اپنا وقار بنائیے

 اللہ  پاک نے انسان کو باعزت بنایا، اور انسان کی اصل عزت کا معیار تقویٰ قرار دیا۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-

ترجَمۂ کنزالعرفان :  بیشک  اللہ  کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔ ([1])

محترم اسلامی بہنو! اس آیتِ مبارکہ کے اس حصے میں وہ بنیادی اصول بیان کیا جا رہا ہے جو کسی انسان کے لیے شرافت، عظمت اور فضیلت کا اصل ذریعہ ہے اور جس کے سبب اُسے   اللہ  تعالیٰ  کی بارگاہ میں عزت و مرتبہ نصیب ہوتا ہے۔([2])

اس سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ انسان کی حقیقی عزت اور وقار مال، نسل یا شہرت پر نہیں بلکہ دل کی پرہیزگاری، اخلاص اور کردار کی پاکیزگی پر موقوف ہے۔

یاد رکھیے وقار(Dignity) کا مطلب ہے: انسان اپنے گفتار،   کردار، سوچ اور عمل میں سنجیدہ، متوازن اور شائستہ ہو۔ وہ نہ تو کسی پر ظلم کرے، نہ خود کو ذلیل کرے، نہ اپنی عزتِ نفس کو سستے مفاد پر قربان کرے۔ایک مؤمن کو اپنی خودی اور شرافت کا پاس رکھنا چاہیے۔ اپنی عزت کو خواہشات، دنیاوی مفادات یا وقتی لذتوں کے بدلے نہ بیچے۔

اولاد کو باوقار بنانے میں ماؤوں کا کردار

ماؤوں کو چاہیے کہ جب وہ اپنی بیٹیوں کی تربیت کریں تو ان کے اندر وقار اور عزتِ نفس پیدا کرنے کے لیے چار اہم امور کو بطورِ خاص پیشِ نظر رکھیں:

(1)عقائد کی اصلاح پر خصوصی توجہ دیں۔(2)ظاہری اعمال کو درست کرنے کی فکر کریں۔ (3)باطنی صفات کی بہتری اور تزکیۂ نفس کی کوشش کریں۔ (4)اخلاقیات میں بلندی پیدا کرنے پر بھرپور محنت کریں۔یہ چاروں نکات دنیاوی و اُخروی کامیابی کے لیے نہایت مؤثر اور بنیاد فراہم کرنے والے ہیں۔

اگر اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں انسان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، لوگ عزت دیں گے اور دلوں میں جگہ بنے گی۔ مزید یہ کہ اچھے اخلاق  اللہ  پاک کی رضا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنیں گے۔جبکہ اگر اخلاق خراب ہوں، زبان میں کڑواہٹ، رویے میں غرور یا بدتمیزی ہو تو اس سے انسان کی ساکھ گرتی ہے، نہ صرف اپنی عزت خاک میں ملتی ہے بلکہ والدین کی بدنامی اور معاشرتی رسوائی کا سبب بھی بنتی ہے۔ آخرت میں ایسے اخلاق   اللہ  تعالیٰ  کی ناراضی کا موجب بنیں گے، اور حقوق العباد کی پامالی کی صورت میں لوگ آخرت میں مطالبہ کریں گے کہ ان کے حقوق کا حساب لیا جائے۔

بلندیِ عزت و وقار کے اسباب و اوصاف

وقار اور مکمل شخصیت کے نکھار کے لیے درج ذیل چند خصوصیات کو اپنانا بہت مفید ہو سکتا ہے:* اگر کسی معاملے میں آپ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس کا اعتراف کریں، اس سے عزت گھٹے گی نہیں، بلکہ بڑھے گی۔ * زندگی کو آسان بنائیں، تعلقات میں نرمی لائیں، غیر ضروری سختی اور ضد سے گریز کریں۔* لوگوں کو اہمیت دینا سیکھیں۔ اگر کوئی آپ کے پاس آئے تو کھڑے ہو کر اس کا خیر مقدم کریں، نشست پیش کریں۔ یوں آپ نے اگرچہ کسی کو زمین پر جگہ دی، مگر وہ آپ کو دل میں جگہ دے گا۔ یہ رویہ آپ کی اہمیت، عزت اور وقار میں اضافہ کرے گا۔* جب بھی کسی سے بات کریں تو اس کے مقام، مرتبے، عمر اور حالات کو مدِنظر رکھ کر گفتگو کریں۔ہم عموماً اپنی طبیعت، مزاج یا لہجے کے مطابق بات کرتے ہیں، مگر سامنے والے کے احساسات، تجربات اور عمر کا لحاظ ضروری ہے۔* برائی کا جواب بھلائی سے دینا سیکھیں۔ بدلہ لینے والے نہ بنیں، درگزر اور معاف کرنے کو عادت بنا لیں۔ * اللہ  کے بندے بن کر زندگی گزاریں۔جو  اللہ  کے سامنے جھکتا ہے  اللہ  مخلوق کے دلوں کو اس کے لیے جھکا دیتا ہے۔* سچ بولیں *دیانت دار بنیں *کردار کو مضبوط رکھیں *علم و عمل میں سنجیدگی لائیں * اللہ  کے لیے تواضع اختیار کریں حدیثِ پاک میں ہے : جو کوئی  اللہ  پاک کے لیے تواضع اپناتا ہے  اللہ  پاک اسے بلندی عطا فرماتا  ہے۔([3]) *ہر ہفتے، بعد نمازِ عشا مدنی مذاکرہ ضرور دیکھیے۔

