بیٹیوں میں خود اعتمادی کیسے پیدا کریں؟


بیٹیوں میں خود اعتمادی کیسے پیدا کریں؟

خود اعتمادی (Self-confidence) ایک ایسی ذہنی کیفیّت اور اخلاقی وَصف ہے جس میں انسان کو اپنی ذات، صلاحیتوں، اور فیصلوں پر یقین اور بھروسہ ہوتا ہے۔ یہ وصف نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ کامیاب زندگی گُزارنے کے لیے ضَروری بھی ہے۔ خود اعتمادی کا مطلب ہے: ”اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا، ان پر بھروسہ اور اللہ پر توکّل کے ساتھ عمل کرنا“۔ ہم اپنے بارے میں کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں  یہ سوچ اور احساس ہی ایک انسان کو اپنی ذات پر اعتماد دیتے ہیں یا احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں۔ خود اعتمادی پر باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن عموماً اس کے مطلب اور مفہوم کو نظر انداز کر کے خصوصاً بچّوں کے تناظر (Perspective) میں اس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے۔  بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں وہ دوسروں کے الفاظ اور رویوں سے اپنے بارے میں رائے بنانا شروع کر دیتے ہیں، اَہم بات یہ ہے کہ والدین کے الفاظ اور رویّے بچّوں کی رائے بنانے میں سب سے زیادہ مؤَثّر ہوتے ہیں۔یہ والدین پر منحصر ہے کہ اپنے بچے کو خود اعتمادی جیسی اَہم صفت پیدا کرنے میں کیسے مددکرتے ہیں یا انہیں احساسِ کمتری میں مبتلا شخصیت بنانے کا کام کرتے ہیں۔ خود اعتمادی بچّوں کے رویّے، ان کی ذاتی توانائی اور ہم عمر بچّوں کے پریشر کا سامنا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کے سیکھنے، نئی اور اصل چیزیں پیدا کرنے کی صلاحیّت اور جسمانی نشوونما کے لیے بھی اہم ہے۔ آج کے مادی اور ظاہری چمک دمک والے دَور میں بچّوں، بالخصوص بیٹیوں کو اپنی اصل قدر و قیمت کا شُعور دینا ضَروری ہے۔اسلامی تعلیمات اور جدید نفسیاتی اصولوں کو ملا کر ہم ایک ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں بیٹیاں نہ صرف خود کو باوقار سمجھیں بلکہ اعتماد کے ساتھ دنیا کا سامنا بھی کریں۔    بیٹی کو یہ احساس دلائیں کہ وہ اللہ کی عزّت یافتہ مخلوق ہے ۔ *نَماز، دُعا اور ذِکْر سے دل کو سُکون ملتا ہے، جو اندرونی اعتماد کو مضبوط کرتا ہے۔ ہروَقْت باوُضو رہنے کی عادت سے جہاں دیگر بے شمار فوائد وبَرکات حاصل ہوتے ہیں و ہیں اِحساسِ کمتری سے بھی نجات ملتی ہے۔ (حافظہ کیسے مضبوط ہو؟ ص96) *بچوں کو یہ سکھائیں کہ کامیابی صرف پیسے یا شہرت کا نام نہیں، بلکہ علم، اخلاق اور خدمتِ خلق بھی کامیابی ہے۔ *بیٹیوں کو ایسی خواتین کی مثالیں دیں جنہوں نے حصولِ علمِ دین اور خدمتِ دین کے ذریعے مقام حاصل کیا۔ جیسے حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہن  و دیگر صحابیات و ولیات یا موجودہ دور کی باوقار مسلمان خواتین۔  * گھر میں ایسا مثبت ماحول بنائیں جہاں بیٹی کی بات کو اہمیّت دی جائے ،وہ کسی خوف کے بغیر اپنی بات کُھل کر کرسکے، چاہےاپنی پریشانی ہو یا کوئی بھی مسئلہ ہو وہ بااعتماد انداز سے آپ سے شئیر کرے۔ عموماً اس چیز میں کمی دیکھی گئی ہے اور بچیوں کو گھر سے باہر کوئی پریشان یا ہراساں کررہا ہوتا ہے تو بچیاں اپنے اعتماد کی کمی یا گھروالوں کے منفی ردِ عمل سے گھبرا کر کچھ نہیں بتاتیں اور مسئلہ اُلجھتا ہوا اس بچی کی زندَگی تباہی کے دہانے لے جاتا ہے ۔*ان کے ساتھ حقیقی دلچسپی کا اظہار کریں، مثلاً گھر کے مختلف مسائل میں رائے پوچھیں، ان کی رائے کا احترام کریں،ان کے نظریے سے سوچ کر دیکھیے اگر اس رائے میں کوئی خرابی ہو تو اس سے بھی انہیں آگاہ کریں تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے ان کی رائے کیسے درست ہوسکتی ہے کہاں کیا غَلَطی ہورہی ہے۔اختلافِ رائے ضرور ہو مخالفت نہ ہو، ان پر اپنا حکم تھوپنے کے بجائے انہیں دو یا زائد آپشن دیں۔ *بچوں کو اپنی مثبت خاندانی روایات (جو شریعت سے نہ ٹکراتی ہوں) سے جوڑیں تاکہ وہ اپنی ذات کو مضبوط اور قابل فخر سمجھ سکیں، یاد رکھیں کہ بچّوں کی انفرادیت کو تسلیم کرنا اور انہیں احترام دینا، انہیں دوسروں کی ترجیحات کا احترام کرنا بھی سکھائے گا۔ * بیٹی کو دوسروں سے موازنہ کرنے سے روکیں اور خود بھی ان کا کسی سے موازنہ نہ کریں کہ ایسے اُن میں خود اعتمادی ختم اور کمتری اور حسد جیسی خرابیاں زیادہ پیدا ہونے لگتی ہیں۔ انہیں سکھائیں کہ ہر انسان منفرد ہے اور اِن کی خوبیوں کا انداز الگ ہے۔ * ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں: ان کی چھوٹی بڑی کامیابیوں پرخوشی منائیں اور ان کی خوبیوں کو پہچان کر ان کی تعریف کریں۔ *سوشل میڈیا کے اثرات سے بچانے کے لیے تربیت دیں کہ آن لائن دنیا اکثر مصنوعی ہوتی ہے۔ *بیٹی کو یہ سکھائیں کہ غلطی کرنا کمزوری نہیں، بلکہ سیکھنے کا موقع ہے۔ *اپنی زندَگی کی چھوٹی ناکامیوں کو اس کے ساتھ شیئر کریں تاکہ وہ جان سکے کہ ہر انسان سیکھتا ہے۔ * انہیں تعلیم اور مختلف ہنر سکھائیں،آرٹ، ڈیزائن، کوکنگ یا تحریر جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکے، تاکہ وہ خود کو مضبوط اور قابل محسوس کریں۔ *تعریفی جملے روزمرہ گفتگو میں شامل کریں:”آپ سمجھدار ہیں“، ”اللہ نے آپ کو خاص بنایا ہے“۔ *انہیں اپنے کام خود کرنے کی ترغیب دیں، صحّت کا خیال رکھنا سکھائیں، تاکہ وہ خود کو قدر کی نگاہ سے دیکھ سکیں۔ * بچّوں سے محبّت کا اظہار کریں چاہے لفظوں کی لڑی کی صورت میں ہو یا  سر تھپ تھپانے سے، یہ بچّوں میں خود اعتمادی کے لیے بے حَد ضَروری ہے۔

