Our new website is now live Visit us at https://alqurankarim.net/

Home Al-Quran Surah Al Anam Ayat 122 Translation Tafseer

رکوعاتہا 20
سورۃ ﷱ
اٰیاتہا 165

Tarteeb e Nuzool:(55) Tarteeb e Tilawat:(6) Mushtamil e Para:(07-08) Total Aayaat:(165)
Total Ruku:(20) Total Words:(3442) Total Letters:(12559)
122

اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(122)
ترجمہ: کنزالایمان
اور کیا وہ کہ مُردہ تھا تو ہم نے اُسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں


تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا:اور کیا وہ جو مردہ تھا۔} اس آیت میں مردہ سے کافر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کفر دلوں کے لئے موت جبکہ ایمان زندگی ہے اور نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نور سے کتابُ اللہ یعنی قرآن مراد ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۱۰۵)

کفر اور جہالت کی مثال

            اس آیتِ کریمہ میں کفر اور جہالت کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ مومن اور کافر کا حال یہ ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اُس مردہ کی طرح ہے جس نے زندگی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی طرف راہ پاتا ہے اور کافر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور اُن سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں ہی مبتلا رہے۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافر کے لئے عام ہیں اگرچہ اس کے شانِ نزول کے بارے میں روایتیں مختلف ہیں ، ان میں سے تین روایتیں درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے قول کے مطابق اس آیت کا شا نِ نزول یہ ہے کہ’’ ابوجہل نے ایک روز سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کوئی نجس چیز پھینکی ۔ اس دن حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شکار کو گئے ہوئے تھے، جس وقت وہ ہاتھ میں کمان لئے ہوئے شکار سے واپس آئے تو انہیں اِس واقعہ کی خبر دی گئی، گو ابھی تک وہ دولتِ ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے لیکن یہ خبر سنتے ہی طیش میں آگئے اور ابوجہل کے پاس پہنچ کر اسے کمان سے مارنے لگے ۔ ابوجہل عاجزی اور خوشامد کرتے ہوئے کہنے لگا: اے ابویعلیٰ! کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیسا دین لائے اور اُنہوں نے ہمارے معبودوں کو برا کہا اور ہمارے باپ دادا کی مخالفت کی اور ہمیں بدعقل بتایا ہے۔ اس پر حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’تم جیسا بدعقل کون ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر پتھروں کو پوجتے پھر رہے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفٰے (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اللہ کے رسول ہیں۔اسی وقت حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسلام لے آئے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

(2)…حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔

(3)… حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۵۲)

تو حضرت امیر حمزہ یا حضرت عمر یا حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور یونہی ہر ایمان لانے والے کا حال اس کے مشابہ ہے جو مردہ تھا ایمان نہ رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو روحِ ایمان عطا فرما کر زندہ کر دیا اور باطنی نور عطا فرمایا کہ جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اور ابوجہل اور اس جیسوں کی حالت یہی ہے کہ وہ کفر وجہل کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور وہ ان تاریکیوں سے نکلنے والا بھی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ گنہگار مومن اپنے گناہ کو اچھا نہیں سمجھتا اس لئے وہ مومن رہتا ہے لیکن کافر اپنی بد کرداریوں کو اچھا جانتا ہے اور ان پر ناز کرتا ہے اس لئے وہ لائقِ مغفرت نہیں۔

نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی برکت:

            حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ والے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت اور تائید و نصرت بہت خیروخوبی کا ذریعہ بنتی ہے جیسے یہاں ان کے لئے ایمان کی دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :کسی آدمی نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی: قیامت کب آئے گی؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تم نے ا س کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے؟ اس نے عرض کی: میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے ا س کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’تم ان کے ساتھ ہو جن سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہمیں اتنا کسی چیزنے خوش نہیں کیا جتنا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس فرمان نے کیا کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے محبت کرتا ہوں لہٰذا میں امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں ان کے ساتھ رہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب مناقب عمر بن الخطاب۔۔۔ الخ، ۲ / ۵۲۷، الحدیث: ۳۶۸۸)

Reading Option

Ayat

Translation

Tafseer

Fonts Setting

Download Surah

Related Links