Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Al Isra Ayat 29 Translation Tafseer

رکوعاتہا 12
سورۃ ﰋ
اٰیاتہا 111

Tarteeb e Nuzool:(50) Tarteeb e Tilawat:(17) Mushtamil e Para:(15) Total Aayaat:(111)
Total Ruku:(12) Total Words:(1744) Total Letters:(6554)
29

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(29)
ترجمہ: کنزالایمان
اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا


تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو۔} اس آیت میں  خرچ کرنے میں  اِعتدال کو ملحوظ رکھنے کا فرمایا گیا ہے اور اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا کہ  نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور یہ معلو م ہو گویا کہ ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے اور دینے کے لئے ہل ہی نہیں  سکتا ، ایسا کرنا تو سبب ِملامت ہوتا ہے کہ بخیل کنجوس کو سب لوگ برا کہتے ہیں  اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے کہ اس صورت میں  آدمی کو پریشان ہوکر بیٹھنا پڑتا ہے۔ اِس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں  یہ روایت ہے کہ ایک مسلمان عورت کے سامنے ایک یہودیہ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سخاوت کا بیان کیا اور اس میں  اس حد تک مُبالغہ کیا کہ حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ترجیح دیدی اور کہا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سخاوت اس اِنتہا پر پہنچی ہوئی تھی کہ اپنی ضروریات کے علاوہ جو کچھ بھی اُن کے پاس ہوتا سائل کو دے دینے سے دریغ نہ فرماتے ،یہ بات مسلمان خاتون کو ناگوار گزری اور اُنہوں  نے کہا کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب صاحبِ فضل و کمال ہیں  حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جودونَوال میں  کچھ شُبہ نہیں  لیکن ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرتبہ سب سے اعلیٰ ہے اور یہ کہہ کر اُنہوں  نے چاہا کہ یہود یہ کو سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جودو کرم کی آزمائش کرا دی جائے چنانچہ انہوں  نے اپنی چھوٹی بچی کو حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  اس لئے بھیجا کہ ان سے قمیص مانگ لائے اُس وقت حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ایک ہی قمیص تھی جو زیب ِتن تھی، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہی اُتار کر عطا فرمادی اور اپنے دولت سرائے اقدس میں  تشریف رکھی، شرم سے باہر تشریف نہ لائے یہاں  تک کہ اذان کا وقت آیا ،اذان ہوئی صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے انتظار کیا ،حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف نہ لائے تو سب کو فکر ہوئی ۔ حال معلوم کرنے کے لئے دولت سرائے اقدس میں  حاضر ہوئے تو دیکھا کہ جسم مبارک پر قمیص نہیں  ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( روح البیان، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۹، ۵ / ۱۵۱-۱۵۲، خزائن العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۲۹، ص۵۳۱، ملتقطاً)

          نوٹ:یاد رہے کہ اس آیت میں  خطاب اگرچہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن مراد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت ہے۔

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links