کوفہ کی تاریخی اورعلمی حیثیت

کوفہ کی تاریخی اور علمی حیثیت

*مولانا حافظ حفیظ الرحمٰن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء


کوفہ ایک قدیم اسلامی شہر ہے جو عراق میں دریائے فُرات کے کنارے واقِع ہے۔ جنگِ قادسیہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق    رضی اللہ عنہ    کا حکم پاکر عربوں نے ایک مضبوط اور دِفاعی اعتِبار سے مُستحکم چھاؤنی تعمیر کی تاکہ نئے فتح ہونے والے صوبوں کے انتظامی معاملات کو درست رکھا جاسکے۔پھر اس کو ”الکوفہ“ کا نام دیا گیا۔ ([1])

کوفہ کی آبادکاری:

”فتوحُ البلدان“ میں ہے:حضرت عمر فاروق    رضی اللہ عنہ    نے حضرت سعد بن ابی وقاص    رضی اللہ عنہ   کو خط کے ذریعے حکم دیا کہ مسلمانوں کی ہجرت کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرو جہاں میرے اور ان کے درمیان نہر حائل نہ ہو۔ حضرت سعد بن ابی وقاص    رضی اللہ عنہ   ”اَلْاَنْبار“ آئے اور اس کو منتخب کرنے کا اِرادہ کیا لیکن یہاں مکھیوں کی کثرت تھی جس کی وجہ سے انہیں دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا،لیکن وہ دوسری جگہ بھی اچّھی نہ تھی، آخِرکار وہ سرزمینِ کوفہ پہنچے اور وہاں شہر کی حد بندی کی، گھر بنانے کے لئے لوگوں کو زمینیں دیں اور مسجد کی تعمیر کی۔یہ واقعہ 17 ہجری کا ہے۔([2])علّامہ ابنِ جوزی  رحمۃ اللہ علیہ   نے لکھا ہے کہ حضرت سعد    رضی اللہ عنہ    کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کو ایسی زمین کے بارے میں بتاتا ہوں جو مچھروں اور پسوؤں وغیرہ سے پاک وصاف ہے اور جنگل سے الگ تھلگ ہے۔ چنانچہ اس نے اس جگہ کے بارے میں بتایا جہاں آج کو فہ آباد ہے۔([3])

وجہ تسمیہ:

کوفہ سرخ ریت اور کنکر والی زمین کو کہتے ہیں، کوفہ کی زمین بھی ریتلی اور کنکریلی تھی اس لئے اس کو کوفہ کہا جانے لگا۔([4])

کوفہ کے لئے بَرَکت کی دُعا:

 جب مسلمانوں کے لئے کوفہ بطورِ رہائش منتخب ہوگیا تو یہ جگہ حضرت سلمان اور حضرت حذیفہ      رضی اللہ عنہما   کو بہت پسند آئی جس پر انہوں  نے نَماز پڑھی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا کی: اے آسمان اور اس کے سائے میں بسنے والوں کے رب، اے زمین اور اس پر بسنے والوں کے رب، اے ہوا اور اس میں اڑنے والوں کے رب، اے ثابت  اور گرنے والے ستاروں کے رب، اے سمندر اور اس میں چلنے والوں کے رب،  اے شیطانوں اور ان سے گمراہ ہونے والوں کے رب، اے غاروں اور ان میں پوشیدہ ہونے والوں کے رب اس کوفہ میں ہمارے لئے بَرَکت   عطا فرما اور اسے پناہ گاہ  بنا دے۔([5])

کوفہ کی علمی حیثیت:

یوں تو کوفہ کی عِلْمی حیثیت عیاں ہے کہ وہاں علم و فضل کے بڑے بڑے ستاروں نے روشنیاں بکھیری ہیں۔ جیساکہ علامہ ابنِ سعد علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: کوفہ میں تین سو اَصْحابُ الشّجرہ (اصحابِ بیعت الرضوان)اور ستر اہلِ بدر تشریف لائے۔([6])ساتھ ہی یہ بھی قابلِ غور ہے کہ وہ دو عظیم ہستیاں جن کے پاس جمیع اصحابِ رسول کا علم جمع تھا وہ دونوں بھی کوفہ ہی میں تھے۔

