے کا ذریعہ ہیں۔
*دعوتِ دین میں پیش آنے والی آزمائشوں پر گھبرانا یا غصّہ میں آنا درست نہیں، سکون و تحمّل سے کام لینا درست ہے۔
*دین کی دعوت و تبلیغ کی راہ میں اعتِراض کرنے والوں کے اعتراضات و انکار کا سامنا بھی ہوتا ہے لہٰذا اعتِراضات برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
Comments