احوالِ قیامت کا قراٰنی بیان
قراٰنِ مجید میں قِیامت کا بیان کئی مقامات پر کیا گیا ہے، جس میں اس دن کے ہولناک اور عظیم مَناظر کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ دن محض ایک واقِعہ نہیں بلکہ ایک ایسا دن ہے جب پوری کائنات کا نِظام درہم برہم ہو جائے گا اور ہر چیز اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔قراٰنِ کریم میں اس دن کو ”یومُ الدین ، یومُ الحساب اور اَلسّاعۃ “ جیسے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ قراٰنِ کریم کی روشنی میں چند اَحوالِ قِیامت پڑھیے اور لرزیئے!
(1) کائنات کا بکھر جانا:
قِیامت کے آغاز میں ایک شدید صور پھونکا جائے گا، جس سے آسمان و زمین کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا:
٭آسمان پھٹ جائے گا اور ستارے بکھر جائیں گے، ان کی چمک ماند پڑ جائے گی۔قراٰنِ پاک میں ہے:
اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْۙ(۱) وَ اِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْۙ(۲)
ترجمۂ کنزالایمان: جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تارے جھڑ پڑیں گے۔
(پ30، الانفطار: 1، 2)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭زمین شدّت سے ہلے گی اور اس کا سینہ پھٹ جائے گا، پہاڑ جو کہ زمین پر مضبوطی کا نشان ہیں، وہ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اُڑ جائیں گے، چنانچہ ارشادِ باری ہوتا ہے :
وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِؕ(۵)
ترجمۂ کنزالایمان: اور پہاڑ ہوں گے جیسے دُھنکی (دُھنی ہوئی)اون۔
(پ30، القارعۃ: 5)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی، جس سے ان کا پانی کھول اُٹھے گا اور وہ بے قابو ہو جائیں گے۔ قراٰنِ کریم میں ہے:
وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْﭪ(۶)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جب سمندر سلگائے جائیں ۔
(پ30، التکویر: 6)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(2) مُردوں کا زندہ ہونا اور حساب و کتاب:
پہلے صور کے بعد، ایک اور صور پھونکا جائے گا جس سے تمام مُردے زندہ ہو کر اپنی قبروں سے باہر نکل آئیں گے اور وہ میدانِ حشر میں جمع ہوں گے۔
٭اس وقت لوگ قبروں سے اس طرح نکلیں گے جیسے ٹڈّیوں کا گروہ اُڑ رہا ہو۔قراٰنِ پاک میں ہے:
یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌۙ(۷)
ترجمۂ کنزالعرفان: قبروں سے یوں نکلیں گے گویا وہ پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہیں۔
(پ27،القمر:7)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭یہ وہ دن ہو گا جب ہر شخص سےاس کی زندَگی کا حساب لیا جائے گا۔ چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی سامنے آئے گا:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸)
ترجمۂ کنزالایمان: تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور جو ایک ذرّہ بھر بُرائی کرے اسے دیکھے گا۔
(پ30، الزلزال)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
٭ہر انسان کے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا۔ دائیں ہاتھ میں نیک لوگوں کو اور بائیں ہاتھ میں بدکاروں کو:
فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖۙ-فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْۚ(۱۹)
ترجمۂ کنزالایمان: تو وہ جو اپنا نامۂ اعمال دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا کہے گا لو میرے نامۂ اعمال پڑھو۔
(پ29، الحاقۃ: 19)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(3) جَزا و سَزا:
حساب کے بعد لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ان کے انجام کی طرف بھیجا جائے گا، نیک لوگوں کو جنّت کی ابدی نعمتیں ملیں گی، جبکہ بدکار لوگوں کو جہنّم کی آگ اور سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔
(پ30، القارعۃ: 6تا 9)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
قِیامت کے ان تمام مَناظر کو بیان کرنے کا مقصد انسان کو دنیا کی بے ثباتی اور آخِرت کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے۔ قراٰنِ کریم کا بیان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ یہ دنیا ایک عارضی ٹھکانہ ہے اور اصل کامیابی آخِرت کی ہے۔
اللہ پاک ہمیں قراٰنِ پاک پڑھ کر، سمجھ کر آخِرت کی تیّاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان رضا چوہنگ ،لاہور)
Comments