حضرت مَسْروق  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں کہ میں نے اَصحابِ محمد  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو سونگھا (یعنی علمی اعتبار سے بغور دیکھا) تو تمام صحابہ    رضی اللہ عنہم  کے علم کو ان چھ یعنی حضرت علی، حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید، حضرت ابودَرداء اور حضرت اُبی بن کَعْب    رضی اللہ عنہم  میں پایا ۔ پھر ان چھ کو سونگھا تو ان کے علم کو حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود    رضی اللہ عنہما  میں پایا۔([7])

علم و کمال کے یہ دونوں جبلِ عظیم یعنی مولا علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود      رضی اللہ عنہما     کوفہ میں ہی تھے۔

 مولا علی شیرِ خدا    رضی اللہ عنہ    نے کوفہ کو دارالخلافہ  اختیار فرمایا اور یہیں سکونت فرمائی  اور  حضرت عبداللہ بن مسعود    رضی اللہ عنہ     کو حضرت فاروقِ اعظم    رضی اللہ عنہ    نے کوفہ روانہ فرمادیا تھا ۔

عبد اللہ بن مسعود سے علم حاصل کرنے کی تاکید:

حضرت  سیّدنا عمر فاروق اعظم    رضی اللہ عنہ    نے    حضرت عبداللہ بن مسعود کو کوفہ روانہ فرمایا تو وہاں کے رہنے والوں کے نام  خط لکھا: بےشک میں نے عمّار بن یاسِر کو   امیر اور عبداللہ بن مسعود کو معلّم اور وزیر بنا کر تمہاری جانب بھیجا ہے۔ سُن ركھو کہ یہ دونوں رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اَصحاب میں سے شریف ترین اور ذی عزّت ہیں، اہلِ بدر میں سے ہیں۔ میں نے عبداللہ بن مسعود کو بیتُ المال کا نگران بنایا ہے، تو ان دونوں سے عِلم حاصل کرو اور ان دونوں کی اِطاعت  کرو۔ بِلاشُبہ عبداللہ بن مسعود کو (تمہارے پاس بھیج کر)میں نے تمہیں خود پر ترجیح دی ہے۔([8])

حضرت عمر فاروقِ اعظم    رضی اللہ عنہ    کی ہدایت پر 20ہجری میں حضرت عبد اللہ بن مسعود    رضی اللہ عنہ    کوفہ پہنچے اور اُسے اپنے علم و عرفان اور فضل و کمال کے اَنوار سے جگمگادیا۔ مسلسل دس سال تک لوگوں کو علم ِدین کے زیور سے آراستہ کرکے ان کے ظاہر کو سنوارتے رہے، ان سے جہالت کو دور کرکے ان کے باطن کو نکھارتے رہے، لوگوں کو اطاعت ِ الٰہی اور اطاعتِ رسول پرابھارتے رہے۔ اس مدت میں آپ    رضی اللہ عنہ    سے اِکتِسابِ علم کرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچی۔([9])

کوفہ میں قِیام فرمانے والی ہستیاں:

حضرت مولیٰ علی    رضی اللہ عنہ   نے کوفہ میں قِیام فرمایا اور کوفہ میں ہی21 رَمَضانُ المبارَک 40ھ کو شہادت پائی۔([10])

حضرت عَمّار بن یاسر    رضی اللہ عنہ    نےامیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق    رضی اللہ عنہ    کے دَورِ خلافت میں 21 مہینے تک کوفہ  کی گورنری کے فرائض سر انجام  دئیے۔([11])

حضرت مُغِیرہ بن شُعبہ    رضی اللہ عنہ    کو حضرت سیّدنا عمر فاروق    رضی اللہ عنہ    نے کوفہ کا حاکم مقرر کیا۔اور حضرت سیّدنا عثمانِ غنی    رضی اللہ عنہ    کے زمانۂ خلافت میں آپ کچھ عرصے تک اسی عہدے پر برقرار رہے۔ سیّدنا امیرِ معاویہ    رضی اللہ عنہ    نے اپنے دَورِ حکومت میں دوبارہ کُوفہ کی گورنری پر فائز کردیا۔یوں نو سال تک کوفہ میں رہے۔([12])

