امام جعفر صادق علیہ الرحمہ کی 6نصیحتیں اور ان کے معاشرتی اثرات
15رجبُ المرّجب ہمیں ایک عظیم ہستی کی یاد دلاتی ہے، جو کہ عبادت، ریاضت، تقویٰ، زُہد، پرہیزگاری، نرمی، شفقت، حِلْم، خوفِ خدا، علم و عمل اور دیگر کئی اوصافِ جلیلہ کے مالک ہیں۔ یہ عظیم ہستی خاندانِ مصطفےٰ، خاندانِ صدیقِ اکبر اور خاندانِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کے چشم و چراغ ہیں۔ جی ہاں! یہ جلیلُ الشّان حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رحمۃُ اللہ علیہ ہیں۔
حضرتِ امام جعفر صادِق رحمۃُ اللہ علیہ کی وِلادت17ربیعُ الاوّل 83 ہجری پیر شریف کےدن مدینۂ منورہ میں ہوئی، کنیت ابوعبداللہ اور ابواسماعیل جبکہ لقب صادق،فاضل اور طاہر ہے۔ آپ حضرتِ امام محمد باقر رحمۃُ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے ہیں جو امام زین العابدین کے بیٹے ہیں، جبکہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت سیدتنا اُمِّ فَرْوَہ ہیں جو کہ امیرُ المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی ہیں۔ ([1])
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت امام جعفر صادق رحمۃُ اللہ علیہ بےپناہ علم و فضل کے مالک تھے۔ آپ کے فرامین اور نصیحتیں آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، ایک موقع پر آپ نے اپنے لختِ جگر امام موسیٰ کاظم رحمۃُ اللہ علیہ کو چھ بڑی ہی عظیم نصیحتیں فرمائیں اور فرمایا کہ میری نصیحت قبول کرلو اور میری باتوں کو یاد رکھنا، اگر انہیں یاد رکھو گے تو زندگی بھی اچّھی گزرے گی اور موت بھی قابلِ رشک آئے گی۔
امام جعفر صادق رحمۃُ اللہ علیہ کی یہ چھ نصیحتیں محض انفرادی اصلاح کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مکمل معاشرتی انقلاب کا نقشہ کار ہیں۔ یہ نصائح انسانی زندگی کے ہر گوشے کو روشن کرتی ہیں اور ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تعمیر کا واضح راستہ دکھاتی ہیں۔ جب کوئی فرد یا معاشرہ ان اصولوں پر عمل کرتا ہے تو نہ صرف اس کی اپنی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ پورا ماحول پاکیزگی اور برکت سے بھر جاتا ہے۔
پہلی نصیحت (مال دار کون؟):
اے میرے بیٹے! مال دار وہ ہے جو تقسیم ِالٰہی پر راضی رہے اور جو دوسرے کے مال پر نظر رکھے وہ فقر کی حالت میں ہی مرتاہے۔تقسیمِ الٰہی پر راضی نہ رہنے والاگویا اللہ پاک کواس کے فیصلے میں تہمت لگاتا ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! جب انسان تقسیمِ الٰہی پر راضی رہنا سیکھ جاتا ہے تو اس کے اندر ایک عجیب سُکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے جو نہ صرف اس کی اپنی شخصیت کو نکھارتا ہے بلکہ پوری معاشرت کو متأثّر کرتا ہے۔ قَناعت پسند انسان کبھی دوسروں کے مال و دولت پر نظر نہیں رکھتا، اس طرح معاشرے میں چوری، ڈکیتی، رشوت خوری اور بے ایمانی کے جرائم خود بخود کم ہو جاتے ہیں۔ یہ جذبہ طبقاتی کشمکش کا بھی خاتمہ کرتا ہے کیونکہ جب ہر شخص اپنے حصّے پر راضی ہو تو غریب امیر سے حسد نہیں کرتا اور امیر غریب کو حقیر نہیں سمجھتا۔
اخلاقی اعتبار سے قَناعت انسان کو مستقل شکر گُزار بناتی ہے۔ ایسا شخص ہر حال میں اللہ کا شکر اَدا کرتا ہے اور کبھی شکایت نہیں کرتا۔مشکل وقت میں بھی وہ صبر کرتا ہے اور عِبادات میں بھی قناعت کا اَثر واضح نظر آتا ہے، کیونکہ جب دل میں مال کی محبّت نہ ہو تو عِبادت میں ریاکاری کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور انسان خالص اللہ کی رضا کے لیے عِبادت کرتا ہے۔
دوسری نصیحت(عُلَما کی صحبت باعث ِعزت ہے):
