انسان کی خوش بختی اور بد بختی

انسان کی خوش بختی اور بدبختی

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللَّهِ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ ترجمہ: انسان كی سعادت(خوش بختی) میں سے ہے کہ  اللہ  نے اس کے لیے جو فیصلہ کیا ہے وہ اس پر راضی ہوجائے اور انسان کی شقاوت (بدبختی) میں سے ہے کہ وہ  اللہ  پاک سے استخارہ (خیر مانگنا) چھوڑ دے اور اپنے بارے میں  اللہ  پاک کے فیصلے پر ناراض ہو۔([1])

اس حدیثِ رسول میں سعادت وشقاوت کا معیار بیان کیا گیا ہے۔سعید و خوش بخت ہے وہ شخص جو  اللہ  کے فیصلے پر اپنے سر کو جھکا لے،دل میں شکوہ وشکایت کو جگہ نہ دے اور شقی وبدبخت وہ ہے جو  اللہ  کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے ناراض ہوکر شکوہ شکایت پر اتر آئے۔اسی طرح  اللہ پاک سے استخارہ (یعنی بھلائی طلب) نہ کرنے والا بھی شقاوت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ خیال رہے کہ مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے تدبیریں کرنا برا نہیں لیکن تدبیر کرنے کے بعد بھی اس کا نتیجہ  اللہ  کریم کے حوالے کردینا چاہیے کہ وہ جو چاہے اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے۔

سعادت وشقاوت کا پتا کیسے چلتا ہے؟

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ  اللہ  علیہ  لکھتے ہیں: سعادت، شقاوت ایک غیبی چیز ہے مگر ان دونوں کی علامات ہیں۔ جو بندہ  اللہ  پاک کی رضا پر راضی، اس کی قضا پر سر جھکائے رہے سمجھ لو کہ  اِن شآءَ  اللہ   یہ سعید (خوش نصیب) ہے، اس کا خاتمہ اچھا ہونے والا ہے، اس کے برعکس ہو تو علامت بدبختی کی ہے۔([2])

سعادت کی علامت قرار دینے کا سبب:

 اللہ  پاک کے فیصلے پر راضی رہنے کو بندے کی سعادت کی علامت اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ (1)وہ عبادت کے لیے یکسو ہو جائےکیونکہ اگر بندہ قضا پر راضی نہ ہو تو ہمیشہ غم زدہ اور دل میں فکرمند رہتا ہے، اور یہ سوچتا رہتا ہے: ایسا کیوں ہوا؟ ویسا کیوں نہ ہوا؟ (2)وہ  اللہ  تعالیٰ کے غضب کا نشانہ نہ بنے؛ کیونکہ بندے کی ناراضی یہ ہے کہ وہ  اللہ  کے فیصلے کے سوا کسی اور بات کا ذکر کرے اور کہے: یہی بات زیادہ بہتر اور موزوں تھی، حالانکہ اس بات کے نفع یا نقصان کا یقین بھی نہیں ہوتا۔([3])

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: وَاِنَّ اللَّهَ اِذَا اَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ ترجمہ:  اللہ  پاک جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کیلئے رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضی ہے۔([4])

اگر ہم غور کریں تو انسان کے پاس رضا بالقضاء (تقدیر پر راضی ہونے) کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے؟ اس لیے کہ ہمارے ناراض ہونے سے وہ فیصلہ بدل نہیں سکتا جو ہمارے بارے میں ہوچکا تھا، ناراضی سے غم دور نہیں ہو سکتا بلکہ اس ناراضی سے غم کی شدت اور تکلیف میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور انسان کے دل میں آئے گا’’ہم نے یہ کیوں نہ کر لیا، فلاں تدبیرکیوں نہ اختیار کر لی“۔رضا بالقضاء میں درحقیقت انسان کی تسلی کا سامان ہے۔

کاش اور اگر سے بچیں:

