خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا؟

احکامِ تجارت

*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء

(1)مضاربت میں وقت معین کرنا کیسا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک انویسٹر سے 4 لاکھ روپے تین سال کے لئے لے کر مضاربت کے شرعی اصولوں کے مطابق کام کر نا چاہتا ہوں؟ کیا مضاربت میں وقت متعین کیا جا سکتا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کا مضاربت کے طور پر 4 لاکھ روپے لیتے وقت باہمی رضامندی سےتین سال کا وقت مقرر کرنا،اور مضاربت کے قوانین کا لحاظ کرتے ہوئے کام کرنا شرعاً جائز ہے۔جب وقت پورا ہوگا تو یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا۔

ہدایہ،تبيين الحقائق، اور دررُ الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے: واللفظ للاول:ان وقت للمضاربة وقتا بعينه، يبطل العقد بمضيه؛ لأنه توكيل فيتوقت بما وقته، والتوقيت مفيد، فإنه تقييد بالزمان فصار كالتقييد بالنوع والمكان یعنی: اگر رب المال نے مضاربت کے لیے خاص وقت مقرر کیا ہو تو، اس وقت کے گزر جانے سے معاہدہ ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک وکالت ہے اور وکالت اپنے مقررہ وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہ وقت کا تعین مفید ہے کیونکہ یہ زمانے کی ایک حد بندی ہے لہٰذا یہ مخصوص مال، اور مخصوص مقام معین کرنے کی طرح درست ہوگا۔

(ہدايہ،3/265)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(2)خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض دکانوں پر یہ جملہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’خریدا ہوا سامان واپس Return یا تبدیل Exchange نہیں ہوگا‘‘، سوال یہ پوچھنا ہے کہ اگر ایسی دکان سے سامان خریدا اور سامان عیب دار یا خراب نکلا تو کیا کسٹمر کو وہ سامان واپس کرنے کا اختیار ہوگا یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: شریعتِ مطہرہ نے دکاندار کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ جس چیز کو وہ بیچ چکا اسے بلاوجہ واپس نہ لے لہٰذا دکاندار کے لئے یہ جملہ لکھنا کہ’’خریدا ہوا سامان واپسReturn یا تبدیلExchange نہیں ہوگا‘‘ایک اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے خریداری کا اصل مقصد ہی انتقالِ ملکیت ہے خریداری کے بعد بیچا گیا مال گاہک کا اوربدلے میں ملی ہوئی رقم دکاندار کی ہو جاتی ہے اور سودا مکمل ہو جاتا ہے جو محض ایک فریق کی خواہش پر کینسل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اگر بیچی جانے والی چیز عیب دار ہو اور دکاندار اس چیز کا عیب ظاہر کیے بغیر ہی بیچ دے تو شریعتِ مطہرہ نے خریدار کو عیب کی وجہ سے سامان واپس کرنے کا اختیار دیا ہے، اسے ’’خیارِ عیب‘‘ کہتے ہیں، ایسی صورت میں مذکورہ جملہ لکھ کر لگادینا کفایت نہیں کرے گا بلکہ کسٹمر کے مطالبے پر اسے لازمی طور پر سامان واپس کرنا ہوگا۔ ہاں اگر دکاندار نے کسی خاص چیز کے متعلق پہلے ہی ہر عیب سے براء ت ظاہر کردی تو اب وہ چیز عیب دار ہونے کے باوجود واپس لینا اس پر لازم نہیں۔ اس کے علاوہ بھی بعض ایسی صورتیں شریعت کی تعلیمات میں ہیں جن میں سامان واپس لینا ضروری ہوتا ہے۔

