صحابہ کرام علیہم الرضوان ، اولیائے کرام رحمہم اللہ السلام،علمائے اسلام رحمہم اللہ السلام

اپنےبزرگو ں کو یادرکھئے

رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ(دعوتِ اسلامی)

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وِصال یا عرس ہے، ان میں سے105کا مختصر ذکر ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ محرمُ الحرام 1439ھ تا1446ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے۔ مزید 11کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:

صحابہ  کرام علیہمُ الرِّضوان:

شہدائے جنگِ قادسیہ:

جنگِ قادسیہ امیرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کے دورِ خلافت میں مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہُ عنہ  کی کمانڈ میں محرم 14ھ کو ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی۔ ایرانی فوج کا سردار رستم مارا گیا، اس سے مسلمانوں نے سلطنتِ ایران کا کافی حصہ فتح کرلیا، چھ ہزار مسلمان شہید ہوئے جنہیں وادی مُشَرِّق (قادسیہ) میں دفن کیا گیا، حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  نے شرکائے قادسیہ کے بارے میں فرمایا: عرب کے ممتاز اور قابلِ فخر وہ لوگ ہیں جنہوں نے خطرات کا مقابلہ کیا ،وہ بہادر قادسیہ والے ہیں۔ ([1])

(1)حضرت اَرْطاۃ بن کعب نَخْعِی  رضی اللہُ عنہ  حسین و جمیل، صاحبِ فصاحت و بلاغت، قبیلہ نَخْع کے امیر اور جلیلُ القدر صحابی ہیں۔ یہ اپنے بھائی حضرت زید بن کعب نخعی  رضی اللہُ عنہ  کے ساتھ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے، نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں برکت کی دعا دی، ان کے لیے تحریر لکھوائی اور جھنڈا عطا فرمایا، یہ اس جھنڈے کو لیے جنگِ قادسیہ (محرم 14ھ) میں اپنے دونوں بھائیوں حضرت زید و حضرت قَیْس اور قبیلے کے دیگر افراد کے ساتھ شریک ہوئے۔ تینوں بھائیوں نے یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش فرمایا مگر جھنڈے کو گرنے نہ دیا۔([2])

علمائے اسلام رحمہمُ اللہ السَّلام:

(2)امام ابو سفیان وکیع بن جرّاح  رحمۃُ اللہِ علیہ  امامُ المسلمین، محدثِ عراق، مفتیِ زمانہ اور صاحبِ تصنیف تھے، ان کی پیدائش 129ھ اور وفات محرم الحرام 197ھ میں ہوئی۔ آپ امامِ اعظم ابوحنیفہ  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے، آپ کی کتاب مصنف وکیع بن جراح محدثین میں معروف ہے۔([3])

(3)اسد السنۃ امام ابوسعید اسد بن موسیٰ اموی قرشی مصری  رحمۃُ اللہِ علیہ  دوسری اور تیسری سن ہجری کے محدث ہیں۔ ان کی پیدائش 132ھ کو بصرہ یا مصرمیں ہوئی اور وصال محرم 212ھ کو مصر میں فرمایا۔ یہ ثقہ راوی حدیث، مُصَنِّف اور محدثین کے ہاں مقبول ہیں۔ آپ نے احادیثِ مبارکہ کا ایک مجموعہ تیار کیا، جو مسند اسد السنۃ کے نام سے شہرت رکھتا ہے، اس کے علاوہ آپ کی تصنیف کتاب الزہد بھی ہے۔([4])

(4)امام ابویحییٰ عثمان بن صالح سَہْمِی قرشی مصری  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش 144ھ کو مصر میں ہوئی اور یہیں محرم 219ھ میں وصال فرمایا۔ یہ امام مالک بن انس اور امام لَیْث بن سعد کے شاگرد اور امام بخاری جیسے محدثین کے استاذ ہیں۔ نیکی اور تقویٰ میں شہرت رکھتے تھے۔([5])

(5)شیخ الازہر علامہ محمد شنوانی ازہری شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش شَنَوان (صوبہ منوفیہ)مصر میں ہوئی اور 24محرم 1233ھ کو وصال فرمایا، تدفین تربۃ المجاورین ، قاہرہ میں کی گئی۔ آپ شیخ و فاضل جامعۃ الازہر قاہرہ، متبحر عالمِ دین، محدث، مفسر، فقیہ، نحوی اور معقولی تھے۔ تصانیف میں الجواہر السنیۃ بمولد خیر البریۃ، ثبت الشنوانی اور حاشیۃ علی مختصر البخاری لابن ابی جمرہ شامل ہیں۔([6])