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:طاقتور مومن، کمزور مومن کی نسبت  اللہ  کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے، اگرچہ بھلائی دونوں میں ہے۔تم اس چیز میں رغبت کرو جو تمہیں فائدہ دے، اور  اللہ  سے مدد مانگو، کمزور مت بنو۔ اگر کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں یوں کرتا تو ایسا ہو جاتا۔بلکہ یوں کہو: یہ  اللہ  کی تقدیر ہے، وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔کیونکہ ”اگر“ کا لفظ شیطان کے لیے دروازہ کھول دیتا ہے۔([5])

 حضرت عبد اللہ  بن مسعود  رضی  اللہ  عنہ نے ارشاد فرمایا: میں کسی انگارے کو زبان سے چاٹوں اور وہ جلادے جو جلادے اور باقی رہنے دے جو باقی رہنے دے، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ جوکام ہوچکا اس کے بارے میں کہوں: کاش نہ ہوتا یا نہ ہونے والے کام کے بارے میں کہوں: کاش ہوجاتا۔([6])

بہرحال ہمیں  اللہ  پاک کی رضا پر راضی رہنا چاہیے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں؟مگر وہ علیم وخبیر جانتا ہے،دوسرے پارے میں ارشاد ہوتا ہے:

(وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠(۲۱۶))

ترجَمۂ کنز الایمان: اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور  اللہ  جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔([7])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

کئی سال پہلے ایک فیملی میں کسی کو ہارٹ اٹیک آیا، ڈاکٹروں نے بائی پاس آپریشن تجویز کیا لیکن فیملی رقم کا انتظام نہ کرسکی اور کچھ ہی عرصے میں مریض دنیا سے چل بسا۔ ان کی بیوہ کی زبان سے نکلا کہ کاش ان کا آپریشن ہوجاتا اور یہ بچ جاتے۔ اس کے چند مہینوں بعد دوسرے بھائی کو بھی دل کا اٹیک آیا، ڈاکٹروں نے ان کے لیے بھی بائی پاس تجویز کیا، پہلے بھائی کے معاملے کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی طرح رقم جمع کی گئی اور ان کا آپریشن کروایا گیا لیکن آپریشن کامیاب نہ ہوسکا اور وہ بھی انتقال کر گئے، ان کی بیوہ یہ کہتی پائی گئی کہ کاش میں ان کا آپریشن نہ کرواتی شاید یہ بچ جاتے۔ اللہ  پاک دونوں بھائیوں کی مغفرت فرمائے،بہرحال ہوتا وہی ہے جو  اللہ  کا فیصلہ ہوتا ہے اور انسان سوچتا رہ جاتا ہے۔

پیکر ِ تسلیم ورضا:

ہماری تو حیثیت ہی کیا ہے!بات بات پر ٹینشن،بے چینی اور بے قراری کا شکار ہوکر پریشان ہوجاتے ہیں۔ کائنات کی سب سے عظیم ہستی حبیبِ خدا محمد مصطفےٰ صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی کو دیکھا جائے تو کیسے کیسے کٹھن اور مشکل ترین حالات میں تسلیم و رضا کے پیکر بن کر ہمیں اپنی پیروی کی دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیدائش سے پہلے والدِ محترم اور بچپن میں پیاری ماں کی دنیا سے رخصتی، مشرکینِ مکہ سے سازشوں میں رکاوٹ بننے والے چچا اور ہمدرد و غم گسار زوجہ کی جدائی،دعوتِ اسلام دیتے وقت قریبی رشتہ دار کا آوازیں کسنا، بغض وکینہ سے بھری ہوئی عورت کا راہوں میں کانٹے بچھانا،کفارِ مکہ کی نازیباحرکتیں، داخل اسلام ہونے والے سعادت مندوں پر جسمانی تشدد ہونا، سفر طائف میں اوباشوں کا سنگ باری کرکے آپ کو زخمی کرنا،شعب ابی طالب میں محصور رہنا،آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو شہید کرنے کی سازشیں ہونا،بیٹیوں کے معاملات میں ستایا جانا، پیارے آبائی شہر مکہ پاک کو چھوڑ کر ہجرت کرنا،لشکرِکفار کا وہاں بھی پیچھا کرکے شجرِ اسلام کی آبیاری کو روکنے کی مذموم کوششیں کرنا، منافقوں کی مکارانہ چالیں، دودھ پیتے بیٹے حضرت ابراہیم  رضی  اللہ  عنہ کا چھوٹی سی عمر میں وصال ہوجانا اور ایسے بہت سے مشکل حالات کا سامنا رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قضائے الٰہی پر راضی رہ کر کیا۔ اللہ  پاک ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔  اٰمین