بہار شریعت میں ہے:”مبیع میں عیب ہوتو اُس کا ظاہر کردینا بائع پر واجب ہے چھپانا حرام و گناہ کبیرہ ہے۔۔۔ اگر بغیر عیب ظاہر کیے چیز بیع کردی تو معلوم ہونے کے بعدواپس کرسکتے ہیں اس کو خیار عیب کہتے ہیں خیار عیب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وقت عقد یہ کہہ دے کہ عیب ہوگاتو پھیر دینگے کہا ہو یا نہ کہاہو، بہر حال عیب معلوم ہونے پر مشتری کو واپس کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

(بہار شریعت،2/673)

اسی میں ہے: ’’خیار عیب کے لیے یہ شرط ہے کہ بائع نے عیب سے براء ت نہ کی ہو، اگر اس نے کہہ دیاکہ میں اس کے کسی عیب کا ذمہ دار نہیں خیار ثابت نہیں۔“(بہار شریعت،2/674)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(3)دوسرے کا قرض ادا کردیا تو اس سے لے سکتے ہیں یا نہیں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرےچھوٹے بھائی پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے قرض تھا جس کی وجہ سے اسے کافی آزمائش کا سامنا تھااس کےپاس قرض ادا کرنے کے لیےپیسے نہیں تھے تو میں نے وہ قرض ادا کر دیا تھا۔اس وقت ہم سب ساتھ رہتے تھےاور پیسے واپس لینےکا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اب مجھےپیسوں کی حاجت ہےتو کیا میں اپنے چھوٹے بھائی سے ان پیسوں کا تقاضا کر سکتا ہوں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب: پوچھی گئی صورت میں یہ پیسے اگر آپ نے خود سے دیے تھےچھوٹے بھائی نے آپ کو دینے کا نہ کہا تھا تو یہ پیسے آپ کی جانب سے تبرع واحسان ہوئے جن کا اب آپ اپنے چھوٹے بھائی سے مطالبہ نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر چھوٹےبھائی کے کہنے سے دئیے تھے مثلاً چھوٹے بھائی نے آپ سے کہاتھا کہ میری جانب سے قرض ادا کردیجیے یا آپ نے خود کہا تھا کہ میں یہ پیسے تیری طرف سے بطور قرض دے رہا ہوں اور چھوٹے بھائی نے اسے قبول کر لیاتھا تو یہ پیسے چھوٹے بھائی پر قرض ہیں اور آپ اس کامطالبہ کرسکتے ہیں۔

العقود الدریہ میں ہے:”المتبرع لا يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمر“یعنی:متبرع کسی پر رجوع نہیں کرے گاجیسا کہ کسی نے دوسرے کا قرض اس کےحکم کے بغیر ادا کردیا۔

(العقود الدریہ فی تنقیح الحامدیہ،1/288)

منحۃ الخالق میں ہے:”من قضى دين غيره بأمره لم يكن متبرعا فله الرجوع على الآمر، وإن لم يشترط الرجوع في الصحيح “ یعنی: جس نے کسی اور کا دَین اس کی اجازت سے ادا کیا تو وہ تبرع کرنے والا نہیں ہوگا اسے حکم دینے والے پر رجوع کرنے کا حق ہے اگرچہ رجوع کرنے کی شرط نہ لگائی ہو صحیح قول کے مطابق۔

(منحۃ الخالق مع بحرالرائق،2/424)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:”قرض سید محمد احسن صاحب نے خاص اپنے مال سے خواہ کسی سے قرض لے کر ادا کیا تو یہ ایک قرض ہے کہ ایک بھائی پر آتا تھا دوسرے نے بطور خود ادا کردیا بھائی کے ساتھ حسن سلوک ہوا اور نیک سلوک پر ثواب کی امید ہے مگر معاوضہ ملنے کا استحقاق نہیں کہ کوئی شخص نیک سلوک واحسان کرکے عوض جبراً نہیں مانگ سکتا و لہٰذا کتابوں میں تصریح ہے کہ جو شخص دوسرے کا قرضہ بے اس کے امر کے ادا کردے وہ اس سے واپس نہ پائے گا۔“

(فتاوی رضویہ،18/274)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی


Share