اسلام کا نظام طہارت و نظافت (تیسری اور آخری قسط)


اسلام کا نظام طہارت و نظافت(تیسری اور آخری قسط)

دل کی طَہارت

انسان کو اپنی ظاہری جسمانی صَفائی اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی صاف رکھنا چاہیے۔ قراٰن وحدیث میں دل کی طَہارت و صَفائی کی ترغیب اور اس کی اہمیّت بتائی گئی ہے۔بروزِ قِیامت جب مال و اولاد کوئی فائدہ نہیں دیں گے اس دن دل کی صفائی،صحّت اور پاکیزگی ہی رب کے حُضور سُرخرو ہونے کی کنجی ہوگی۔جیساکہ سورۃُ الشعراء میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنز الایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حُضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر۔ ([1])

ایک مقام پر دل کی پاکیزگی کو کامیابی کا ضامِن کہا گیا ہے چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴)

ترجمۂ کنزُالایمان: بےشک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا۔([2])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی کامیاب وہی ہے جس نے اپنے دِل کی حفاظت کی اور خود کو بُرے اَخلاق سے بچایا۔([3]) کیونکہ اگر انسان کا دل پاک وصاف ہوگا تواس کی زندگی بہتر، پُراَمن اور اللہ کی رضا کے مطابِق گزرتی ہے۔ اسلام میں دل کی طَہارت کو ایمان کی مضبوطی، حسنِ اخلاق اور اللہ پاک کی خوشنودی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ انسانی جسم میں دل ہی ایسا عُضْو ہے جس کی درستی سے پورے جسم کی سلامتی رہتی ہے حدیثِ پاک میں ہے : جسم میں گوشت کاایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح رہے تو پورا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوتاہے، سنو! وہ دل ہے۔([4])

حکیمُ الاُمَّت،حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ اللہ علیہ  اس حدیثِ پاک کےتحت فرماتےہیں: دل بادشاہ ہےجسم اِس کی رِعایا،جیسےبادشاہ کےدُرُست ہو جانے سے تمام ملک ٹھیک ہوجاتا ہے،ایسے ہی دل سنبھل جانے سے تمام جسم ٹھیک ہو جاتا ہے، دل اِرادہ کرتا ہےجسم اس پرعَمَل کی کوشش (کرتا ہے)، اس لیے صوفیائے کرام دل کی اِصلاح پر بہت زور دیتے ہیں۔([5])

امام محمدغزالی  رحمۃُ اللہ علیہ  فرماتےہیں:ظاہری اَعمال کا باطِنی اَوصاف کےساتھ ایک خاص تعلّق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اَعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حَسَد، رِیاکاری اور تکبُّر وغیرہ عیبوں سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی دُرُست ہوتے ہیں۔([6])

دل کی صفائی کےلئے درج ذیل طریقے اختیار کیجیے اِن شآءَ اللہ فائدہ ہوگا۔

(1)گُناہوں سے سچّی توبہ کیجئے

کیونکہ گُناہ سے بھی دل گندہ ہوتاہے لہٰذا خود کو ظاہری گناہوں نیز تکبر،حسد،کینہ وغیرہ باطنی بیماریوں سے بھی پاک رکھیے کہ حدیث پاک میں ہے: مومن جب گناہ کرتاہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتاہے پھر اگر وہ توبہ کرے اور بخشش چاہے تو اس کا دل صاف ہوجاتاہے اوراگر توبہ نہ کرے تو وہ نکتہ پھیلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل کو گھیر لیتا ہے۔([7])

(2)اللہ پاک سے دُعا کیجئے

دل کی صفائی اور پاکی کے حُصول کے لئے اللہ پاک سے دُعا کیجئے کیونکہ اللہ پاک کا فضل و کرم جب تک دست گىرى نہ کرے اس وقت تک دلوں کی صفائی ناممکن ہے۔([8])

(3)تلاوتِ قراٰن اور موت کی یاد

تلاوتِ قراٰن کا معمول بنائیے اورموت کو یاد کیجئےکہ یہ بھی دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہےحدیثِ پاک میں ہے: بے شک! دل کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتاہے، عرض کی گئی: اس کی صفائی کیسےہوگی؟ فرمایا:موت کو یاد کرنے اور قراٰن ِپاک کی تِلاوت کرنے سے۔([9])

(4)اچّھی صحبت اورعقائد واعمال کی درستی

صحیح العقیدہ اور اچّھے لوگوں کی صحبت اختِیار کیجئے کہ اس کی بَرَکت سے نیک اعمال میں رغبت اور عقائد کی اصلاح ہوگی جو دل کی صفائی کا سبب ہے۔ امام غزالی  رحمۃُ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :عقائد واعمال کے عجائب وغرائب اور فوائد دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے فوائد سے زیادہ اور عظیم ہیں۔ یہ دلوں کی صَفائی، پاکیزگی اور طَہارت وتزکیہ کا فائدہ دیتے ہیں۔([10])

صفائی کے دینی و دنیاوی فوائد

قراٰن و حدیث نے مختلف مقامات پر صفائی کی ترغیب دی ہے اورصفائی کے فوائد و ثمرات بھی بیان کئے ہیں،صفائی سے کئی طرح کے دینی، دنیاوی،معاشرتی،جسمانی اورشخصی فوائد حاصل ہوتے ہیں، صفائی کےچند فوائد ملاحظہ کیجئے:

(1)ایمان کا حصہ ہے

نبیِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیثِ پاک کے مطابِق طہارت نصف ایمان ہے۔([11])

