سائنس اور اسلام

سائنس اور اسلام

ہمارا ایمان ہے کہ   اللہ  تعالیٰ کی ذات خالقِ کائنات ہے، وہی مُسْتَعانِ حقیقی ہے، وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے اور وہی قادرِ مطلق ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۰۹) ([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 وہی فَیّاضِ مُطلق ہے۔ کائنات پر جو فیض ہوتا ہے   اللہ  تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ فیض کا مبداء اور منتہی   اللہ  تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی نہیں۔ اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں۔فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَایَخْلُوْ عَنِ الْحِکْمَۃِ ([2])

 البتہ اس ذات نے اپنے فیض و تصرّفات کو نافِذ فرمانے کیلئے کچھ وَسائل و ذرائع پیدا فرمائے ہیں۔ اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ خدا عاجِز ہے (مَعاذَ  اللہ ) بلکہ ہم فیض لینے میں بغیر وسیلہ کے عاجز ہیں۔ جیسے زمین پر پانی نہ آئے تو اناج نہ ہوگا۔ حالانکہ غَلّہ اُگانا   اللہ  تعالیٰ کاکام ہے مگر اس پر پانی، بیج اور زمین کی تیاری کو سبب بنا دیا۔ کیا   اللہ  تعالیٰ ان اسباب کا محتاج ہے؟ ہرگز نہیں۔   اللہ  تعالیٰ احتیاج سے پاک ہے مگر حکمت کو پورا کرنے کیلئے پانی کو غلّہ اگانے کا سبب بنادیا اسی طرح مارنے والا وہی ہے مگر   اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے:

تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ

ترجمہ: ملائکہ مارتے ہیں۔([3])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 کیا   اللہ  تعالیٰ روح نکالنے میں محتاج ہے؟ (مَعاذَ  اللہ ) بلکہ حکیم ہوکر حکمت کو پورا کرتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم حکمت کو جان لیں۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں۔

 لہٰذا خدا پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز سمجھ میں نہ آئے اسے   اللہ  تعالیٰ کی طرف سپرد کردے یہ مطلب نہیں کہ جو سمجھ آئے اسے مان لیں اور جو بات سمجھ میں نہ آئے اسے چھوڑ دیں تو یہ نفس کی خواہش اور پیروی ہوگی اور

اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّۚ- ([4])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

میں داخل ہوگی۔ لہٰذا جو بات سمجھ آئے یا نہ آئے اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ خدا اوررسول  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بات حکمت سے خالی نہ ہوگی۔

اگر حواس غلط ہوجائیں تو انسان غلطی کھا جائے گا مثلاً بھینگے کو ایک کی بجائے دو نظر آتے ہیں۔ اب مالک نے اس کو کہا کہ فلاں کمرہ میں میز کے اوپر ایک شیشہ رکھا ہے لے آ، جب وہ کمرہ میں گیا تو اسے دو شیشے نظر آئے پھروہ تہی دست مالک کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کون سا شیشہ لاؤں تو مالک نے کہا کہ شیشہ تو ایک رکھا ہے مگر غلام نہ مانا تو مالک نے کہا کہ ایک شیشہ کو توڑ دو اور دوسرا شیشہ میرے پاس لاؤ تو چنانچہ وہ گیا اور شیشے کو توڑ دیا تو دوسرا شیشہ غائب کیونکہ دراصل شیشہ تو وہی ایک تھا۔

مگر اس کے حواس غلط تھے۔ اس لئے غلطی کا مرتکب ہوگیا اسی طرح دیکھنے والا تو کہتا ہے کہ میں سچا ہوں مگر رکھنے والا جانتا ہے کہ ایک ہے یا دو۔ وہی  اللہ  ہر حکمت کو جانتاہے اور اس کے بتانے سے اس کے بندے بھی جانتے ہیں۔

 آج دنیا میں یہ شور مچا ہوا ہے کہ سائنس مذہب پر چھا گئی ہے مگر میں یہ کہوں گا کہ سائنس حواس کی دنیا ہے اور مذہب حواس سے بالاتر ہے۔ مثلاً کوئی شخص فوت ہوگیا تو اس کو کسی نے جلا دیا، کسی نے کھڑا کردیا، کسی نے قبر میں دفن کرکے لٹا دیا، یہ سب تمہارے حواس کی دنیا تھی۔ اب بتاؤ کہ مُردے کو جلایا، کھڑا کیا یا لٹایا۔ اب اس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ یہ مذہب کی دنیا ہے جہاں حواس ختم ہوگئے۔ وہاں مذہب کی ابتدا ہے۔

تو آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: اَلْقَبْرُ روْضَۃٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْحُفْرَۃِ مِّنْ حُفَر ِالنَّار یعنی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا دوزخ کی خندقوں میں سے ایک خندق ہے۔([5])

مطلب یہ ہوا کہ اگر خاتمہ ایمان پر ہوا تو جنّت میں ہے ورنہ جہنّم میں اگرچہ قبر کو بہترین بنایاگیا ہو۔ زیب و زینت کی گئی ہو، پھول برسائے گئے ہوں مگر وہ دوزخ میں ہے۔سائنس کی سمت اور ہے اسلام کی اور۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک شخص مشرق کی جانب جارہا ہے تو دوسرا شخص مغرب کی جانب۔ جِہَت مخالف سے ملاپ نہیں ہوسکتا۔

اسی طرح اسلام کا عُروج بلندی کی طرف ہے اور سائنس کا نزول پستی کی طرف ہے لہٰذا ان کا ملاپ نہیں ہوسکتا۔ اور نہ سائنس اسلام کا مقابلہ کرسکتی ہے۔اور اسی طرح اگر ہمارے حالات خراب ہوجائیں تو حواس بھی خراب ہوجاتے ہیں۔ اگر آج کسی تندرست آدمی کو میٹھی چیز کھلائیں تو وہ مٹھا س محسوس کرے گا اور اگر وہ میٹھی چیز کسی صَفراوی مریض کو دیں تو وہ کڑواہٹ محسوس کرے گا کیونکہ اب اس کے حواس غلط ہوگئے ہیں۔ میٹھی چیز کا قصور نہیں ہے۔ اسی طرح جب عَقْل غَلَط ہوگئی تو ادراک میں ضرور غلطی پیدا ہو جائے گی۔

 کسی کے نظریات کے اندر اختلاف کا ہونا دلیل ہے کہ اس کی عقل میں بھی اختلاف ہے جیسے میری آواز کا آپ تک نہ پہنچنا۔ لاؤڈ سپیکر کے خرابی کی دلیل ہے کیونکہ اگر لاؤڈ سپیکر میں نقص نہ ہوتا تو آواز کی رسائی میں نقص نہ آتا۔ اگر صداقت چاہتے ہوتو زبانِ رسالت کی بات مانو خدا کی قسم آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  وہ سنتے ہیں جو ہم نہیں سن سکتے اس لئے فرمایا: اِنِّیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَالَا تَسْمَعُوْنَ ترجمہ: جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے اور جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے۔

اے عقل کے پیچھے دوڑنے والو! تم سوچتے ہوکہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ایمان سے کہتا ہوں کہ ہم نے ہلاکت اور موت کی طرف قدم اٹھایا ہوا ہے۔ خدا ہمیں اس ترقّی سے بچائے جس نے عین ہلاکت کے کَنارہ پر کھڑا کردیا ہے اسلام ہمیں حیات دیتا ہے اب اگر ہمارا رُخ آقا کی طرف ہوگیا تو کامیابی ہے ورنہ خرابی ہے۔   اللہ  تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-

ترجمہ: اور رسول جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں رک جاؤ۔([6])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اب جو کچھ ملے گا بارگاہِ رسالت  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے ملے گا۔

اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ

ترجمہ: اطاعت کرو   اللہ  تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔([7])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ہمیں کیا پتہ خدا کیسے راضی ہوتا ہے اور خدا کے راضی کرنے کا کیا ذریعہ ہے لہٰذا فرمایا: میرے حبیب  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خوش کرلو میں خوش ہوجاؤں گا۔ آپ ہزار بار عبادتیں کرلیں محبوب ناراض تو   اللہ  تعالیٰ ناراض ہوگا۔

خدا نے ہمارا رخ آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی طرف کردیا ہے اور ہم آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے محتاج ہیں ایسے ہی جیسے زمین میں غلہ اگانے کیلئے پانی وسیلہ ہے، سننے کیلئے کان وسیلہ ہیں، دیکھنے کیلئے آنکھیں وسیلہ ہیں اور سوچنے کیلئے دماغ وسیلہ ہے۔ ایسے ہی میں نے اپنی ساری رحمتوں کا وسیلہ اپنے محبوبِ اعظم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بنایا ہے۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ([8])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فرمایا رحیم بالذّات میں ہوں لہٰذا فرمایا: اے محبوب! تم مجھ سے لو اور یہ تم سے لیں۔”وَاللّٰہُ یُعْطِیْ وَاَنَا قَاسِمٌ“کے یہی معنیٰ ہیں۔میں خدا وسیلے کا محتاج نہیں ہوں مگر جن کیلئے میں نے تمہیں وسیلہ بنایا ہے وہ وسیلہ کے محتاج ہیں۔

 راحم اسمِ فاعل کا صیغہ ہے اور آقا  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سارے جہان کیلئے راحم ہیں اور یہ حقانیتِ اسلام کی تلوار ہے اور یہ کلامِ الٰہی کا اعجاز ہے۔ جس نے تمام قوموں کو اسلام لانے پر مجبور کردیا اور جو لوگ سرکارِ دو عالَم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان کا نظریہ آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ صحیح نہیں ہوسکتا اور جن کا نظریہ خدا کے رسول کے ساتھ صحیح نہیں ہوسکتا تو   اللہ  تعالیٰ کے ساتھ ان کا نظریہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟



([1])ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(پ1،البقرۃ:109)

([2])یعنی حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

([3])پ14، النحل:28

([4])ترجَمۂ کنز الایمان: وہ تو نِرے گمان کے پیچھے ہیں۔ (پ27،النجم:28)

([5])شرح الصدور،ص67

([6])پ28، الحشر:7

([7])پ5، النسآء:59

([8])ترجمہ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے (پ17، الانبیآء:107)


Share