Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Maryam Ayat 14 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(44) | Tarteeb e Tilawat:(19) | Mushtamil e Para:(16) | Total Aayaat:(98) |
Total Ruku:(6) | Total Words:(1085) | Total Letters:(3863) |
{وَ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ:اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والاتھا۔} اس آیت میں حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مزید3صفات بیان کی گئی ہیں ۔
(1)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کرکوئی طاعت نہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کایہ قول دلالت کرتاہے:
’’وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا‘‘(بنی اسرائیل۲۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
(2،3)… آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تکبرکرنے والے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان نہیں بلکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عاجزی وانکساری کرنے والے اوراپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کرنے والے تھے ۔یہاں جَبّارکے معنی متکبر کے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جَبّار وہ شخص ہوتاہے جوغصہ میں مارے اور قتل کرے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: ۱۴، ۳ / ۲۳۰)
لفظِ’’جَبّار‘‘ کے مختلف معنی:
یاد رہے کہ جبار کا لفظ جب مخلوق کیلئے آئے تو اس کا معنی متکبر ہوتا ہے اور اگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے آئے جیسے جبار اس کی صفت ہے تو اس کا معنی بالکل مختلف ہوتا ہے، جیسے ایک معنی ہے: وہ ذات جو اپنی مخلوق پر عالی ہے۔ دوسرا معنی ہے: وہ جو معاملات کو سدھار دیتا ہے ۔ تیسرا معنی ہے: وہ جو اپنے ارادے میں غالب ہے۔ چوتھا معنی ہے: وہ کہ جس کی سلطنت میں اس کے حکم کے سوا کسی کا حکم نہ چل سکے۔ یہ سب معانی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے شایانِ شان ہیں ۔
تکبر سے بچنے کی فضیلت اور عاجزی کے فضائل:
یہاں آیت میں بیان ہوا کہ حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تکبر کرنے والے نہیں تھے، اس مناسبت سے تکبر سے بچنے کی فضیلت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اس حال میں مَرا کہ وہ تین چیزوں سے بَری تھا: تکبر، خیانت اور دَین (قرض)،تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔( ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغلول، ۳ / ۲۰۸، الحدیث: ۱۵۷۸) نیز عاجزی کے فضائل پر مشتمل 3اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت
قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری طرف وحی فرمائی کہ تم لوگ اتنی عاجزی اختیار کرو یہاں تک کہ تم میں
سے کوئی کسی پرنہ فخر کرے نہ کسی پر ظلم
کرے۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی
الدنیا اہل الجنّۃ واہل النار، ص۱۵۳۳، الحدیث: ۶۴(۲۸۶۵))
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ بندے کے دوسروں کو معاف کردینے کی وجہ سے اس کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے اور جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے ۔( مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۶۹(۲۵۸۸))
(3)… حضرت رَکْب مصری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’خوشخبری ہے اس کے لئے جوعیب نہ ہونے کے باوجود تواضع اختیار کرے ،اورمسکینی کے بغیر خود کوذلیل سمجھے ،اور اپنا جمع کیا ہوا مال نیک کاموں میں خرچ کرے ، اور بے سروسامان اور مسکین لوگوں پررحم کرے اور علم وحکمت والے لوگوں سے میل جول رکھے ، اور خوش بختی ہے اس کے لئے جس کی کمائی پاکیزہ ہو، باطن اچھا ہو، ظاہر بزرگی والا ہو اور جو لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے ،اور سعادت مندی ہے اس کے لئے جواپنے علم پرعمل کرے ، اپنی ضرورت سے زائد مال کوراہِ خدا میں خرچ کرے اور فضول گوئی سے رک جائے۔( معجم الکبیر، باب الراء، رکب المصری، ۵ / ۷۱، الحدیث: ۴۶۱۶) اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر سے بچنے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
[1] …تکبر سے بچنے اور عاجزی کے
فضائل اور دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’تکبر‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا
مطالعہ فرمائیں ۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.