علّامہ ابو زکریا یحییٰ بن شَرف نووی  رحمۃُ اللہ علیہ  اس حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اس کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ طہارت کا اَجْر بڑھ کر ایمان کے نصف  اجر تک پہنچ جاتا ہے۔([12])

(2)روحانی پاکیزگی

جب انسان جسمانی صفائی ستھرائی کا اہتمام رکھتا ہے تو اس کا ذہن بھی صاف رہتا ہے اور وہ عِبادات کی ادائیگی یکسوئی اور توجّہ سے کر سکتا ہے۔اور یوں صاف لِباس اور طہارت کے بعدعبادت کرکے انسان اپنے دل اور رُوح کو بھی اللہ پاک کے قریب کرلیتا ہے۔

(3)اللہ کا محبوب بن جاتا ہے

صاف ستھرے اور پاک لوگوں کو ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ وہ اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہیں کیونکہ قراٰن پاک میں ہے:

وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸)

ترجَمۂ کنز الایمان: اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔([13])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی طرح ایک حدیث پاک میں بھی ہے کہ اللہ کریم پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے، ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے۔([14])

(4)عبادت کی صحت

عبادت کی قبولیّت کے لئے طہارت ضَروری عمل ہے اگر کوئی بے وُضو نَماز شروع کردے تو وہ ہوگی ہی نہیں کیونکہ نماز کے لئے وُضو شَرْط ہے تو جب وُضو نہیں ہوگا تو نماز بھی نہیں ہوگی لہٰذا طہارت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ باوُضو شخص اگر دیگر شرائط کو ملحوظ رکھ  کر عبادت کرے تو وہ درست شمار ہوتی ہے۔

(5)صحّت کی حفاظت

صفائی کی عادت انسانی صحّت کے لئے بھی بہت مفید ہے جبکہ گندگی مختلف وائرس اور بیکٹیریا کو جنم دیتی ہے۔ وُضو اور غُسل کرنے سے جسم کی صفائی ہوتی ہے اور انسان کئی طرح کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں سے بچ جاتا ہے اور صحّت کی حالت میں عبادات کی اَدائیگی کے قابل رہتا ہے۔ وُضو میں دھوئے جانے والے اَعضاءبھی مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

(6) معاشرتی فوائد

صفائی ستھرائی کے فوائد کسی فرد تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کے معاشرتی سطح پر بھی کثیر فوائدظاہر ہوتے ہیں۔ کسی فرد کی صفائی کی عادت سےاس کی عزّت میں اِضافہ ہوتا ہے کیونکہ صاف ستھرے شخص کو لوگ پسند کرتے ہیں لوگوں کی نظر میں اس کی عزّت ہوتی ہے لوگوں کے ساتھ اس کے تعلّقات بہتر ہوتے ہیں اگر وہ اپنے قریبی لوگوں کو صفائی کی ترغیب دلائے تو اس کی دیکھا دیکھی کئی لوگ صفائی کے عادی ہوسکتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ پورا معاشرہ بھی صفائی کا عادی ہوسکتا ہے۔

(7) خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے

صفائی انسان کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرتی  ہے۔ جب آپ خود کو صاف ستھرا رکھیں گے تو آپ کا چہرہ اور جسم بہتر نظر آئے گا، جس سے آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی۔لوگوں سے مُعامَلات کرنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنےمیں خود کو بہتر محسوس کریں گے اور اس سے آپ کی شخصیت پر مثبت اَثْرات مرتب ہوں گے۔ حضرت سَہل بن حنظلہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، نبیِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: جو لِباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سُواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزّت کریں۔([15]) حضرت علّامہ عبدُ الرّؤف مُناوی  رحمۃُ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اور عُلَما کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔([16])

(8) پیسوں کی بچت

صفائی کی عادَت انسان کو بہت سی بیماریوں سے بچاتی ہے تو اس وجہ سے صفائی کاعادی شخص حتَّی الامکان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس وجہ سے دَواؤں اور ڈاکٹر کی فیس وغیرہ اَخراجات کی بچت کرکےہم اپنے پیسے بچا سکتےہیں۔

(9)طویل عمری کا امکان

صفائی کی عادَت انسانی صحّت اور طویل عمری کی ضامِن ہے، کیونکہ اگر ہم بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اپنے جسم کی بہتر دیکھ بھال کرتے ہیں تو دل، جگر، اور دیگر اَعضا ءکی صحّت پر بھی مثبت اَثرات مرتب ہوتے ہیں، جو طویل عمری کا باعِث بنتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])پ19،الشعراء:89

([2])پ 30، الاعلیٰ:14

([3])دیکھئے:تفسیر ابن کثیر، پ30، الاعلیٰ:14، 8/373

([4])بخاری،1/33، حدیث:52

([5])مراٰۃ المناجیح،4/230 ملتقطاً

([6])منہاج العابدین، ص 13ملخصاً

([7])ابن ماجہ،4/488 ، حدیث : 4244

([8])اخبار الاخیار، ص 63

([9])شعب الایمان، 2/ 352، حدیث: 2014

([10])احیاء العلوم 1/125

([11])مسلم،ص 115،حدیث:534

([12])شرح مسلم للنووی،3/100

([13])پ11، التوبۃ:108

([14])ترمذی،4/365، حدیث:2808

([15])جامع صغیر،ص22،حدیث:257

([16])فیض القدیر،1 / 249، تحت الحدیث: 257


Share