خود اعتمادی کی علامات:

* انسان فیصلہ لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا*ناکامی سے گھبراتا نہیں بلکہ اسے سیکھنے کا موقع سمجھتا ہے۔* اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی کوشش جاری رکھتا ہے۔ ترجمۂ کنز العرفان:” پھرجب کسی بات کا پختہ ارادہ کرلو تواللہ پر بھروسہ کرو ۔“ (پ 4،اٰلِ عمرٰن: 159)  

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خود اعتمادی اور تکبر بظاہر ایک جیسے لگ سکتے ہیں، مگر ان کے درمیان نیّت، رویّے، اور اَثرات کے اعتبار سے گہرا فرق ہے۔اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ اور اللہ پر توکل ”خود اعتمادی“۔ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا ”تکبر“۔ مثبت، اصلاحی اور تعمیری نیت”خود اعتمادی“۔ منفی، خود پسندانہ اور تحقیر آمیز نیت ”تکبر“۔ خود اعتمادی کا نتیجہ: عزّت، کامیابی اور لوگوں کا اعتماد۔تکبرکا نتیجہ: ذلت، نفرت، اور اللہ کا غضب۔

عملی فرق کیسے پہچانیں؟

 اگر اپنی کامیابی پر شکر ادا کرتے ہیں اور دوسروں کی عزت کرتے ہیں، تو یہ خود اعتمادی ہے۔ اگر دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی بڑائی جتاتے ہیں، تو یہ تکبر ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو خود اعتمادی کی نعمت عطا کرے اور تکبّر سے مَحفوظ رکھے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن


Share