درس کتاب زندگی
بوڑھے باپ کی پُکار
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2025ء
اسلام نے جہاں دیگررشتوں کے تقدس،احترام اور اہمیت کو بیان کیا ہے وہیں والدین کو انسان کی جنت اور دوزخ قرار دیا،ابنِ ماجہ شریف میں ہے:ھُمَا جَنَّتُکَ وَنَارُکَ ماں باپ تیری جنت اور تیری دوزخ ہیں ([1])ان سے حسنِ سلوک کی تاکید سورۂ بنی اسرائیل میں ہے :
(وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔([2])
ماں اور باپ کی اہمیت کو الگ الگ بھی بیان کیا۔باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا،فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:
اَلْوَالِدُ اَوْسَطُ اَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَاِنْ شِئْتَ فَاَضِعْ ذٰلِکَ الْبَابَ اَوِ احْفَظْہ ترجمہ: والد جنت کے سب دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے خواہ محفوظ رکھے۔([3])اس کی دعا کو مقبولیت کی سند بخشی، چنانچہ ابنِ ماجہ شریف کی حدیثِ پاک ہے: تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی اپنی اولاد کے لیے دعا۔([4])حدیثِ پاک میں باپ کی فرمانبرداری کو اللہ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کو اللہ کی نافرمانی اور اس کی رضا کو اللہ پاک کی رضا قرار دیا، ایک حدیث شریف میں ہے :
طَاعَۃُ اللہِ طَاعَۃُ الْوَالِدِ وَمَعْصِیَۃُ اللہِ مَعْصِیَۃُ الْوَالِدِ ترجمہ: والد کی اطاعت ہے اللہ پاک کی اطاعت اور والد کی معصیت ہے اللہ پاک کی معصیت ہے۔([5])دوسری حدیث شریف میں ہے:رِضَاءُ اللہ فِيْ رِضَاءِ الْوَالِدِ وَسَخَطُ اللہ فِيْ سَخَطِ الْوَالِدِ یعنی اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں۔ ([6])
باپ اپنی اولاد پر تن من دھن وار دیتا ہے۔انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے،انہیں زمانے کی سختیوں سے بچاتا ہے۔ ان کی کامیابیوں پر خوش ہوتا ہے۔ اپنےخون پسینے کی کمائی کا زیادہ حصہ اپنی ذات پر نہیں اولاد پر خرچ کرتا ہے۔اپنی خواہشوں کو دبا کر اولاد کی خواہشیں پوری کرتا ہے۔باپ اپنی اولاد کے لیے اے ٹی ایم کی طرح ہوتا ہے وہ جب چاہیں اس سے اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق رقم نکال لیتے ہیں۔باپ کی چیزوں کو اولاد اپنی چیز سمجھتی ہے یہ ان کا احساسِ ملکیت ہوتا ہے۔باپ کی دولت نہیں سایہ ہی کافی ہوتا ہے جو انسان کو گرنے نہیں دیتا۔کسی نے کہا ہے کہ نصیب اگر بازار میں ملتا تو پہلا خریدار باپ ہوتا۔
باپ روٹی ہے کپڑا ہے اور مکان ہے
باپ اپنے چھوٹے بچوں کا بڑا آسمان ہے
باپ ہے تو سارے خواب اپنے ہیں
باپ ہے تو بازار کے سارے کھلونے اپنے ہیں
ہر انسان کی طرح جوانی ڈھلنے پر بڑھاپا باپ پر بھی آتا ہے۔ بڑھاپا امیر غریب پر یکساں اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بیماریاں،کمزوریاں اور لاچاریاں بڑھاپے کا حصہ ہوتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتاچلا جاتا ہے۔پھر ایک وقت وہ آتا ہے بچے اور بوڑھے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ایسے میں سعادت مند اولاد بڑھاپے میں باپ کی خدمت کرتی ہے اور کچھ لوگ باپ کے بوڑھے ہونے پر بے حس ہوجاتے ہیں اور اسے کاٹھ کباڑ کی طرح گھر کے کونے میں ڈال دیتے ہیں۔ہمیں چاہئے کہ بوڑھے باپ کے دل کی اس صدا کو سنیں اور جہاں جہاں ہماری کوتاہی ہے اسے دور کریں۔
دل کی پکار