حضرت سیّدنا ابوموسیٰ اَشْعَری     رضی اللہ عنہ    کو حضرت سیدنا عثمانِ غنی   رضی اللہ عنہ  نے اپنے دَورِ خلافت میں کوفہ کی گورنری عطا فرمائی۔([13])

حضرت جَریر بن عبداللہ بَجَلی    رضی اللہ عنہ   17ہجری میں کُوفہ کی آباد کاری کے بعد وہاں  تشریف لے گئے اور ایک لمبے عرصے تک وہیں رونق اَفروز رہے۔([14])

حضرت خَبّاب بن اَرَت    رضی اللہ عنہ    بھی کوفہ میں رہے، جب آپ کوفہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ اپنے مُردوں کو گھروں کے صحن یا دروازے کے پاس دفن کرتے تھے۔آپ نے اس روایت کو یوں ختم کیا کہ اپنے بیٹے کو وصیت کی: تم مجھے کوفہ سے باہر میدان میں دفن کرنا، آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا تو دیکھا دیکھی دیگر لوگ بھی اپنے مرحومین کو میدان میں دفنانے لگے۔([15])

حضرت نُعمان بن بشیر      رضی اللہ عنہما   کوفہ میں 9 مہینے تک گورنری کے عُہْدے پر فائز رہے۔ ([16])

حضرت حُذیفہ بن یَمان    رضی اللہ عنہ   نے بھی کوفہ میں قِیام فرمایا ۔([17])

کوفہ اور کربلا کا تعلّق:

کوفہ اور کربلا کے درمیان تقریباً 75 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ کربلا نامی مقام پر پہلے صحرا تھا لیکن  اب  یہ ملکِ عراق  کا مشہور شہر  ہے۔ 61 ہجری میں امامِ حسین اور آپ کے رُفقاء     رضی اللہ عنہم کی شہادت کا واقعہ کربلا میں ہی پیش آیا۔ کوفہ اور کربلا کا آپس میں گہرا تعلّق ہے، وہ یوں کہ جب یزید تخت نشین ہوا اور حضرت امامِ حسین    رضی اللہ عنہ    نے اس کی بیعت سے انکار کیا تو اہلِ کوفہ نے ہی خطوط بھیجے تھے جن میں کوفہ آنے پر زور دیا گیا تھا اور مدد کی یقین دہانی کروائی تھی، مگر جب امام حسین    رضی اللہ عنہ    پہنچے تو اہلِ کوفہ نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یزیدی فوج نے امامِ حسین    رضی اللہ عنہ    اور آپ کے دیگر ساتھیوں کو کربلا میں محصور کر دیا، اور 10 محرم 61 ہجری کو سانحۂ کربلا پیش آیا۔

کوفہ کے مقدّس مقامات:

مزارحضرت  امام مُسلم بن عَقیل    رضی اللہ عنہ   :

جامع کوفہ کے مرکزی دروازے کی دائیں جانب ایک سنہری گنبد کے نیچے محافظِ اسلام، سفیرِ امام حسین حضرت مسلم بن عقیل    رضی اللہ عنہ    کا مزارِ مبارک ہے۔([18])

مزارحضرت ہانی بن عُرْوَہ    رضی اللہ عنہ   :

جامع مسجد کوفہ المعروف مسجد انبیاء کے صحن کی مشرقی دیوار کے ساتھ جہاں سیدنا امام مسلم بن عقیل    رضی اللہ عنہ    آرام فرما ہیں اس کے متصل ہی حضرت ہانی بن عروہ    رضی اللہ عنہ    کا مزارِ اقدس ہے۔([19])

حضرت مولیٰ علی    رضی اللہ عنہ   کا گھر مبارک بھی کوفہ کے مقدّس مقامات میں سے ہے اور یہ جامع کوفہ کے بِالکل قریب ہے۔

مسجد کوفہ:

 یہ کوفہ کی سب سے قدیم اور مشہور مسجد ہے، جہاں حضرت علی    رضی اللہ عنہ    نے نَماز پڑھائی۔

کوفہ کے عظیم محدثین:

کوفہ میں کئی بڑے محدِّثین پیدا ہوئے،  ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ ملاحظہ کیجئے:

حضرت حارث بن اَلْاَعْوَر  رحمۃ اللہ علیہ  :

یہ حضرت مولیٰ علی    رضی اللہ عنہ   کے صحبت یافتہ ہیں،کوفہ میں وفات   پائی۔([20])

حضرت اَحْنَفْ بن قَیس  رحمۃ اللہ علیہ  :

ان كا نام ضحّاک ہے، انہوں نے حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا زمانہ پایا تھا لیکن حاضری کا شرف نہ مل سکا۔ ان کی وفات 72 ہجری کو کوفہ میں ہوئی۔([21])

حضرت امام اَعْمَش  رحمۃ اللہ علیہ  :

آپ کا شُمار بھی محدِّثینِ کوفہ میں ہوتا ہے۔ان کے متعلّق حضرت ابنِ عیینہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا بیان ہے کہ اعمش کتابُ اللہ کے بڑے قاری،احادیث کے بڑے حافِظ اورعلمِ فرائض کےماہر تھے۔([22])

حضرت امام سفیان ثوری  رحمۃ اللہ علیہ  :

حضرت امام شُعْبَہ، ابنِ عیینہ اوریحییٰ بن مَعِین    رحمۃ اللہ علیہم   نےآپ کو ”اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْن فِیْ الْحَدِیْث“  کا لقب دیا۔([23])آپ  رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدا میں اپنے والد اور ”کوفہ“ کے مشہور شیوخ ِحدیث بالخصوص امام اَعمش اور ابواسحٰق سبیعی    رحمۃ اللہ علیہم   سے حدیث و فقہ کادرس لیا۔([24])

حضرت امام ابو اسحاق السَّبِیعی  رحمۃ اللہ علیہ  :

آپ کا نام عمرو بن عبد اللہ ہمدانی ہے،یحییٰ بن سعید القطان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: جس دن ضحّاک بن قَیس کوفہ میں داخل ہوئے اسی دن امام ابو اِسحٰق  رحمۃ اللہ علیہ  نے وصال فرمایا۔([25])

کوفہ اور امامِ اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  :

امامِ اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ   کوفہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کو تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ([26])آپ  رحمۃ اللہ علیہ   نے کوفہ میں فقہِ حنفی کی بنیاد رکھی، جس پر آج بھی دنیا کے اکثر مسلمان عمل کرتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])اردو دائرہ معارف اسلامیہ،17/454

([2])فتوح البلدان،ص387

([3])المنتظم،1/178

([4])فتوح البلدان،ص388

([5])تاریخ طبری،4/41

([6])طبقات الکبریٰ لابن  سعد، 6/89

([7])سیر اعلام النبلاء،3/310

([8])مستدرک علی الصحیحین، 4/476، حدیث:5717

([9])تاریخ ابن عساکر33/62

([10])تاریخ ابن عساکر، 42/577۔ کتاب العقائد، ص45

([11])تاریخ ابن عساکر، 43/، 449

([12])الاصابۃ، 6/157

([13])سیر اعلام النبلاء ، 4/50

([14])المنتظم، 5/245

([15])معجم کبیر، 4/56، مستدرک، 4/468، حدیث: 5691

([16])اعلام للزرکلی، 8/36

([17])طبقات الکبری لابن سعد،6/94

([18])دیکھئے:شہادت نواسہ سیّدالابرار، ص378

([19])شہادت نواسہ سیّدالابرار، ص380

([20])طبقات الکبریٰ لابن سعد،6/210

([21])تہذیب الکمال،2/282

([22])تذکرة الحفاظ،1/116

([23])تاریخ بغداد، 9/165، ملتقطاً

([24])محدثین عظام حیات وخدمات، ص105

([25])تذکرۃ الحفاظ،1/87

([26])دیکھئے:شرح مسند ابی حنیفۃ لملاعلی قاری، ص581


Share