مذکورہ  بالا ہدایات پر عمل کی صورت میں  اِن شآء  اللہ   آپ کی شخصیت میں ایسی بہت سی مثبت تبدیلیاں آئیں گی جو معاشرے میں آپ کو ایک عزت دار اور باوقار خاتون بنانے کی ضامن ہوں گی۔

عزت و وقار مجروح کرنے والی باتیں

پیاری اسلامی بہنو! ان باتوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ کچھ باتوں سے بچنا بھی ضروری ہے تاکہ ہمارا دامنِ عزت و وقار گدلا نہ ہو:

* لوگوں کی نفسیات کے خلاف باتیں نہ کریں۔ مثلاً: شادی شدہ عورت بیوہ کے سامنے اپنے شوہر کی تعریفیں کرے، بے اولاد کے سامنے اپنی اولاد کی باتیں کرے،یتیم کے سامنے ماں باپ کے پیار کی باتیں کرے،تو یہ احساسِ محرومی کو جنم دیتی ہیں۔سامنے والا کچھ نہ کہے، لیکن دل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے اور لاشعوری طور پر اس کی نظر میں آپ کی قدر و وقعت کم ہوگی۔* جب ہم مکان بناتے ہیں تو ایسا سوراخ نہیں چھوڑتے جس سے کوئی جھانک سکے،اسی طرح ایک سمجھ دار، صاحبِ عقل خاتون اپنے کردار میں ایسی کمزوری نہیں چھوڑتی کہ کوئی اس کی شخصیت میں جھانک کر عیب نکالے۔* ایسے کاموں سے بچیں جن کا نہ دنیا میں فائدہ ہے نہ آخرت میں۔رسولِ کریم  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: بندے کے اسلام کی خوبصورتی میں سے ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو چھوڑ دے۔([4]) اور اس میں شک نہیں کہ بے فائدہ کاموں میں دیگر فضولیات کے علاوہ سوشل میڈیا کی فضول مصروفیت، موبائل کا بے مقصد استعمال، اور غیر ضروری بات چیت بھی شامل ہے۔خواتین کا اپنی سہیلیوں، رشتہ دار و دیگر متعلقہ خواتین کے ساتھ گھنٹوں گھنٹوں غیر ضروری کالز میں لگے رہنا وقت، توانائی، کردار اور وقار، سب کو ضائع کرتا ہے۔

* غیبت، چغلی، فحاشی، لالچ اور نفرت سے دور رہیں کہ یہ چیزیں بھی انسانی وقار کی قاتل ہیں ۔

یہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ذکر کی گئی ہیں جن کا لحاظ رکھیں تو آپ کی شخصیت نکھرنے لگے گی، آپ کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا۔ پھر جب آپ اپنی ذات کی اصلاح پر توجہ دیں گی تو نہ آپ کو دوسروں کی عیب جوئی کا وقت ملے گا، نہ ہی بے جا تنقید کا رجحان باقی رہے گااور یہ دونوں باتیں  بھی انسان کے وقار کو مجروح کرنے میں بہت عمل دخل رکھتی ہیں ۔

اپنا وقار بنائیےدراصل ایک جامع اور بصیرت افروز پیغام ہے، جو ہمیں دینِ اسلام کی روشنی میں خودداری، عزتِ نفس، وقار اور کردار کی پختگی سکھاتا ہے۔

 اللہ  پاک ہمیں عمدہ اخلاق سے مالا مال فرمائے بلکہ اخلاقِ نبوی کا صدقہ ہمیں عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی  اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن



([1])پ 26، الحجرات: 13

([2])مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ:13،ص1156-جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ:13، ص428ملتقطاً

([3])مسلم، ص 1071، حدیث: 6592

([4])ترمذی، 4 / 142حدیث : 2324


Share