تاریخ مدینہ منورہ  قسط 01

تاریخ کے اوراق

تاریخِ مدینہ منورہ(قسط:01)

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

 کسی شہر کی خوبیاں اُسے دوسرے شہروں سے ممتاز و منفرد بناتی ہیں، مدینہ طیبہ کو بھی اللہ پاک نے بہت سی ایسی کثیر صفات عطا فرمائی ہیں جن کی بدولت یہ شہرِ محبت دنیا کے باقی تمام شہروں اور ساری بستیوں سے الگ شان و شوکت کا حامل بن گیا، یہاں کچھ خوبیاں ذکر کی جاتی ہیں:

(1)مدینۂ منورہ کی زمین کو یہ سعادت حاصل ہے کہ ساری مخلوق سے افضل ہستی حضرت محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا صدیق اکبر، سیدنا فاروقِ اعظم اور کثیر صحابۂ کرام و جلیل القدر تابعین عظام کی تخلیق اس شہر کی پاکیزہ مٹی سے کی گئی، اس شہر کو افضل الخلق حبیبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مدفن ہونے کا اعزاز و شرف حاصل ہے۔ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک قبر کے پاس رکھے جنازے کے پاس سے گزرے تو پوچھا: یہ قبر کس کی ہے؟ صحابۂ کرام نے عرض کی: یارسولَ اللہ! فلاں حبشی کی ہے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ سِيقَ مِنْ اَرْضِهٖ وَسَمَائِهٖ اِلَى تُرْبَتِهِ الَّتِي خُلِقَ مِنْهَا ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس شخص کو اِس کی زمین اور آسمان سے اُس مٹی کی طرف لایا گیا جس سے اس کی تخلیق کی گئی۔([1]) اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: يُدْفَنُ كُلُّ اِنْسَانٍ فِي التُّرْبَةِ الَّتِي خُلِقَ مِنْهَا یعنی ہر انسان کو اس مٹی میں دفن کیا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا ہے۔([2])

(2)مدینہ طیبہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہجرت گاہ اور زمین میں آپ کا مسکن ہے۔حدیث پاک میں ہے: اَلْمَدِينَةُ مُهَاجَرِي وَمَضْجَعِي فِي الْاَرْضِ ترجمہ: مدینہ میری ہجرت گاہ ہے اور زمین میں میرا ٹھکانہ ہے۔([3])

(3)مدینۂ منورہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبوب ترین جگہ ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے: لَا يُقْبَضُ النَّبِيُّ اِلَّا فِي اَحَبِّ الْاَمْكِنَةِ اِلَيْهِ ترجمہ:نبی کا وصال اُن کی محبوب ترین جگہ میں ہی ہوتا ہے۔([4])

(4)روزِ محشر مدینۂ منورہ کی زمین سب سے پہلے شق ہوگی، حدیث شریف کے مطابق سب سے پہلے اولین و آخرین کے سردار نبی مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم زمین سے باہر تشریف لائیں گے، پھر سیدنا ابوبکر صدیق، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق، پھر اہلِ بقیع اور ان کے بعد مکۂ مکرمہ والے رضی اللہ عنہم اجمعین۔([5])

مدینہ طیبہ کب سے آباد ہوا؟

علّامہ سمہودی رحمۃُ اللہِ علیہ کی تحقیق کے مطابق حضرت نوح علیہ السّلام کے طوفان کے بعد سب سے پہلے یہی بستی آباد ہوئی۔([6]) اس سرزمین پر سب سے پہلے آباد ہونے والی قوم عمالقہ یا عمالیق تھی، یہ لوگ عملاق بن ارفخشد بن سام بن نوح کی اولاد سے تھے، انہوں نے ہی اللہ پاک کے الہام سے عربی زبان ایجاد کی، سب سے پہلے اس زمین پر زراعت کی اور کھجور کے درخت لگائے۔([7]) ان کے بعد بنی اسرائیل کی ایک جماعت یہاں آباد ہوئی،([8]) یہ حضرت ہارون علیہ السّلام کی اولاد سے تھی اور بعض دیگر یہود اس کے اطراف خیبر وغیرہ میں رہنے لگے، اکثر قبائل یہود کی سکونت مدینۂ منورہ کے اطراف میں تھی۔ یہ لوگ مسجد قبا کے بالائی حصہ اور اس کے اطراف میں رہتے تھے۔([9]) پھر عمرو بن عامر (ماء السماء) نامی شخص نے اپنی اولاد سمیت سبا (ملک یمن) کو چھوڑا، اس کے 13لڑکے مختلف شہروں میں آباد ہوئے جن میں سے ثعلبہ بن عمرو نے سرزمین حجاز کو پسند کیا، یہی شخص انصاری قبائل اوس و خزرج کا مورثِ اعلیٰ ہے، اس کی اولاد کثیر ہوئی تو انہوں نے مدینۂ منورہ کی طرف رُخ کیا اور یہاں سکونت اختیار۔([10]) یہودی قبائل بنوقریظہ اور بنو نضیر نے ان پر ظلم وستم بھی کئے، بعد میں ان کی سازشوں کے سبب اوس و خزرج کے درمیان ایک تاریخی جنگ بھڑک اٹھی جو 120 سال تک جاری رہی۔ اللہ پاک نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اسلام کی برکت سے اس جنگ کو ختم فرما دیا جس کا بیان سورہ اٰل عمرٰن کی آیت 103 میں ہے۔([11])

