روشن ستارے
فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کی اشک باری
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء
جانشینِ پیغمبر، وزیر و مُشیرِ رسولِ اکرم، امامُ العادِلِین، غَیظُ المنافقین، خلیفۃُ المسلمین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ پر 26ذوالحجہ 23ھ کو ایک مجوسی نے فجر کی نماز میں قاتلانہ حملہ کیا، آپ تین دن زخمی حالت میں رہے اور آخر کار جامِ شہادت نوش کرکے پہلی محرّم کو روضۂ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں مدفون ہوئے، آپ کی شہادت پر جہاں انسان پُرنَم ہوئے وہیں جنّات بھی روئے حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: فاروقِ اعظم کی شہادت سے تین دن پہلے جنّوں نے آپ پر رونا شروع کردیا تھا،([1]) فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ اپنے پہلو میں نرم دل بھی رکھتے تھے جہاں دوسروں کی آنکھ سے آنسو پوچھتے تھے وہیں اپنی آنکھ میں آنسو بھرلاتے، آئیے! فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کی اَشک باری کے کچھ واقعات پڑھیے۔
میں کسی اور چیز کا مالک نہیں:
ایک دیہاتی نے اپنے گھر والوں کےلیے فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ سے کپڑے مانگے، فاروقِ اعظم نے فرمایا: اگر میں کپڑے نہ دوں تو کیا ہوگا؟ اس نے کہا: پھر میں ابوحفص (فاروقِ اعظم) کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا، فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: تم مجھے لے جاؤگے تو کیا ہوگا؟ اس نے شعر پڑھا: آپ سے میرے بارے میں ضَرور پوچھا جائے گا اور جس سے کسی کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ وہاں یوں کھڑا ہوگا کہ جنّت کی طرف جائے گا یا جہنّم کی طرف بھیجا جائے گا۔ فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ یہ شعر سُن کر روتے رہے یہاں تک کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تَر ہوگئی، پھر غلام سے فرمایا: اس شعر کی وجہ سے نہیں (بلکہ قیامت کے) اس دن کی وجہ سے اس دیہاتی کو میری یہ قمیص دے دو، اللہ کی قسم! (اس وقت) میں کسی اور چیز کا مالک نہیں ہوں۔([2])
دولت کا انبار دیکھ کر آنسو چھلک پڑے:
فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کے پاس ایران کے بادشاہ کسریٰ کا خزانہ لایا گیا تو کسی نے پوچھا: جب تک یہ خزانہ تقسیم نہ ہوجائے کیا (حفاظت کی غرض سے) آپ اسے بیتُ المال میں رکھیں گے؟ فرمایا: خُدا کی قسم! جب تک کوئی حکم جاری نہ کردوں اس خزانے کو گھر کی چھت پر بھی نہیں رکھوں گا۔ آخر کار فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے اس خزانے کو مسجد کے درمیان میں رکھ دیا اور رات نگرانی کے لیے کچھ پہرےدار مقرّر کردئیے، صبح ہوئی اور خزانے کو کھولا گیا تو اس میں سُرخ اور سفید موتی جھلملا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ رونے لگے، عرض کی گئی: اے مسلمانوں کے امیر! آپ کیوں رو رہے ہیں؟اللہ کی قسم! یہ تو شکر کی گھڑی ہے اور خوشی کا دن ہے۔ فاروقِ اعظم نے فرمایا: ہائے افسوس! یہ مال و دولت جس قوم کو دی جاتی ہے ان کے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دیا جاتا ہے، پھر اس خزانے کو تقسیم کردیا۔([3])
دکھ اور خوشی کے آنسو:
حضرت اُمَیّہ بن اَشکر رضی اللہُ عنہ (طائف کے) ایک بُز ُرگ شاعر اور صَحابیِ رسول تھے ان کے ایک بیٹے حضرت کلاب رضی اللہُ عنہ تھے جو فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کے زمانے میں ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور کچھ عرصہ وہیں رہے، پھر ایک دن اپنا نام غازیوں میں لکھوادیا، فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے ان سے کچھ معلومات لیں اور انہیں لشکر کے ساتھ روانہ کر دیا۔ جب بیٹے کی غیر موجودگی طول پکڑ گئی توحضرت اُمیہ رضی اللہُ عنہ نے کچھ اشعار کہے: ایک شعر کا ترجمہ یہ تھا: تم نے اپنے باپ کو اس حال میں چھوڑا کہ اس کے دونوں ہاتھوں پر رَعشہ طاری ہے... اوراپنی ماں کو یوں چھوڑا کہ وہ اپنے حلق سے پانی بھی نہ اتار پائے۔ جب بیٹے کو کافی دن گزر گئے تو ایک دن(طائف سے چل کر) خود مدینے پہنچ گئے، فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ اس وقت مہاجرین و انصار صحابہ رضی اللہُ عنہم کے ساتھ مسجِد میں جلوہ فرما تھے حضرت اُمیہ وہاں کھڑے ہوگئے اور کچھ اشعار کہے: ایک شعر یہ تھا ”اگر غم کی شدّت دل کو پھاڑ دیتی تو پھٹنے کے سبب ضرور میرے دل کی سیاہی پگھل جاتی“ اشعار سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے پھر خط لکھ کر حضرت کلاب رضی اللہُ عنہ کو مدینے بلوالیا، جب وہ مدینے پہنچے تو فاروقِ اعظم نے ان سے پوچھا: تمہارا اپنے والد کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ کتنا رہا ہے؟ حضرت کلاب نے عرض کی: میں نے انہیں ترجیح دی اور کاموں میں ان کو بےپرواہ کردیا، جب انہیں دودھ پلانا چاہتا تو ان کی اونٹنیوں میں سے سب سے زیادہ دودھ دینے والی اُونٹی لیتا، اسے (کھلا پلا کر) موٹا کرتا اس سے کوئی کام کاج نہ لیتا یہاں تک کہ وہ پرسُکون ہوجاتی پھر اس کے کُھروں کو دھوتا اور دودھ نکال کر والد صاحب کو پلاتا۔ پھر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے والد صاحب کو بلوایا، والد صاحب سہارا لے کر چل رہے تھےنگاہ کمزور اور کمر جھک چکی تھی فاروق اعظم نے پوچھا: اے ابو کلاب کیسے ہو؟ جواب دیا: جیسا آپ دیکھ رہے ہیں ویسا ہی ہوں، پھر پوچھا: تمہیں کچھ چاہیے؟ عرض کی: میں مرنے سے پہلے کلاب کو دیکھنا چاہتا ہوں اسے سونگھنے اور گلے لگانے کی چاہت ہے۔ یہ سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا: اگر اللہ نے چاہا تو تمہاری خواہش پوری ہوجائے گی پھر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے حضرت کلاب کو حکم دیا تو وہ اپنے والد کے لیے اونٹنی کا دودھ اسی طرح نکال کر لائے جس طرح وہ پہلے لایا کرتے تھے۔ فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے برتن والدصاحب کو دے دیا اور فرمایا: اے ابو کلاب! اسے پی لو، والد صاحب نے جیسے ہی برتن منہ کے قریب کیا تو کہنے لگے: اللہ کی قسم! اس برتن سے کلاب کے ہاتھوں کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ دوبارہ رونے لگے پھر فرمایا: یہ رہا تمہارا بیٹا! ہم اسے تمہارے پاس لے آئے ہیں، والد صاحب فوراً کھڑے ہوئے اور بیٹے کو سینے سے لگالیا اور بوسے لینے لگے، یہ منظر دیکھ کر فاروقِ اعظم اور وہاں موجود لوگوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی پھر فاروقِ اعظم نے حضرت کلاب کو تُحفے تحائف دئیے اور والدین کے ساتھ رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے گھر لوٹ جانے کا حکم دیا، حضرت کلاب رضی اللہُ عنہ نے والدین کے اس دنیا سے رُخصت ہونے تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ([4])
یادِ مصطفےٰ میں آنسو بہہ نکلے:
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری وصال کے بعد ایک مرتبہ فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ یادِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بے قرار ہوکر رونے لگے اور یہ کہنے لگے: یارسولَ اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! ايك درخت کا تَنا تھا جس سے آپ ٹیک لگا کر لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے جب لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو آپ نے منبر بنا لیا تاکہ آپ (اس پر بیٹھ کر) وَعظ ونصیحت کرسکیں، تو وہ لکڑی کا تَنا آپ کی جدائی میں آواز سے رونے لگایہاں تک کہ آپ نے اپنا ہاتھ تسکین کی خاطر اسی تَنے پر رکھا تو وہ چپ ہوگیا، یہ تَنا لکڑی کا ہوکر آپ کی جدائی میں رو پڑا اور اب آپ اپنی اُمّت سے جدا ہوچکے ہیں آپ کی اُمّت اس تنے سے بھی زیادہ آپ کی شفقت کی حقدار ہے۔([5])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی

Comments