استخارہ:اس حدیث پاک میں استخارہ کا بھی ذکر ہوا یعنی ابنِ آدم کی سعادت (خوش بختی) میں سے یہ بھی ہے کہ وہ  اللہ  سے استخارہ کرے، پھر  اللہ  کے فیصلے پر دل سے راضی ہو جائے۔ جب بندہ  اللہ  سے استخارہ کرتا ہے، تو جو فیصلہ ہوتا ہے، اس پر راضی ہو جاتا ہے اور دل سے موافقت اختیار کرتا ہےاور جو استخارہ ترک کر دیتا ہے، جب اس پر  اللہ  کی تقدیر واقع ہوتی ہے اور وہ اس پر ناراض ہوتا ہے، تو وہ بدبختی میں پڑ جاتا ہے۔([8]) بعض اہلِ علم نے یہ بھی کہا کہ کامل تسلیم و رضا، استخارہ سے بھی بہتر ہے، کیونکہ استخارہ میں بندے کی طرف سے ایک قسم کی طلب، ارادہ اور فیصلہ موجود ہوتا ہے۔ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات میں  اللہ  سے خیر طلب کرے، بلکہ اسے یقین ہو کہ وہ خود نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا؟([9])

استخارہ کی تعلیم دیا کرتے:حضرتِ سیِّدُنا جابر بن عبدا  رضی  اللہ  عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم نُورِ مُجَسَّم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہم کو تمام اُمور میں استخارہ تعلیم فرماتے جیسے قراٰن کی سُورت تعلیم فرماتے تھے۔ ([10])

مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان  رحمۃُ  اللہ  علیہ  اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:اِستخارہ کے معنی ہیں خیر مانگنا یا کسی سے بھلائی کا مشورہ کرنا،چونکہ اس دُعا و نماز میں بندہ  اللہ  عَزَّوَجَلَّ سے گویا مشورہ کرتا ہے کہ فلاں کام کروں یا نہ کروں اسی لیے اسے اِستخارہ کہتے ہیں۔([11])

استخارہ کے دو طریقے: استخارہ کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ انسان اہم دینی یا دنیوی معاملے میں لوگوں سے مشورہ کر لینے کے بعد، استخارہ کی دعا کرے، کم از کم یہ کہے:اے  اللہ ! میرے لیے خیر کا انتخاب فرما، اور مجھے میرے حال پر نہ چھوڑ۔

اور کامل طریقہ یہ ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نماز پڑھے، پھر حدیث میں وارد مشہور دعا مانگے،تفصیل کے لیے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’بدشگونی‘‘ صفحہ 44 تا 53 پڑھ لیجئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])ترمذی،4/60،حدیث:2158

([2])دیکھئے:مراٰۃ المناجیح،7/118

([3])مرقاۃ،9/166،تحت حدیث:5303

([4])ترمذی،4/178،حدیث:2404

([5])مسلم، ص1098،حدیث: 6774

([6])الزھد لابن المبارک، ص31،رقم:122

([7])پ2،البقرۃ:216

([8])التیسیرشرح جامع صغیر،2/382

([9])مرقاۃ المفاتیح، 9/166، تحت الحدیث:5303

([10])بخاری، 1/393،حدیث:1162

([11])مراٰۃ المناجیح، 2/301


Share

انسان کی خوش بختی اور بد بختی

انسان کی خوش بختی اور بدبختی

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللَّهِ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ ترجمہ: انسان كی سعادت(خوش بختی) میں سے ہے کہ  اللہ  نے اس کے لیے جو فیصلہ کیا ہے وہ اس پر راضی ہوجائے اور انسان کی شقاوت (بدبختی) میں سے ہے کہ وہ  اللہ  پاک سے استخارہ (خیر مانگنا) چھوڑ دے اور اپنے بارے میں  اللہ  پاک کے فیصلے پر ناراض ہو۔([1])

اس حدیثِ رسول میں سعادت وشقاوت کا معیار بیان کیا گیا ہے۔سعید و خوش بخت ہے وہ شخص جو  اللہ  کے فیصلے پر اپنے سر کو جھکا لے،دل میں شکوہ وشکایت کو جگہ نہ دے اور شقی وبدبخت وہ ہے جو  اللہ  کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے ناراض ہوکر شکوہ شکایت پر اتر آئے۔اسی طرح  اللہ پاک سے استخارہ (یعنی بھلائی طلب) نہ کرنے والا بھی شقاوت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ خیال رہے کہ مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے تدبیریں کرنا برا نہیں لیکن تدبیر کرنے کے بعد بھی اس کا نتیجہ  اللہ  کریم کے حوالے کردینا چاہیے کہ وہ جو چاہے اس کے بارے میں فیصلہ فرمائے۔

سعادت وشقاوت کا پتا کیسے چلتا ہے؟

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃُ  اللہ  علیہ  لکھتے ہیں: سعادت، شقاوت ایک غیبی چیز ہے مگر ان دونوں کی علامات ہیں۔ جو بندہ  اللہ  پاک کی رضا پر راضی، اس کی قضا پر سر جھکائے رہے سمجھ لو کہ  اِن شآءَ  اللہ   یہ سعید (خوش نصیب) ہے، اس کا خاتمہ اچھا ہونے والا ہے، اس کے برعکس ہو تو علامت بدبختی کی ہے۔([2])

سعادت کی علامت قرار دینے کا سبب:

 اللہ  پاک کے فیصلے پر راضی رہنے کو بندے کی سعادت کی علامت اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ (1)وہ عبادت کے لیے یکسو ہو جائےکیونکہ اگر بندہ قضا پر راضی نہ ہو تو ہمیشہ غم زدہ اور دل میں فکرمند رہتا ہے، اور یہ سوچتا رہتا ہے: ایسا کیوں ہوا؟ ویسا کیوں نہ ہوا؟ (2)وہ  اللہ  تعالیٰ کے غضب کا نشانہ نہ بنے؛ کیونکہ بندے کی ناراضی یہ ہے کہ وہ  اللہ  کے فیصلے کے سوا کسی اور بات کا ذکر کرے اور کہے: یہی بات زیادہ بہتر اور موزوں تھی، حالانکہ اس بات کے نفع یا نقصان کا یقین بھی نہیں ہوتا۔([3])

رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: وَاِنَّ اللَّهَ اِذَا اَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ ترجمہ:  اللہ  پاک جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کیلئے رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضی ہے۔([4])

اگر ہم غور کریں تو انسان کے پاس رضا بالقضاء (تقدیر پر راضی ہونے) کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے؟ اس لیے کہ ہمارے ناراض ہونے سے وہ فیصلہ بدل نہیں سکتا جو ہمارے بارے میں ہوچکا تھا، ناراضی سے غم دور نہیں ہو سکتا بلکہ اس ناراضی سے غم کی شدت اور تکلیف میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور انسان کے دل میں آئے گا’’ہم نے یہ کیوں نہ کر لیا، فلاں تدبیرکیوں نہ اختیار کر لی“۔رضا بالقضاء میں درحقیقت انسان کی تسلی کا سامان ہے۔

کاش اور اگر سے بچیں:

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا:طاقتور مومن، کمزور مومن کی نسبت  اللہ  کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے، اگرچہ بھلائی دونوں میں ہے۔تم اس چیز میں رغبت کرو جو تمہیں فائدہ دے، اور  اللہ  سے مدد مانگو، کمزور مت بنو۔ اگر کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو: کاش! میں یوں کرتا تو ایسا ہو جاتا۔بلکہ یوں کہو: یہ  اللہ  کی تقدیر ہے، وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔کیونکہ ”اگر“ کا لفظ شیطان کے لیے دروازہ کھول دیتا ہے۔([5])

 حضرت عبد اللہ  بن مسعود  رضی  اللہ  عنہ نے ارشاد فرمایا: میں کسی انگارے کو زبان سے چاٹوں اور وہ جلادے جو جلادے اور باقی رہنے دے جو باقی رہنے دے، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ جوکام ہوچکا اس کے بارے میں کہوں: کاش نہ ہوتا یا نہ ہونے والے کام کے بارے میں کہوں: کاش ہوجاتا۔([6])

بہرحال ہمیں  اللہ  پاک کی رضا پر راضی رہنا چاہیے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں؟مگر وہ علیم وخبیر جانتا ہے،دوسرے پارے میں ارشاد ہوتا ہے:

(وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠(۲۱۶))

ترجَمۂ کنز الایمان: اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور  اللہ  جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔([7])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

کئی سال پہلے ایک فیملی میں کسی کو ہارٹ اٹیک آیا، ڈاکٹروں نے بائی پاس آپریشن تجویز کیا لیکن فیملی رقم کا انتظام نہ کرسکی اور کچھ ہی عرصے میں مریض دنیا سے چل بسا۔ ان کی بیوہ کی زبان سے نکلا کہ کاش ان کا آپریشن ہوجاتا اور یہ بچ جاتے۔ اس کے چند مہینوں بعد دوسرے بھائی کو بھی دل کا اٹیک آیا، ڈاکٹروں نے ان کے لیے بھی بائی پاس تجویز کیا، پہلے بھائی کے معاملے کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی طرح رقم جمع کی گئی اور ان کا آپریشن کروایا گیا لیکن آپریشن کامیاب نہ ہوسکا اور وہ بھی انتقال کر گئے، ان کی بیوہ یہ کہتی پائی گئی کہ کاش میں ان کا آپریشن نہ کرواتی شاید یہ بچ جاتے۔ اللہ  پاک دونوں بھائیوں کی مغفرت فرمائے،بہرحال ہوتا وہی ہے جو  اللہ  کا فیصلہ ہوتا ہے اور انسان سوچتا رہ جاتا ہے۔

پیکر ِ تسلیم ورضا:

ہماری تو حیثیت ہی کیا ہے!بات بات پر ٹینشن،بے چینی اور بے قراری کا شکار ہوکر پریشان ہوجاتے ہیں۔ کائنات کی سب سے عظیم ہستی حبیبِ خدا محمد مصطفےٰ صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی کو دیکھا جائے تو کیسے کیسے کٹھن اور مشکل ترین حالات میں تسلیم و رضا کے پیکر بن کر ہمیں اپنی پیروی کی دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیدائش سے پہلے والدِ محترم اور بچپن میں پیاری ماں کی دنیا سے رخصتی، مشرکینِ مکہ سے سازشوں میں رکاوٹ بننے والے چچا اور ہمدرد و غم گسار زوجہ کی جدائی،دعوتِ اسلام دیتے وقت قریبی رشتہ دار کا آوازیں کسنا، بغض وکینہ سے بھری ہوئی عورت کا راہوں میں کانٹے بچھانا،کفارِ مکہ کی نازیباحرکتیں، داخل اسلام ہونے والے سعادت مندوں پر جسمانی تشدد ہونا، سفر طائف میں اوباشوں کا سنگ باری کرکے آپ کو زخمی کرنا،شعب ابی طالب میں محصور رہنا،آپ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو شہید کرنے کی سازشیں ہونا،بیٹیوں کے معاملات میں ستایا جانا، پیارے آبائی شہر مکہ پاک کو چھوڑ کر ہجرت کرنا،لشکرِکفار کا وہاں بھی پیچھا کرکے شجرِ اسلام کی آبیاری کو روکنے کی مذموم کوششیں کرنا، منافقوں کی مکارانہ چالیں، دودھ پیتے بیٹے حضرت ابراہیم  رضی  اللہ  عنہ کا چھوٹی سی عمر میں وصال ہوجانا اور ایسے بہت سے مشکل حالات کا سامنا رسولُ  اللہ  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے قضائے الٰہی پر راضی رہ کر کیا۔ اللہ  پاک ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔  اٰمین