میرے بچو! اللہ پاک تمہیں خوش وخرم رکھے،آفتوں سے محفوظ رکھے،خوب پھلو پھولو۔ میرے بچو ! اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ آج جی بھر آیا تو سوچا کہ تم تک اپنے دل کی صدا پہنچاؤں۔میری ہڈیاں کمزور ہوگئیں، چہرے پر جھریاں پڑ گئیں،کمر خم ہوگئی،زبان میں لکنت آگئی،قوتِ سماعت کمزور ہوگئی، بینائی دھندلا گئی۔باتوں میں ربط نہ رہا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو گئی۔ میں جلدی اسٹریس اور ٹینشن کا شکار ہوجاتا ہوں۔ گرمی سردی کی شدت مجھے اب پہلے سے زیادہ پریشان کردیتی ہے۔ میری خوشیوں اور دلچسپیوں کے مواقع محدود ہوگئے۔لیکن میرے دل میں تمہاری محبت جوان ہے۔میں تمہاری جوانی کو اپنے بڑھاپے کے ساتھ نہیں باندھنا چاہتا لیکن بڑھاپے سے مجبور ہوکر تم سے کچھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں کوئی بات سمجھ نہ آنے پر بار بار پوچھوں تو تم اسی نرمی کے ساتھ مجھے بار بار سمجھا سکتے ہو جس طرح میں تمہارے بچپنے میں ایک ہی سوال بار بار پوچھنے پر شفقت سے جواب دیا کرتا تھا، جب میں چلنے میں لڑکھڑانے لگوں تو تم اسی طرح مجھے سہارا دے سکتے ہو جس طرح میں تمہاری انگلی پکڑ کر چلایا کرتا تھا،جب میں کوئی بات نہ سمجھا پاؤں کیا تم مجھ سے اسی پیار سے پیش آسکتے ہو جس طرح میں تمہاری توتلی زبان کو بار بار سن لیا کرتا تھا،کیا تم میری بیماری پر فکر مند ہوکر خود میرا علاج کروانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے جاسکتے ہو جس طرح میں تمہارے بیمار ہونے پر فکر مند ہوکر اسپتال لے جایا کرتا تھا۔تم گھر پر ہوتے ہوئے کچھ دیر کے لیے سہی میرے پاس بیٹھ سکتے ہو جس طرح میں تمہیں اپنے ساتھ ساتھ رکھا کرتا تھا۔میرے بچو!تم مجھے اپنی ہرخوشی میں شریک کرسکتے ہو جس طرح میری خوشیوں کا محور تم تھے۔مجھے تم سے زیادہ نہیں صرف توجہ اوردو میٹھے بول چاہئیں میرا بڑھاپا آسان ہوجائے گا۔(فقط تمہارا بوڑھا باپ )
قارئین! باپ کی تعظیم اور خدمت ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔باپ کے احسانات کا بدلہ چکانا بہت دشوار ہے لیکن فی زمانہ دینی تعلیمات پر عمل میں کمزوری کا ایک نتیجہ باپ کی خدمت سے غفلت کی صورت میں نکلتا ہے۔ایسی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ شدید افسوس ہوتا ہے،بطور نمونہ چند خبریں پڑھیے سنیے:٭ کراچی میں ایک شخص نےاپنے 80 سالہ بوڑھے باپ کو گالم گلوچ اور مارپیٹ کر کے انہیں گھر سے نکال دیا۔([7])٭پنجاب کے ایک شہر میں بیٹوں نےجائیداد نام کروانےکے لیے بوڑھے باپ پر تشدد کرنے کے بعد گھر سے نکال دیا۔([8])٭پنجاب کے ایک شہر میں معمولی ڈانٹ ڈپٹ پر 3بیٹوں نے تشدد کے بعد گلا دبا کربوڑھے باپ کو قتل کردیا۔ 70سالہ ریٹائرڈ شخص نے تینوں بیٹوں کو کام کاج نہ کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کی،جس پر تینوں نے مشتعل ہوکر باپ کو جان سے مار ڈالا۔([9])٭بدبخت بیٹوں نے جائیداد کی خاطر سرِعام روڈ پر فائرنگ کرکے اپنے 60 سال کے بوڑھے باپ کو قتل کردیا۔ والد کو گولیاں مارنے کے بعد دونوں بھائی موقع سے فرار ہوگئے۔([10])
دوسری طرف ماں باپ کے خدمت گزاروں کی بھی کمی نہیں۔ان کے گھر میں آج بھی باپ کی حیثیت بادشاہ کی سی ہوتی ہے۔ایک ایسا جوان بیٹا بھی سامنے آیا جو اپنی ساری آمدنی باپ کے اکاؤنٹ میں ڈلواتا ہے پھر گھر کا خرچ بلکہ اپنی جیب خرچی بھی والد صاحب سے اسی طرح لیتا ہے جس طرح کمانے سے پہلے لیتا تھا۔
بوڑھے ماں باپ یا کسی ایک کی خدمت جنت میں داخلے کا وسیلہ ہے فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو! صحابہ نے پوچھا: کس کی یا رسول اللہ؟ فرمایا: ”جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا، ان میں سے ایک یا دونوں کو، اور پھر وہ (خدمت کر کے) جنت میں نہ جا سکا۔“([11])
ہمیں چاہیے کہ بوڑھے باپ یا ماں کی خدمت بوجھ نہیں سعادت سمجھ کر کریں اور جنت کے مستحق بنیں۔اللہ پاک ہمیں والدین کی نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی

Comments