Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Al Araf Ayat 188 Translation Tafseer

رکوعاتہا 24
سورۃ ﷳ
اٰیاتہا 206

Tarteeb e Nuzool:(39) Tarteeb e Tilawat:(7) Mushtamil e Para:(08-09) Total Aayaat:(206)
Total Ruku:(24) Total Words:(3707) Total Letters:(14207)
188

قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِۚۛ-وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُۚۛ-اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(188)
ترجمہ: کنزالایمان
تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے بُرے کا خود مختار نہیں مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں


تفسیر: ‎صراط الجنان

{قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:تم فرماؤ، میں اپنی جان کے نفع اور نقصان کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے ۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کمال درجے کی عاجزی، عظمت ِ الہٰی اور عقیدہ ِ توحید کے اظہار کا حکم فرمایا گیا کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جو قدرت و اختیار اور علم ہے خواہ اپنی ذات کے متعلق یا دوسروں کے بارے میں ، یونہی دنیاوی چیزوں کے بارے میں یا قیامت، آخرت اور جنت کے بارے میں وہ تمام کا تمام اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے ہے لہٰذا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اَوّلِین و آخرین سے افضل ہونا، دنیا و آخرت کے اُمور میں تَصَرُّف فرمانا، صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو شفا عطا فرمانا بلکہ جنت عطا فرمانا، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کرنا وغیرہا جتنی چیزیں ہیں سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے چاہنے سے ہیں۔

{وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ:اور اگر میں غیب جان لیا کرتا۔} اس آیتِ مبارکہ میں علمِ غیب کی نفی کی علماء ِکرام نے مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ، ان میں سے چار توجیہات درج ذیل ہیں جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    کے  علوم کے بیان پر مشتمل اپنی لاجواب کتاب’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنَ تِبْیَانٌ لِّکُلِّ شَیْءٍ‘‘(اللہ تعالیٰ کا کلام قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے) میں بیان فرمایا ہے۔

(1)…اس آیت میں علمِ عطائی کی نفی نہیں بلکہ علمِ ذاتی کی نفی ہے ۔

امام قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو  غُیوب پر مُطّلع فرمایا اور آئندہ ہونے والے واقعات سے با خبر کیا۔ اس باب میں احادیث کا وہ بحرِ ذَخّار ہے کہ کوئی اس کی گہرائی جان ہی نہیں سکتا اور نہ ا س کا پانی ختم ہوتا ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے  معجزات میں سے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو یقین اور وُثوق سے معلوم ہے اور ہم تک ا س کی خبریں مُتواتِر طریقے سے کثرت سے پہنچی ہیں اور غیب پر اطلاع ہونے پر اِن احادیث کے معانی و مطالب آپس میں متحد ہیں۔ (شفاء شریف، فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ص۳۳۵-۳۳۶، الجزء الاول)

علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے  ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ  اللہ  تعالیٰ  کے  بتانے سے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا  غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور  اس  کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔

’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘ (جن۲۶، ۲۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ،  فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴ / ۱۴۹)

(2)…یہ کلام ادب و تواضع کے طور پر ہے۔

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے  یہ کلام تواضع اور ادب کے طور پر فرمایا ہو اور مطلب یہ ہے کہ میں غیب نہیں جانتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی مجھے اطلاع دی اور جو میرے لئے مقرر فرمایا میں صرف اسی کو جانتا ہوں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)

(3)…اس آیت میں فی الحال غیب جاننے کی نفی ہے مستقبل میں نہ جاننے پر دلیل نہیں ہے۔

            علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے  غیب پر مطلع ہونے سے پہلے یہ کلام فرمایا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علمِ غیب کی اطلاع دی تو حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  اس  کی خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(جن:۲۶، ۲۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)

(4)…یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا۔

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا، پھر ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اَشیاء کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر  ظاہر کیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی خبر دی تاکہ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا معجزہ اور آپ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی  نبوت صحیح ہونے پر دلیل بن جائے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)

{لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ:تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا۔} اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہوکیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی ،تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ۔بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین ! تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی۔(خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۳۳۰)

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links