احکامِ تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء
(1)خریدار اگر بلاوجہ چیز واپس کرے تو واپس لینا ضروری نہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری الیکٹرانکس آئٹم کی دکان ہےخریدار ہم سے مختلف الیکٹرانکس کاسامان خرید کر لے جاتے ہیں اور بعض اوقات خریدا ہوا سامان واپس کرنے آتے ہیں جبکہ ہم نے انہیں کوئی دھوکہ نہیں دیا ہوتا اور سامان میں کوئی عیب بھی نہیں ہوتا، تو اس سامان کو واپس لینے کا کیا حکم ہے ؟اس سامان کو واپس نہ لیں تو کیا ہم گنہگار ہوں گے ؟ کیونکہ واپس لینے کی صورت میں جو ہماری محنت لگی ہوتی ہے اور جو اس ڈیل سے ہمارا نفع ہوتا ہے وہ چلا جائے گا جس کی وجہ سے ہم بہت کم ہی واپس لیتے ہیں۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: فریقین کے مابین جو خرید و فروخت کا عقد ہوا ہے اسے ختم کردینے کو اقالہ کہتے ہیں اس کی چند شرائط ہیں جن میں سے ایک شرط یہ ہے کہ دونوں فریق اقالہ پر راضی ہوں۔ اگر ایک فریق بھی راضی نہ ہو تو اقالہ نہیں ہوسکتا۔ جب خریدار نے اپنی رضامندی سے کوئی چیز خریدی،آپ نے اسے کوئی جھوٹ نہ بولا، نہ ہی کوئی دھوکہ دیا اور نہ ہی اس عقد کو فسخ کرنے کا کوئی سببِ شرعی پایا جارہا ہے تو آپ پر اس چیز کو واپس لینا واجب نہیں ہے،اس چیز کو واپس لینے سے منع کرنے کا آپ شرعی طور پر حق رکھتے ہیں اور واپس لینے سے منع کرنے کی صورت میں آپ گنہگار بھی نہیں ہوں گے البتہ اگر آپ خریدار کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہوئے وہ چیز واپس لے لیتے ہیں تو یہ ایک مستحب اور ثواب کا کام ہے۔
چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں: ”دوشخصوں کے مابین جو عقد ہوا ہے اس کے اٹھا دینے کو اقالہ کہتے ہیں۔۔۔دونوں میں سے ایک اقالہ چاہتا ہے تو دوسرے کو منظور کرلینا، اقالہ کر دینا مستحب ہے اور یہ مستحقِ ثواب ہے۔“
(بہار شریعت،2/734)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)حجامہ کی اجرت لینا کیسا ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل بعض ادارے بلا معاوضہ حجامہ کرتے ہیں اور بعض ادارے حجامہ کرنے کی طے شدہ اُجرت لیتے ہیں تو یہ رہنمائی فرمائیں کہ حجامہ کرنے کی اُجرت کا لین دین کرنا کیسا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: حجامہ باقاعدہ ایک علاج کا نام ہے۔ حدیثوں میں بھی حجامہ کروانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ماہر طبیب کے مشورے سے حجامہ کروانا بہت اچھا عمل ہے۔
البتہ یہ واضح رہے کہ مسجد یا فنائے مسجد میں حجامہ کروانا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ حجامہ میں بہتا خون نکلتا ہے، جوکہ ناپاک ہےجبکہ مسجد یہاں تک کہ فنائے مسجد کو بھی نجاستوں اور گندی چیزوں سے بچانے کا حکم ہے۔
پچھنے لگانے کی اُجرت لینا اوردینا جائز ہے۔ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک عمل اور کتبِ فقہ کی صراحت سے پچھنے کی اُجرت کا جواز ثابت ہے۔ البتہ حجامہ کو بطورِ پیشہ اپنانا، شرعاً مرغوب نہیں ہے۔
شرح معانی الآثار میں ہے :”عن عبد اللہ بن العباس انه قال: احتجم رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم واعطى الحجام اجره فی ذلك“یعنی:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجامہ کروایا اور حجام کو اس کے کام کی اجرت عطا فرمائی۔
( شرح معانی الآثار،5/129)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں: ”حجامت یعنی پچھنے لگوانا، جائز ہے اور پچھنے کی اُجرت دینا لینا بھی جائز ہے پچھنے لگانے والے کے ليے وہ اُجرت حلال ہے اگرچہ اُس کو خون نکالنا پڑتا ہے اور کبھی خون سے آلودہ بھی ہوجاتا ہے مگر چونکہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے خود پچھنے لگوائے اور لگانے والے کو اُجرت بھی دی معلوم ہواکہ اس اُجرت میں خباثت نہیں۔“
(بہارشریعت،3/144)
فنائے مسجد میں نجاست سے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:’’فصیلِ مسجد بعض باتوں میں حکمِ مسجد میں ہے معتکف بلا ضرورت اس پر جا سکتا ہے اس پر تھوکنے یا ناک صاف کرنے یا نجاست ڈالنے کی اجازت نہیں۔“
(فتاوی رضویہ،16/495)
بہارِ شریعت میں ہے: ”مسجد میں نجاست لے کر جانا، اگرچہ اس سے مسجد آلودہ نہ ہو، یا جس کے بدن پر نجاست لگی ہو، اس کو مسجد میں جانا منع ہے۔“
(بہارِ شریعت،1/645)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)امانت رکھوائی ہوئی رقم سے کاروبار کرنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی نےاپنی رقم میرے پاس حفاظت کرنے کے لئے رکھوائی ہو اور اسے استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو تو کیا میں اس امانت کی رقم سے پرائز بانڈ خرید سکتا ہوں یا کسی کاروبار میں انویسٹ کرسکتا ہوں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کا امانت کی رقم سے پرائز بانڈ خریدنایا کسی بھی کاروبار میں اِس رقم کو انویسٹ کرنا ناجائز و حرام ہےاور ایسا کرنے کی صورت میں آپ پر اس رقم کا تاوان دینا لازم ہوگا۔
اس مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حفاظت کرنے کے لئے جو رقم رکھوائی جائے شرعی اصطلاح میں اسے ودیعت کہتے ہیں، اورودیعت کا حکم یہ ہے کہ مودع (جس کے پاس امانت رکھوائی جائے اس) پر اُس کی حفاظت واجب ہوجاتی ہے، اور اگر مودع امانت کوخود تعدی یعنی غفلت و کوتاہی سے ہلاک کر دے تو وہ غاصب کہلاتا ہےاور وہ چیزیعنی امانت اب غصب کے حکم میں ہوجاتی ہےجس کا تاوان دینا اُس غاصب یعنی مودع پر لازم ہوتا ہے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں بھی اگر آپ امانت کی رقم سے پرائز بانڈ خرید لیتے ہیں یا پھر اس رقم کو کاروبار میں انویسٹ کرتے ہیں تو آپ غاصب کہلائیں گے اور وہ رقم غصب شدہ ہوگی جس کا تاوان دینا آپ پر لازم ہوگا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ”ہندہ نے اپنا روپیہ اس کے پاس جمع کیا تھا تو یہ قرض نہ تھا ودیعت تھا اس وقت تک زید اگر بطور خود اسے کچھ دیتا رہا تو وہ نہ قرض کا نفع تھا نہ کسی عقد معاوضہ میں زیادتی، لہٰذا سود نہیں ہوسکتا تھا بلکہ زید کی طرف سے ایک تبرع واحسان تھا، اب کہ زید نے بلااجازتِ ہندہ اسے تجارت میں لگا دیا تو زید غاصب ہوگیا اس پر تاوان آیا۔
“(فتاوی رضویہ،19/165)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments