مایوس نہ ہوں


مایوس نہ ہوں


اللہ پاک نے اپنی حکمت اور مشیّت سے لوگوں کو مختلف  حالات میں رکھا ہے،کسی کو غنی کیا تو کسی کو فقیر، کسی کو  مالدار تو کسی کو نادار، کسی کو مالک  تو کسی کو مَملوک ،اَلغرض اللہ پاک جس کو جس حال میں چاہتا ہے رکھتا ہے۔ یوں ہی کامیابی ہو یا ناکامی، راحَت ہو یا مصیبت، نفع ہو یا نقصان دَرحقیقت سب  اللہ پاک کی طرف سے ہے۔انسان کو چاہیے کہ ہر حال میں اللہ پاک کی عطا اور رضا پر صابر و شاکر رہے۔ کچھ لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب انہیں نعمتیں مل رہی ہوں اور  ترقیاں حاصل  ہو  رہی ہوں تو وہ ان پر خوش ہوتے اور پھولے نہیں سماتے مگر جُوں ہی کسی  بیماری  یا پریشانی، آفت یا مصیبت میں مبتلا ہوجائیں، کاروبار یا اِمتحان وغیرہ میں ناکامی ہو جائے تو فوراً پریشان بلکہ مایوس ہو جاتے ہیں۔انسان کی اِس کمزوری کو بیان کرتے ہوئے اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:

لَا یَسْــٴَـمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ٘-وَ اِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَــٴُـوْسٌ قَنُوْطٌ(۴۹)

ترجَمۂ کنزالعرفان: آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا  اور اگرکوئی بُرائی پہنچے تو بہت نااُمّید ،بڑا مایوس ہو جاتا ہے۔ ([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دِینِ اسلام کی روشن اور اعلیٰ تعلیمات اس مصیبت اور پریشانی کے وقت  بھی اپنے ماننے والوں کی مکمل راہ نمائی کرتے ہوئے انہیں مایوسی (Depression) کے اندھیروں سے نکال کر اُمّید کی شاہراہ پر گامزن کرتی ہیں۔دِینِ اسلام کی روشن اور اعلیٰ تعلیمات کے مُطابق ایک مسلمان کے لئے لازِم ہے کہ وہ مایوس ہونے کے بجائے اُمّید کا دامن تھامے رہے۔ اپنے عمل کی کوتاہی پر نَظَر کرتے ہوئے اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتا رہے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ پاک کی رَحمت کا اُمّیدوار بھی رہے۔   دُنیا میں  بِالکل بے خوف ہو جانا یا اللہ پاک  کی رَحمت سے بالکل ہی  مایوس ہو جانا یہ دونوں  حالتیں کفّار کی بیان کی گئی ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:

اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِۚ-فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ۠(۹۹)

ترجَمۂ کنزالعرفان: کیا وہ اللہ کی خفیہ تَدبیر سے بے خوف ہیں تو اللہ کی خفیہ تَدبیر سے صرف تباہ ہونے والے لوگ ہی بے خوف ہوتے  ہیں۔([2])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مزید اِرشاد فرمایا:

وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ(۸۷)

ترجَمۂ کنزالعرفان:اور اللہ  کی رَحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رَحمت سے کافر لوگ ہی نااُمّید ہوتے ہیں۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِسی طرح اگر کسی انسان سے بتقاضائے بشریّت گُناہ سَرزَد ہو جائیں اور وہ اِس قدر زیادہ ہوں کہ آسمان کی بلندیوں  تک پہنچ جائیں تب بھی اسے رَحمتِ الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اللہ پاک کی رَحمت بہت بڑی ہے۔اللہ پاک اِرشاد فرماتا   ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳)

ترجَمۂ کنزالعرفان: تم فرماؤ:اے میرے وہ بندو جنہوں  نے اپنی جانوں  پر زیادتی کی!اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ،بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اِس آیت میں  اگرچہ ایک خاص چیز کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رَحمت سے مایوس ہونے سے منع فرمایا گیا لیکن عمومی طور پر ہر حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رَحمت سے مایوس اور نا اُمّید ہونا منع ہے ،لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ زندگی میں  آنے والی پے دَرپے مصیبتوں، مشکلوں اور دُشواریوں  کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رَحمت سے ہرگز مایوس اور نااُمّید نہ ہو کیونکہ یہ کافروں اور گمراہوں  کا وَصف اور کبیرہ گُناہ ہے۔([5])

اَحادیثِ مبارکہ میں بھی مایوسی کی سخت ممانعت آئی ہے چنانچہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم     سے سوال کیا گیا  کہ کبیرہ گُناہ کون سے ہیں؟ تو آپ نے اِرشاد فرمایا: اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، اس کی رَحمت سے مایوس ہونا اور اس کی خُفیہ تَدبیر سے بے خوف رہنا۔([6])حضرت عبدُاللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:”دو باتوں  میں ہلاکت ہے(1)مایوسی (2)خود پسندی۔“یہ قول نقل کرنے کے بعد امام محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ  عبدُاللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  نے اِن دو باتوں کو جمع فرمایا کیونکہ سعادت کا حُصول کوشش،طلب، محنت اور اِرادے کے بغیر ناممکن ہے اور  مایوس آدمی نہ کوشش کرتا ہے اور نہ ہی طَلَب کرتا ہے جبکہ خود پسند آدمی یہ نظریہ  رکھتا ہے کہ وہ خوش بخت ہے اور اپنی مُراد کے حُصول میں  کامیاب ہو چکا ہے اس لئے وہ کوشش کرنا  چھوڑ  دیتا ہے۔([7])