اے میرے بیٹے! دوسرے کے عیبوں سے پردہ ہٹانے والے کے اپنے عُیوب ظاہر ہوجاتے ہیں۔ بغاوت کی تلوار بلند کرنے والا اسی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ کسی کے لئے گڑھا کھودنے والا خود ہی اس میں جا گِرتا ہے۔ بےوقوفوں کی صحبت میں بیٹھنے والا حقیر و ذلیل ہوتا جبکہ عُلَما کی صحبت اختیار کرنے والا عزت پاتاہے اور بُرائی کے مقام پر جانے والے پر تہمت لگائی جاتی ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! علما کی صُحبت اختیار کرنا اور غیبت سے بچنا کسی معاشرے کو کتنا بلند مقام دلا سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جب لوگ علماءِ کرام کی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو ان کے دل و دماغ میں علم اور حکمت کی روشنی پھیلتی ہے۔ یہ علمی ماحول پورے معاشرے کو فائدہ پہنچاتاہے کیونکہ علم والے لوگ دوسروں کو بھی صحیح راہ دکھاتے ہیں۔ دوسری طرف جب لوگ ایک دوسرے کی غیبت نہیں کرتے تو معاشرے میں اعتماد اور محبت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ چغل خوری اور غیبت کی وجہ سے جو فتنے اور فساد پیدا ہوتے ہیں، وہ ختم ہو جاتے ہیں۔
یہ نصیحت انسان کے اخلاق پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ جب کوئی شخص دوسروں کے عیوب چھپانے کی عادت اپناتا ہے تو اس کے دل میں حسن ظن پیدا ہوتا ہے اور وہ ہر شخص کو اچّھی نظر سے دیکھتا ہے۔ علما کی صحبت سے تواضع اور عجز آتا ہے کیونکہ جاہل لوگوں کے بجائے علم والوں کے پاس بیٹھنے سے انسان کو اپنی کم علمی کا احساس ہوتا ہے۔ زبان کی حفاظت کرنے سے دل کی پاکیزگی بڑھتی ہے اور یہ عبادات پر بھی مثبت اَثر ڈالتا ہے۔
تیسری نصیحت (فضولیات سے پرہیز):
اے میرے بیٹے!لوگوں پر عیب لگانے سے بچنا ورنہ لوگ تم پر عیب لگائیں گے اور فضول باتوں سے بچنا ورنہ ان کی وجہ سےعزّت میں کمی ہوگی۔
پیارے اسلامی بھائیو! فضول باتوں سے پرہیز کرنا بظاہر ایک چھوٹی بات لگتی ہے لیکن اس کے اثرات انتہائی وسیع ہیں۔ معاشرتی اعتِبار سے جب لوگ لایعنی گفتگو سے بچتے ہیں تو بہت سا قیمتی وقت بچتا ہے جسے مفید کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس طرح معاشرے میں کارآمد اور بامعنی گفتگو کا رواج پیدا ہوتا ہے۔ کم بولنے والے لوگوں کا معاشرے میں زیادہ احتِرام ہوتا ہے کیونکہ جب وہ کچھ کہتے ہیں تو لوگ سنجیدگی سے سنتے ہیں۔ یہ عادت معاشرے میں سنجیدگی اور متانت کا ماحول پیدا کرتی ہے۔
اخلاقی فوائد کے لحاظ سے فضول باتوں سے بچنا ضَبطِ نفس کا باعث بنتا ہے۔ جب انسان اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے تو دیگر نفسانی خواہشات پر بھی کنٹرول آسان ہو جاتا ہے۔ کم بولنے والا شخص جھوٹ بولنے سے بھی محفوظ رہتا ہے کیونکہ وہ سوچ سمجھ کر بولتا ہے۔ یہ عادت حکمت پیدا کرتی ہے اور انسان کو صحیح وقت پر صحیح بات کہنے کا ہنر آجاتا ہے۔ عِبادات کے حوالے سے فضول باتوں سے بچنے سے ذکرُ اللہ کے لیے وقت ملتا ہے اور خاموشی کے اوقات کو تِلاوتِ قراٰن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چوتھی نصیحت(ہمیشہ حق بات کہنا):
اے بیٹا!حق بات ہی کہنا خواہ تمہارے حق میں ہویا خلاف کیونکہ مذمَّت کاسامناتمہیں اپنے دوستوں کی طرف سے ہی کرنا پڑے گا۔
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیشہ سچ بولنے کی عادت کسی بھی معاشرے کو عظمت کی بُلندیوں پر پہنچا سکتی ہے۔ جب لوگ اپنے فائدے اور نقصان کی پروا کیے بغیر حق بات کہتے ہیں تو معاشرے میں عدل و انصاف کا قِیام ہوتا ہے۔ ظلم کا خاتمہ ہوتا ہے اور مظلوم کو انصاف ملتا ہے۔ سچ بولنے کی عادت سے بدعنوانی اور کرپشن خود بخود ختم ہوجاتی ہے کیونکہ جھوٹ اور فریب کے بغیر یہ برائیاں پنپ نہیں سکتیں۔ سچے لوگوں پر معاشرے کا مکمل بھروسا ہوتا ہے اور وہ قیادت کے عہدوں کے حقدار بنتے ہیں۔
حق گوئی انسان کے اخلاق میں بے پناہ بہادری پیدا کرتی ہے۔ جب کوئی شخص نتائج کی پروا کیے بغیر حق بات کہتا ہے تو یہ اس کی جُرأت اور ہمّت کا اعلیٰ ترین مظاہرہ ہوتا ہے۔ سچ بولنے کی عادت انسان کو جھوٹ سے مکمل بچاتی ہے اور اس کے اندر خود احتسابی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہتا ہے۔ عِبادات پر اس کا اَثر یہ ہوتا ہے کہ حق بات کہنے والا ہمیشہ اللہ کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے نہ کہ لوگوں کو۔ اس طرح اس کی عبادت خالص ہو جاتی ہے اور سچّے لوگوں کی دُعائیں جلدی قبول ہوتی ہیں۔
پانچویں نصیحت (بغض ونفرت کا سبب):
اے میرے بیٹے!قراٰنِ پاک کی تلاوت کرتے رہنا، سلام کو عام کرنا، نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے منع کرنا،جو تجھ سے تعلّق توڑے تُو اس سے رشتہ جوڑنا، جو تم سے بات نہ کرے، تم اس سے بات کرنے میں پہل کرنا، جو تم سے مانگے اسے عطا کرنا، چغلخوری سے بچنا کہ یہ دلوں میں بغض پیدا کرتی ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو!یہ نصیحت معاشرتی ذمّہ داری کا جامع نقشہ پیش کرتی ہے۔ جب لوگ اَمر بِالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں تو معاشرے میں نیکی کا غلبہ ہوتا ہے اور برائی دب جاتی ہے۔ تعلّق توڑنے والوں سے رشتہ جوڑنے کا جذبہ معاشرے میں محبّت اور رواداری کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ سلام کو عام کرنے سے باہمی احتِرام اور پیار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ تمام عادات مل کر ایک مہذّب اور پر امن معاشرے کی بنیاد رکھتی ہیں۔
اخلاقی اعتبار سے یہ نصیحت انسان میں خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ وہ دوسروں کی بھلائی چاہتا ہے اور ان کے فائدے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ برائی کے بدلے نیکی کرنا صبر و تحمل کا اعلیٰ مظاہرہ ہے۔ مانگنے والوں کو دینے کی عادت سخاوت پیدا کرتی ہے اور یہ اللہ کی محبوب صفت ہے۔ عبادات کے حوالے سے قراٰن کی مستقل تلاوت کا حکم روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے اور نیکی کا حکم دینا خود ایک عبادت ہے جس سے اَجْر و ثواب ملتا ہے۔
چھٹی نصیحت(نافرمانوں کی صحبت سے بچنا):
اے میرے بیٹے!اگر ملاقات کی تمنّا ہو تو نیک لوگوں سے ملنا، نافرمانوں سے نہ ملنا کہ نافرمان اس چٹان کی طرح ہیں جس سے پانی نہیں بہتا،ایسے درخت کی طرح ہیں جوسر سبز و شاداب نہیں ہوتا، ایسی زمین کی مثل ہیں جس پر گھاس نہیں اُگتی۔([2])
پیارے اسلامی بھائیو! اچّھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا اور برے لوگوں سے بچنا کسی بھی انسان کی زندگی کا فیصلہ کن موڑ ہوتا ہے۔ معاشرتی لحاظ سے نیک لوگوں کی صحبت پورے ماحول کو متأثر کرتی ہے اور خیر کا غلبہ پیدا کرتی ہے۔ اچّھے لوگوں کے ساتھ رہنے سے اچّھی عادات قدرتی طور پر منتقل ہوتی ہیں اور یہ نقل کا اثر پوری نسلوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ برے لوگوں سے بچنے کی وجہ سے غلط کاموں میں ملوث ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور معاشرے میں جرائم کی شرح میں کمی آتی ہے۔
اخلاقی بہتری کے لحاظ سے نیک لوگوں کی صحبت انسان کے کردار میں نکھار لاتی ہے۔ اچّھے کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے اور بُرائیوں سے قدرتی طور پر نفرت ہو جاتی ہے۔ جب انسان اپنے سے بہتر لوگوں کو دیکھتا ہے تو اس میں خود کو بہتر بنانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ عبادات میں بھی نیک صحبت کا اثر واضح نظر آتا ہے کیونکہ نیک لوگوں کو دیکھ کر عبادت کا شوق بڑھتا ہے اور دینی علم حاصل کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ چھ نصیحتیں مل کر انسانی زندگی کا مکمل نظام پیش کرتی ہیں۔ انفرادی سطح پر یہ شخصیت کو نکھارتی ہیں اور اخلاقی کمالات پیدا کرتی ہیں۔ اجتماعی سطح پر یہ معاشرے میں امن و سکون قائم کرتی ہیں، باہمی محبت اور اعتماد بڑھاتی ہیں اور ایک مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھتی ہیں۔
اللہ کریم ہمیں ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ایم فل اسکالر/فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی

Comments