(6)شیخ احمد بن عبد الرحمٰن کزبری دمشقی  رحمۃُ اللہِ علیہ  اپنے والد صاحب کی طرح محدثِ کبیر، جید عالمِ دین اور مرجعِ خاص و عام تھے۔ بڑے بھائی شیخ عبداللہ کزبری کے بعد مسجد اموی دمشق میں مسند تدریس کو سنبھالا اور زندگی بھر یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔ان کی پیدائش 1236ھ اور وصال  21 محرم 1299ھ میں ہوا۔([7])

(7)شیخ عبدالقادر بن محمد ابن سودہ  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش رجب 1301ھ اور یومِ وصال 12محرم1389ھ میں ہوا۔ یہ فاس (مراکش) کے مالکی عالمِ دین، محدث و مدرس، سیاح و معمر، شاعر و استاذ فقہ و حدیث اور مصنف کتب ہیں۔ دس سے زائد کتب میں الرحلۃ الکبریٰ اور الفیوضات الوہبیۃ  فی مولد خیر البریۃ اہم ہیں۔ عالم شہیر شیخ عبدالسلام ابن سودہ آپ کے صاحبزادے ہیں۔1329ھ میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو امام احمد رضا کی مشہور کتاب الدولۃ المکیہ پرتقریظ قلمبند فرمائی۔([8])

اولیائے کرام رحمہمُ اللہ السَّلام:

(8)بانی خانقاہ میرا شریف حضرت مولانا خواجہ احمد میروی چشتی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش 1252ھ کوہِ سلیمان، بلوچستان میں ہوئی اور 5محرم 1330ھ کو وصال فرمایا۔ آپ حافظِ قراٰن، عالمِ دین، خواجہ سلیمان تونسوی کے مرید اور خواجہ اللہ بخش تونسوی کے خلیفہ ہیں۔ خانقاہ و جامعہ اکبریہ میانوالی، خانقاہ بسالوی (تحصیل جنڈ) اٹک، خانقاہ چھبر شریف (تحصیل سوہاوہ) جہلم، خانقاہ بیربل شریف، سرگودھا آپ کے فیضان سے مالا مال ہوئیں۔([9])

(9)حضرت پیر مہتاب شاہ نقشبندی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش موضع وعولہ (تحصیل چوآسیدن شاہ) ضلع چکوال کے پیر قریشی گھرانے میں ہوئی۔آپ عالمِ دین، خواجہ ابوالخیر دہلوی کے مرید و خلیفہ، اچھے خطیب اور شاعر تھے، وعولہ میں حفظِ قراٰن کا مدرسہ قائم کیا جس سے کئی حفاظ بنے،آپ کا وصال 2محرم 1375ھ کو ہوا،تدفین مقامی قبرستان میں ہوئی۔([10])

(10)نورالمشائخ خواجہ فضل عمر خان مجددی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش 1302ھ کو کابل میں ہوئی اور 24محرم1376ھ کو وصال فرمایا، تدفین خانقاہ مجددیہ قلعہ جواد میں کی گئی۔ آپ جید عالم دین، مشہور شیخِ طریقت، بانی مدرسہ نورالمدارس غزنی، مجاہد فِی سبیل اللہ، کثیر الفیض تھے۔ آپ کے ہزاروں مرید اور سینکڑوں خلفا تھے۔([11])

(11)شیخِ طریقت پیر سیّد زین العابدین احمد بخش جیلانی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی پیدائش درگاہ نورائی شریف نزد حیدرآباد سندھ میں ہوئی اور 12محرم 1393ھ کو وصال فرمایا۔ آپ سلسلہ قادریہ کے شیخِ طریقت، چودہ زبانوں کے شاعر اور صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔([12])



([1])دیکھئے: تاریخ طبری، 3/176، 186-  8/233، 290

([2])دیکھئے: اسدالغابہ، 1/93- الاصابہ، 1/195

([3])التاریخ الکبیر للبخاری، 8/66، 67- العبر فی خبر من غبر، 1/253- طبقات الحفاظ، ص133

([4])تذکرۃ الحفاظ، 1/294

([5])المعجم المشتمل، ص185-تہذیب التہذیب، 5/486

([6])حلیۃ البشر، 3/1270، 1271-اعلام للزرکلی، 6/297

([7])حلیۃ البشر،1/166، 167

([8])الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیۃ،ص333

([9])تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع اٹک،ص 88

([10])تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال، ص 125، 126

([11])تذکرہ مشائخ مجددیہ افغانستان، ص176 تا 183

([12])تذکرہ اولیائے سندھ،ص 159تا163


Share