دِینی یا دُنیوی کسی بھی طرح کا مسئلہ ہو ہمّت نہ ہاریں ،ڈَٹ کر اس کا مقابلہ کریں  اور مایوسی کو اپنے قریب بھی نہ آنے   دیں  کہ بسااوقات مایوسی کی وجہ سے بندہ جان بلکہ اِیمان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔کئی لوگ قرضداریوں،ناچاکیوں اور مَعاشی حالات سے مایوس  ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں، یوں ہی کئی لوگ مایوسی کی وجہ سے کفریہ کلمات تک بک دیتے ہیں۔ہر مایوسی اگرچہ کفر نہیں البتہ بعض صورتیں ایسی ہیں جو کفر تک لے جاتی ہیں۔چنانچہ شیخ طریقت، امير ِاہلِ سنَّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: بعض اَوقات مختلف آفات،دُنیاوی مُعاملات یا بیماری کے مُعالَجات و اَخراجات وغیرہ کے سلسلے میں آدَمی ہمّت ہار کر مایوس ہو جاتا ہے اِس طرح کی مایوسی کُفر نہیں۔ رَحمت سے مایوسی کے کفر ہونے کی صورتیں یہ ہیں:اللہ پاک کو قادِر نہ سمجھے یا اللہ تعالیٰ کو عالِم نہ سمجھے یا اللہ تعالیٰ کو بخیل سمجھے۔([8])

یاد رَکھئے! حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے،مشکل کے بعد آسانی اور تنگی کے بعد خوشحالی ضَرور ملتی ہے۔ظاہری اَسباب کے ختم ہونے کو دیکھنے کے بجائے خالقِ اَسباب کی طرف نظر کیجئے اور اس سے لو لگائیے یقیناً اللہ پاک اِن مَسائل سے نکلنے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال دے گا۔ اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے:

وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ-

ترجَمۂ کنز العرفان: اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔ اور اسے وہاں  سے روزی دے گا جہاں  اس کا گمان بھی نہ ہو۔([9])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

لہٰذا خود بھی مایوس نہ ہوں اور دوسروں  کو بھی مایوس نہ ہونے دیجئے۔

 بعض لوگوں کی خواہ مخواہ مایوسی پھیلانے کی عادت ہوتی ہے، کسی کا کاروبار میں نقصان ہو جائے تو اس کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے کہیں گے: یہ کبھی بھی کاروبار میں کامیاب  نہیں ہو سکتا۔ کسی مَریض کی عیادت کرنے جائیں گے  تو مَریض  کو دِلاسا دینے اور اس کی ہمّت بڑھانے کے بجائے کہیں گے: آپ کی بیماری بہت سخت ہے،فلاں شخص کو بھی یہی بیماری تھی تو بیچارہ چند روز میں ہی ایڑیاں رَگڑ رَگڑ کر مَر  گیا۔ کسی گنہگار دُنیادار  شخص کو دیکھ کر اسے  توبہ پر آمادہ کرنے کے بجائے  کہیں گے: اسےکبھی توبہ کی توفیق نہیں ملے گی، اگر اس نے توبہ کر بھی لی تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ایسے لوگوں کو اِس حدیثِ پاک سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ چنانچہ حضرتِ زید بن اسلم  رضی اللہ عنہ  سے رِوایت ہے کہ پہلی اُمَّتوں میں ایک شخص کثرتِ عبادت سے اپنے نفس پر سختی کرتا اور لوگوں کو رَحمتِ الٰہی سے مایوس کرتا۔ جب اس کا اِنتقال ہوا تو کسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہے اور عرض کر رہا ہے: اے میرے رَب! میرے لئےتیری بارگاہ میں کیااَجر ہے؟ تو بارگاہِ خداوندی سے جواب ملا:آگ۔ عرض کی:میری عِبادت و ریاضت کہاں گئی؟ اِرشاد فرمایا: تو دُنیا میں لوگوں کو میری رَحمت سے مایوس کرتا تھا،آج میں تجھے اپنی رَحمت سے مایوس کر دوں گا۔([10])

اللہ پاک ہمیں اپنی رَحمت سے اُمّید رکھنے اور مایوسی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، ذمہ دار شعبہ خلیفہ امیراہلسنت



([1])پ 25، حٰمٓ السجدۃ: 49

([2])پ 9، الاعراف:99

([3])پ 13،یوسف:87

([4])پ24،الزمر:53

([5])صراط الجنان،  8/489

([6])معجم کبیر، 9/156،حدیث:8784

([7])احیاء العلوم، 3/452

([8])کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص483

([9])پ28، الطلاق:2، 3

([10])مصنف عبدالرزاق،  10/261، حدیث: 20728


Share