مدینہ طیبہ کے نام

کسی ذات، جگہ یا شے کے بہت سارے نام ہوں تو یہ اس کی اہمیت و فضیلت اور بلندی و عظمت کی دلیل ہوتی ہے، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ پاک کے پیارے نام، رسول پاک کے خوبصورت اور قراٰنِ کریم کے بابرکت نام بہت زیادہ ہیں۔ یوں ہی مدینۂ منورہ کے بھی بہت سارے پیارے پیارے نام اور شاندار القابات ہیں، اس عظمت والے شہر کے کم و بیش 100 نام و القاب شمار کئے گئے ہیں، روئے زمین پر ایسا کوئی شہر نہیں جس کے اتنے زیادہ نام ہوں۔ بعض یہاں بیان کئے جاتے ہیں:

(1)طابہ(2)طَیْبہ(3)طیبّہ(4)طایِبہ: یہ نام حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت پسند اور بڑے پیارے ہیں، ان کا معنی پاکیزہ، پاک اور خوشبودار ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّ اللهَ اَمَرَنِي اَنْ اُسَمِّيَ الْمَدِينَةَ طَيْبَةَ یعنی اللہ پاک نے مجھے حکم دیا کہ میں مدینے کا نام طیبہ رکھوں۔([12]) اور ایک حدیثِ پاک یوں ہے: اِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَمَّى الْمَدِينَةَ طَابَةَ ترجمہ: بے شک اللہ پاک نے مدینے کا نام طابہ رکھا ہے۔([13]) تورات شریف میں بھی مدینے شریف کے یہ نام مذکور ہیں۔([14]) (5)ارض اللہ (6)ارض الهجرة: ان ناموں کا ذکر قراٰن پاک کی سورۃ النسآء کی آیت نمبر97 میں ہے۔ (7)ایمان: سورۃ الحشر کی آیت نمبر9 میں اسے ایمان کہا گیا ہے اور یہ پاکیزہ شہر ایمان کے احکام کو ظاہر کرنے والا ہے نیز سرچشمہ ایمان ہے۔([15]) (8)بیت رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: یہ نام حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری نسبت کے سبب ہے۔ (9)حبیبہ و محبوبہ: یہ بھی پیارا نام ہے، رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا کی: اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ اِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ اَوْ اَشَدَّ ترجمہ: اے اللہ پاک! ہمیں مدینہ ایسا محبوب بنا دے جیسا ہمیں مکہ محبوب ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ ([16])(10)حرم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اس نام کا حدیثوں میں تذکرہ آیا ہے۔ ارشاد فرمایا: اَلْمَدِينَةُ حَرَمٌ ترجمہ: مدینہ حرم ہے (یعنی عزت واحترام والا شہر ہے)۔([17]) (11)حسنہ: کیونکہ اس شہر میں باطنی اور ظاہری خوبصورتی کمال درجہ پائی جاتی ہے، باطنی یہ کہ یہاں حضور رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آل بیتِ اطہار اور صحابۂ کرام کا وجود ہے اور ظاہری یہ کہ یہاں باغات، چشمے، کنوئیں، بلند و بالا پہاڑ، کشادہ فضائیں اور عمارتوں کے قبے اور مزارات شریفہ ہیں۔([18]) (12)خیر و خیرہ: یہ شہر دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا جامع ہے اور حدیث شریف میں فرمایا گیا: اَلْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ یعنی مدینہ ان کے لئے خیر و بہتر ہے اگر وہ جانتے۔([19]) ان کے علاوہ بھی مدینہ شریف کے بہت سارے نام ہیں، جیسے اکالۃ القریٰ، البارہ، البحرہ، البلاط، الجابرہ، دارُ الابرار، دارُ السنۃ، دارُ السلام، ذاتُ الحجر، ذاتُ النخل، سیدُ البلدان، الشافیہ، طائب، المطیبہ، ظِباب، العاصمہ، العذراء، الغراء، غلبہ، الفاضحہ، القاصمہ، قبۃُ الاسلام، قریۃُ الانصار، قلبُ الایمان، المؤمنہ، المبارکہ، مبینُ الحلال والحرام، المحرمہ، المحفوظہ، المدینہ، المختارہ، المرزوقہ، المقدسہ، الناجیہ وغیرہ۔ ان میں سے ہر نام کا کوئی نہ کوئی پیارا و خوب صورت معنی و مطلب ہے، تفصیل کے لئے شیخِ محقق، امامُ المحدثین شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب ”جذبُ القلوب“ اور اہلِ سنّت کے عظیم مصنف فیضِ ملت مفتی فیض احمد اویسی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ترجمہ کردہ کتاب ”محبوبِ مدینہ“ کا مطالعہ کیجئے۔                                     (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])مستدرک، 1/696، حدیث:1396

([2])مصنف عبدالرزاق،3/515،حدیث:6531

([3])معجم کبیر، 20/205، حدیث:470

([4])مسند ابی یعلیٰ، 1/39، حدیث:41

([5])ترمذی،5/388،حدیث:3712

([6])مدینۃ الرسول، ص52

([7])وفاء الوفاء،1/156، 157-مدینۃ الرسول، ص52-جذب القلوب مترجم،ص63

([8])وفاء الوفاء، 1/157-محبوب مدینہ، ص553

([9])خلاصۃ الوفاء،1/523-جذب القلوب مترجم،صفحہ66، 67

([10])وفاء الوفاء،1/172-جذب القلوب مترجم،ص69، 70

([11])خلاصۃ الوفاء،1/576، 580- جذب القلوب مترجم،ص71

([12])معجم کبیر، 2/236، حدیث: 1987

([13])مسلم،ص550،حدیث:3357

([14])جذب القلوب مترجم، ص6

([15])جذب القلوب مترجم، ص8

([16])بخاری،1/621، حدیث:1890

([17])بخاری،1/616،حدیث:1870

([18])جذب القلوب مترجم، ص9

([19])بخاری، 1/618، حدیث: 1875۔


Share