رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تشبیہات سے تربیَت فرمانا
تعلیم و تربیَت کا بہترین انداز یہ ہے کہ بات کو ایسے اُسلوب میں پیش کیا جائے کہ سننے والے کے دل و دماغ پر فوراً اثر کرے اور وہ بات یاد بھی رہ جائے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چونکہ معلمِ کائنات ہیں اس لیے آپ علیہ السّلام نے اپنی اُمّت کی تعلیم و تربیَت کے لیے نہایت حکیمانہ طریقے اپنائے، ان میں سے ایک اَہَم انداز یہ تھا کہ آپ علیہ السّلام تشبیہات کے ذریعے بات کو سمجھاتے یعنی کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ اس طرح بیان فرماتے کہ گویا دونوں میں گہری مماثلت ہے۔ تشبیہ کا یہ اُسلوب نہ صرف بات کو واضح کرتا ہے بلکہ سامعین کے ذہنوں پر اس کا گہرا اثر چھوڑتا ہے، آئیے چند وہ احادیث پڑھیے جن میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تشبیہ دے کر امت کی رَہنمائی فرمائی۔
(1) قراٰن پڑھنے والے مؤمن کی تشبیہ:
نبیِ مکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَالاُتْرُجَّةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَ رِيحُهَا طَيِّبٌ یعنی وہ مؤمن جو قراٰن پڑھتا ہے اس کی مثال سنگترے کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہے۔(بخاری،3/408، حدیث:5020)
یہ تشبیہ ہمیں بتاتی ہے کہ مؤمن جب قراٰن پڑھتا ہے تو اس کی ذات سے نہ صرف خود کو فائدہ پہنچتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نُور و سُکون کا سبب بنتا ہے۔
(2)اچّھے اور بُرے ساتھی کی تشبیہ:
نبیِ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالْجَلِيسِ السَّوْء، كَحَامِلِ الْمِسْكِ، وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ: اِمَّا اَنْ يُحْذِيَكَ، وَاِمَّا اَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَاِمَّا اَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ:اِمَّا اَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَاِمَّا اَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً یعنی اچّھے بُرے ساتھی کی مثال مُشک کے اُٹھانے اور بھٹّی دَھونکنے والے کی طرح ہے، مُشک اُٹھانے والا یا تو تمہیں ویسے ہی دے گا یا تم اس سے کچھ خرید لو گے یا تم اس سے اچّھی خوشبو پاؤ گے اور بھٹّی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلادے گا یا تم اس سے بدبو پاؤ گے۔ (مسلم، ص1084، حدیث: 6692)
اس تشبیہ سے ہمیں واضح رہنمائی ملتی ہے کہ انسان جس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس کا اثر ضَرور لیتا ہے لہٰذا ہمیں ہمیشہ نیک صحبت کا انتخاب کرنا چاہیے۔
(3)منافق کی تشبیہ:
معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ الْعَائِرَةِ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ، تَعِيرُ إِلَى هَذِهٖ مَرَّةً، وَإِلَى هَذِهٖ مَرَّةً یعنی منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان بھٹکتی رہتی ہے کبھی اِدھر جاتی ہے اور کبھی اُدھر۔( مسلم،ص1147، حدیث: 7043)
یہ تشبیہ منافق کی دو رُخی کو واضح کرتی ہے مؤمن کو چاہیے کہ وہ ثابت قدم رہے اور منافقت سے دور رہے۔
(4)دنیا اور آخِرت کی تشبیہ:
اللہ پاک کے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا كَرَاكِبٍ ظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا یعنی میرا دنیا سے تعلّق ایسا ہی ہے جیسے ایک سوار کا جو کسی درخت کے نیچے کچھ دیر آرام کرتا ہے، پھر اُٹھتا ہے اور اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔(مسند احمد، ص241، حدیث: 3709)
اس تشبیہ کے ذریعے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں دنیا کی حقیقت سمجھائی کہ یہ محض عارضی پڑاؤ ہے اصل منزل آخرت ہے۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیم و تربیَت میں تشبیہات کا انداز نہایت مؤثّر اور دلنشین ہے، آپ علیہ السّلام نے نہ صرف علمی انداز میں بلکہ عام فہم مثالوں کے ذریعے دین کی باتیں سمجھائیں تاکہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکے، ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی گفتگو اور تعلیم میں اسی اُسلوب کو اپنائیں تاکہ بات زیادہ مؤثّر اور دیر پا رہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(درجۂ خامسہ، جامعۃُ المدینہ فیضان بغداد کورنگی، کراچی)
Comments