(1)بیع استصناع میں پہلے سے تیار شدہ مال بیچنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم سرجیکل آئٹم آرڈر پربناتے ہیں۔بعض اوقات ہمارے پاس پہلے سے ہی کچھ آئٹم تیارموجود ہوتے ہیں تو آرڈر آنے کے بعد نئے سرے سے مینوفیکچرنگ کرنے کی بجائے اپنے پاس پہلے سے موجود آئٹم جو کہ کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق ہوتے ہیں، اٹھاکر دے دیتے ہیں، کیا ہمارا ایسا کرنا درست ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کا آرڈر آنے کے بعد پہلے سے تیار شدہ سامان کسٹمر کو دینا، جائز ہے جبکہ وہ سامان کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق ہو۔
مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ آپ کا مذکورہ طریقے پر آرڈر پر سامان تیار کرکے بیچنا ”بیع استصناع“ یعنی آرڈر کی بیع کہلاتا ہے اوربیع استصناع میں مستصنع (آرڈر لینے والے) کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ آرڈر آنے کے بعد سامان تیار کرے یا پہلے سے تیار شدہ سامان جو کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق ہو، وہ دے دے، لہٰذا آپ کے لئے ایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔
بہارِ شریعت میں ہے:”استصناع میں جس چیز پر عقد ہے وہ چیز ہے،کاریگر کاعمل معقود علیہ نہیں، لہٰذا اگر دوسرے کی بنائی ہوئی چیز لایا یا عقد سے پہلے بنا چکا تھا وہ لایا اور اس نے لے لی درست ہے اور عمل معقود علیہ ہوتا تو درست نہ ہوتا۔“ (بہار شریعت، 2/808)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)ایڈوانس اجرت کی صورت میں ڈسکاؤنٹ دینے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک فیکٹری والے سے لیس ڈائی کرواتاہوں،ہر 14 گزلیس ڈائی یعنی کلر کرنے کے 700 روپے لیتا ہےوہ مجھے یہ آفر دے رہا ہے کہ اگر آپ مجھے ڈائی کےایڈوانس پیسے دیں تو میں آپ کو 600 روپےمیں 14 گز لیس ڈائی کردوں گا۔کیا میں اسے ایڈوانس پیسے دے کر700 کی جگہ 600 روپے کے حساب سے اجرت دے سکتا ہوں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں فیکٹری والے کےڈائی کی ایڈوانس اجرت کے مطالبہ پر آپ کا ایڈوانس اجرت دینا اور اس میں کمی کرواناجائز ہے۔
تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہےکہ آپ کا فیکٹری والے سے لیس ڈائی کروانا،عقدِ اجارہ ہےاور عقدِاجارہ میں چندچیزوں سے اجرت کا استحقاق ہوتا ہےان میں سے ایک پیشگی (Advance) اجرت لینے کی شرط ہے۔لہٰذا پوچھی گئی صورت میں فیکٹری والے کو ڈائی کی ایڈوانس اجرت دیتے ہوئے اجرت میں کمی کروانا شرعی اعتبار سے جائز ہے اور یہ ایڈوانس دی جانے والی مکمل رقم اجرت ہے کسی قسم کا قرض نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اجرت میں کمی کروانے کو ناجائز کہا جائے۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں:”اجارہ میں اجرت محض عقد سے مِلک میں داخل نہیں ہوتی یعنی عقد کرتے ہی اُجرت کامطالبہ درست نہیں یعنی فوراً اُجرت دینا واجب نہیں اُجرت ملک میں آنے کی چند صورتیں ہیں: (1) اُس نے پہلے ہی سے عقد کرتے ہی اُجرت دیدی دوسرا اس کا مالک ہوگیا یعنی واپس لینے کا اُس کو حق نہیں ہے، (2)یاپیشگی لینا شرط کرلیا ہواب اُجرت کا مطالبہ پہلے ہی سے درست ہے،(3) یامنفعت کو حاصل کرلیامثلاً مکان تھااُس میں مدتِ مقرر ہ تک رہ لیا یا کپڑا درزی کو سینے کے لیے دیا تھا اُس نے سی دیا، (4)وہ چیزمستاجر کو سپرد کردی کہ اگر وہ منفعت حاصل کرنا چاہے کرسکتا ہے نہ کرے یہ اُس کا فعل ہے مثلاً مکان پر قبضہ دے دیا یا اجیرنے اپنے نفس کو تسلیم کردیا کہ میں حاضر ہوں کام کے لیے تیار ہوں کام نہ لیا جائے جب بھی اُجرت کامستحق ہے۔(بہار شریعت،3/110)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)غیر مسلم حکومت سے الاؤنس لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں کچھ عرصہ قبل پاکستان سے بیلجیم کے شہر برسلز رہنے گیا اور وہاں تقریباً ڈیڑھ سال میں نے ایک کمپنی میں ملازمت کی، اب میری وہ ملازمت چھوٹ گئی ہے اورمیں بے روزگار ہوں،سوال میرا یہ ہے کہ یہاں کی گورنمنٹ جو کہ غیرمسلموں کی ہے وہ بے روزگاروں کو اپنی طرف سے الاؤنس دیتی ہے تو میرا گورنمنٹ سے وہ الاؤنس لینا کیسا ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ گورنمنٹ کی پالیسی اور شرائط پر پورا اتر رہے ہیں اور کوئی دھوکا نہیں دے رہے تو آپ کا اس گورنمنٹ سے بے روزگاروں کو ملنے والا الاؤنس لینا جائز ہے کیونکہ گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والا الاؤنس آپ کے حق میں ہبہ ہے اور کافر سے ایسا ہبہ قبول کرنا جس سے مسلمان کے دین پر اعتراض نہ ہوجائز ہے اسی طرح کافر کا مال بغیر دھوکا دیے اس کی رضامندی سے لینا جائز ہے۔
کافر کا مال دھوکا دیے بغیر لینا جائز ہے۔ چنانچہ فتح القدیر میں ہے: ”وانما يحرم على المسلم اذا كان بطريق الغدر (فاذا لم يأخذ غدرا فبأی طريق يأخذه حل) بعد كونه برضا “ ترجمہ: مسلمان پر کافر کا مال صرف اسی صورت میں حرام ہے جب دھوکے کے طورپرہو، پس جب دھوکے سے نہ لے توجس طریقے سے بھی لے گاحلال ہوگا، جبکہ اس کی رضامندی سے لیا ہو۔(فتح القدیر،7/39)
فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’غیر ذمی سے بھی خرید وفروخت، اجارہ واستیجار، ہبہ و استیہاب بشروطہا جائز۔۔اس کا ہدیہ قبول کرنا جس سے دین پر اعتراض نہ ہو۔۔۔حلال ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، 14/421 ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments