رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قرب دلانے والی نیکیاں(قسط4)
انسان تقویٰ و پرہیزگاری کے چاہے کتنے ہی بلند مقام پر کیوں نہ پہنچ جائے، اُسے اپنی اصل منزل یعنی قبر و آخِرت کی تیاری سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ بلاشبہ، نیک اعمال بجا لانے کی توفیق ملنا اللہ کریم کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، لہٰذا ہمیں ہر لمحہ اُس مالکِ کائنات کا شکر گُزار رہنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں اس فانی دنیا میں نیکی کمانے کا موقع عنایت فرمایا اور ان تمام نیکیوں کی روح اور سب سے عظیم وسیلہ، جو بندے کو بارگاہِ الٰہی میں مقبول اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قرب سے سرفراز کرتا ہے، وہ حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ہے۔ یہی محبت دراصل ایمان کے کامل ہونے کی سب سے بڑی دلیل اور پہچان ہے۔ آئیے! اسی محبت کے نور سے اپنے دلوں کو منوّر کرنے کے لیے چند ایمان افروز روایات پڑھتے ہیں اور اپنی روح کو تازگی بخشتے ہیں، چنانچہ
رسول سے محبت
(1)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! قیامت کب ہے؟ فرمایا: افسوس تجھ پر تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ وہ بولے: میں نے اس کی تیاری کوئی نہیں کی سوائے اس کے کہ میں اللہ پاک اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا: تو اس کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبّت ہو، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد کسی چیز پر ایسا خوش ہوتے نہ دیکھا جیسا کہ وہ اس سے خوش ہوئے۔ ([1])
یہ صاحب بڑے متقی پرہیزگار عبادت گزار تھے مگر انہوں نے اپنے اعمال کو قِیامت کی تیاری قرار نہ دیا کہ یہ سب نیکیاں تو اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ہے جو مجھے دنیا میں مل چکیں اور مل رہی ہیں آخِرت کی تیاری صرف یہ ہے کہ مجھے اس برات کے دولہا سے محبت ہے ۔([2])
حضرت علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی شرح میں فرماتے ہیں: کیونکہ یہ سب محبت ہی کی شاخیں ہیں جو اسی پر مرتب ہوتی ہیں اور اس لیے کہ محبت ہی (راہِ حق کے) مسافروں کی سب سے اعلیٰ منزل اور (بلندیوں کی طرف) پرواز کرنے والوں کا سب سے بلند ترین مقام ہے اور یہی محبّت اللہ پاک کی محبت کا باعث یا اسی کا نتیجہ ہے۔ ([3])
آخِرت میں قرب رسول
(2)حضرت عبدُ اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو (نیک) لوگوں سے محبّت کرتا ہے لیکن (اعمال میں) ان کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکا؟ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ یعنی آدمی (قِیامت کے دن) اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبّت کرتا ہے۔([4])
امام بُخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں بیان کردہ حدیث کے اس حصّے: ’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبّت کرتا ہے“ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ محبّت کے اس دعوے کا معیار جو (آخرت میں) قُرب و نزدیکی کا باعث بنتا ہے، وہ پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِتّباع(یعنی پیروی) ہی ہے۔([5])
بغیر دیکھے محبت کرنے والے
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری اُمّت میں مجھ سے شدید محبّت رکھنے والوں میں سے وہ لوگ ہوں گے جو ہمارے بعد پیدا ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک اس بات کی تمنّا کرے گا کہ وہ اپنے گھر بار اور مال کے بدلےمیری زیارت کرتا۔([6])
یعنی اپنے اہل و عیال اور مال و اسباب کو قربان کرتا اور ہمارے جَمال جہاں آرا کی زیارت کرتا، بیداری(یعنی جاگتے) میں یا خواب میں۔([7])ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت تبھی ممکن ہے جب دل میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبّت ہوگی اور یہی وہ محبت ہے جو آخِرت میں قربِ رسول پانے کا سبب ہوگی، ان شآء اللہ ۔
سب لوگوں سے پیارا
(4)نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اُسے ماں باپ اولاد اور سب لوگوں سے پیارا ہوجاؤں۔([8])
اے عاشقانِ رسول! ماں باپ کو اولاد سے اور اولادکو ماں باپ سے طبعی اُلفت و محبّت ہوتی ہے، یہی محبّت حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ ہونی چاہئے اور الحمد للہِ الکریم ہر مؤمن کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جان و مال اور اولاد سے زیادہ پیارے ہیں۔
ایمانِ کامل کی نشانی
(5)ایک بار مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: آپ سوائے میری جان کے میرے نزدیک ہر شے سے زیادہ محبوب ہیں ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ہرگز مومن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اس ذات کی قسم! جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی، بیشک آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَلْاٰنَ یَاعُمَر یعنی اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہوگیا۔([9])
(6)ایک روایت میں ہے: جس میں تین چیزیں ہو ں گی وہ ایمان کی حلاوت پائے گا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول کے ساتھ ان کے ما سِوا سے بڑھ کر محبت ہو۔([10])
اللہ کریم ہمیں سب سے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دل و جان کے ساتھ محبّت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ اصلاحی کتب، المدینۃ العلمیہ، کراچی
Comments