استخارہ:اس حدیث پاک میں استخارہ کا بھی ذکر ہوا یعنی ابنِ آدم کی سعادت (خوش بختی) میں سے یہ بھی ہے کہ وہ  اللہ  سے استخارہ کرے، پھر  اللہ  کے فیصلے پر دل سے راضی ہو جائے۔ جب بندہ  اللہ  سے استخارہ کرتا ہے، تو جو فیصلہ ہوتا ہے، اس پر راضی ہو جاتا ہے اور دل سے موافقت اختیار کرتا ہےاور جو استخارہ ترک کر دیتا ہے، جب اس پر  اللہ  کی تقدیر واقع ہوتی ہے اور وہ اس پر ناراض ہوتا ہے، تو وہ بدبختی میں پڑ جاتا ہے۔([8]) بعض اہلِ علم نے یہ بھی کہا کہ کامل تسلیم و رضا، استخارہ سے بھی بہتر ہے، کیونکہ استخارہ میں بندے کی طرف سے ایک قسم کی طلب، ارادہ اور فیصلہ موجود ہوتا ہے۔ استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات میں  اللہ  سے خیر طلب کرے، بلکہ اسے یقین ہو کہ وہ خود نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا؟([9])

استخارہ کی تعلیم دیا کرتے:حضرتِ سیِّدُنا جابر بن عبدا  رضی  اللہ  عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم نُورِ مُجَسَّم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہم کو تمام اُمور میں استخارہ تعلیم فرماتے جیسے قراٰن کی سُورت تعلیم فرماتے تھے۔ ([10])

مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان  رحمۃُ  اللہ  علیہ  اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:اِستخارہ کے معنی ہیں خیر مانگنا یا کسی سے بھلائی کا مشورہ کرنا،چونکہ اس دُعا و نماز میں بندہ  اللہ  عَزَّوَجَلَّ سے گویا مشورہ کرتا ہے کہ فلاں کام کروں یا نہ کروں اسی لیے اسے اِستخارہ کہتے ہیں۔([11])

استخارہ کے دو طریقے: استخارہ کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ انسان اہم دینی یا دنیوی معاملے میں لوگوں سے مشورہ کر لینے کے بعد، استخارہ کی دعا کرے، کم از کم یہ کہے:اے  اللہ ! میرے لیے خیر کا انتخاب فرما، اور مجھے میرے حال پر نہ چھوڑ۔

اور کامل طریقہ یہ ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نماز پڑھے، پھر حدیث میں وارد مشہور دعا مانگے،تفصیل کے لیے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’بدشگونی‘‘ صفحہ 44 تا 53 پڑھ لیجئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])ترمذی،4/60،حدیث:2158

([2])دیکھئے:مراٰۃ المناجیح،7/118

([3])مرقاۃ،9/166،تحت حدیث:5303

([4])ترمذی،4/178،حدیث:2404

([5])مسلم، ص1098،حدیث: 6774

([6])الزھد لابن المبارک، ص31،رقم:122

([7])پ2،البقرۃ:216

([8])التیسیرشرح جامع صغیر،2/382

([9])مرقاۃ المفاتیح، 9/166، تحت الحدیث:5303

([10])بخاری، 1/393،حدیث:1162

([11])مراٰۃ المناجیح، 2/301


Share