تاریخ کے اوراق
بیتُ النّبی
*مولانا حامد سراج عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء
شہرِمکّہ مسلمانوں کی عقیدتوں کا محور ہے۔ پانچوں وقت اسی میں واقع بیتُ اللہ کی طرف منہ کر کے سجدے کئے جاتے ہیں، اس کےساتھ اور کئی گوناگوں نسبتیں اس کی اہمیّت کو دو چند کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلوہ گری اسی شہر میں ہوئی۔ وہ جگہ جہاں کونین کے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت ہوئی یقیناً عاشقوں کے لیے رحمتوں کا نگینہ اور برکتوں کا خزینہ ہے۔ علّامہ اسماعیل نبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے بالکل ٹھیک بات ذكر فرمائی ہےکہ کعبۃُ اللہ کےبعد اہلِ اسلام کے لیے سب سے زیادہ فضیلت اور اہمیّت کا مقام ولادت گاہِ مصطفےٰ ہے۔ ([1])
ولادت گاہِ مصطفےٰ:
پہلے دَورمیں ولادتِ گاہِ مصطفےٰ معروف و مقبول زیارت گاہ تھی۔ مشہور سیاح حضرت ابنِ جبیر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وہ جگہ جہاں ولادتِ مبارکہ ہوئی تھی تقریباً تین بالشت کا چھوٹے حوض جیسا چبوترہ ہے اور اس کے درمیان سبز رنگ کا دو تہائی بالشت برابر سنگِ مَر مَر کا ایک ٹکڑا ہےجس پر چاندی چڑھی ہوئی ہے اور اس چاندی سمیت اس کی لمبائی ایک بالشت ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو زمین پر پیدا ہونے والی سب سے افضل ذات کی ولادت گاہ بنی اور سب سے اشرف اور پاکیزہ نسل والی ذات سے مَس ہوئی۔ اور ہم نے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت گاہ سے بَرَکتیں لے کر نفع حاصل کیا۔([2])
مکان کا محلِ وقوع:
موجودہ دَور میں یہ مکانِ عالیشان کوہِ صفا سے تقریباً آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اب یہاں ایک لائبریری قائم ہے۔ بیسوی صدی میں مکانِ عالیشان کی جگہ ایک پبلک لائبریری بنام ”مکتبۃُ مکۃ المکرمۃ“ تعمیر کی گئی۔ یہ لائبریری بیتُ اللہ شریف کی جنوب مشرقی جانب باب السلام سے کوئی 300گزکے فاصلے پر واقع ہے۔ اَصلاً یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی ملکیت وہ مکان تھا جس میں اللہ کے آخِری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت کے ساتھ ہی زمین نے آپ کے جسم کے بوسے لینے کا شرف پایا۔([3])یہ سارا علاقہ شعبِ بنی ہاشم کہلاتا تھا کہ بنو ہاشم نے مسجدِ حرام کی قربت کے سبب یہاں رہائش اختیار کی تھی۔
مکان کی ملکیت:
پہلے یہ مکان حضرت عبدالمطلب کی ملکیت میں تھا، انہوں نے اپنے بچّوں میں تقسیم کردیا تو حضرت عبداللہ رضی اللہُ عنہ کا حصّہ حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ملا۔ جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو حضرت عقیل بن ابی طالب نے اس کو اپنے تحت کر لیا۔([4])پھر یہ مکان ان کی اولاد میں رہا اور ان سے ایک لاکھ دینار کے عوض حجاج کے بھائی محمد بن یوسف نے خریدلیا۔اس نے اسے اپنے ذاتی مکان کا حصّہ بنایا اور اس کا نام ”البیضاء“ رکھ دیا۔([5]) بعد میں یہی گھر ”بیتِ ابو یوسف“ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔
مکان کو حاصل نسبتیں:
یہی وہ مکان ہے جہاں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اعلانِ نبوّت فرمایا، یہی وہ مکان ہے جہاں کئی سالوں تک آپ پر وحی و الہام کے نور کی رِم جِھم ہوتی رہی۔ یہی وہ مکان ہے جہاں آپ کو جاں نثار رفیقۂ حیات حضرت خدیجہ کی رفاقت میسر آئی اور وہ تادمِ وفات سکونت پذیر رہیں۔ یہی وہ مکان ہے جہاں حضرت ابراہیم کے ماسوا آپ کی سب اولادِ امجاد کی ولادت ہوئی۔ اسی گھر سے آپ نے سفرِ ہجرت کا آغاز فرمایا اور یہی وہ گھر ہے جہاں ہجرت کی رات آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سورہ ٔ یٰسین کی آیات تلاوت کرتے ہوئے کفارکے سروں پر مٹی ڈال کر کاشانۂ اقدس سے تشریف لے گئے۔ ([6]) اللہ کریم ہم سب کو بھی اس مقدّس مقام کی بار بار زیارت نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ذمہ دار شعبہ سیرت مصطفےٰ المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments