روزے کی قبولیت کے ذرائع

نئے لکھاری

روزے کی قبولیت کے ذرائع

بنتِ شاہنواز عطاریہ(درجہ رابعہ ، جامعۃ المدینہ ، واہ کینٹ)

ماہنامہ اپریل 2021

رسولِ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ انہیں روزہ سے  سوائے بھوک کے کچھ نہیں ملتا اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے کہ انہیں جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں۔

 (ابن ماجہ ، 2 / 320 ، حدیث : 1690)

روزہ کیا ہے؟ روزہ عرفِ شرع میں مسلمان کا عبادت کی نیت سے صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے جماع سے باز رکھنا ہے۔ (فتاوی ھندیۃ ، 1 / 194)

کسی بھی عبادت کو کرنے کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہئے ، اور جب

تک وہ عبادت مقبول نہ ہو رضائےالٰہی حاصل نہیں ہوتی۔ روزہ ایک  عظیم  عبادت ہے اور اس کو مرتبۂ قبولیت تک پہنچانے کےلئے  کچھ اُمور کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔

گناہوں سےبچنا : حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : روزہ سِپر ہے ، جب تک اسے پھاڑا نہ ہو۔ عرض کی گئی ، کس چیز سے پھاڑا جائے گا؟ ارشاد فرمایا : جھوٹ یا غیبت سے۔

(معجم اوسط ، 3 / 264 ، حدیث : 4536)

بیہودہ باتوں سےبچنا : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ، روزہ تو یہ ہے کہ لغو و بیہودہ باتوں سے بچا جائے۔ (مستدرک ،  2 / 67 ، حدیث : 1611)

نیّت اچھی ہو : حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لئے رمضان کا روزہ رکھے گا ، اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (بخاری ، 1 / 658 ، حدیث : 2009)

متفرقات : نیز گناہوں سے بچے اور عبادات بجالائے ، ہر ایسی چیز سے بچے کہ جو روزے کی نورانیت ضائع کرنےوالی ہے ، اعتکاف کرے ، کثرت سے سجدے کرے ، ذکرُاللہ کرے ، کثرت سے درودِ پاک پڑھے ، صدقہ و خیرات کرے ، لوگوں سے اچھا سلوک کرے ، اپنے اخلاق اچھے کرے ، علمِ دین سیکھے اور سکھائے ، قراٰنِ پاک پڑھے اور پڑھائے کہ یہ کام اللہ کی رضا کے ہیں۔ غیبت ، جھوٹ ، چغلی ، حسد ، تکبر ، ریاکاری ، خود پسندی ، حبِّ جاہ ، وعدہ خلافی اورظلم سے بچے۔ یادرکھئے! روزہ وہی کام آئے گا جو قبول ہوگا ، اپنا ذہن اس طرح بنائے کہ اگر میرا روزہ گناہوں سے بھرا ہوا ہوگا ، پھر جب یہ میرے رب کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو میرا رب اس پر کیا حکم فرمائے گا!

میرے اعمال ایسے ہوں کہ میرا محبوب مجھ سے راضی ہو ، میرے اعمال ایسے نہ ہوں کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض ہوجائے۔ دنیا کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم کسی کے سامنے کم تر لباس میں آنا پسندنہیں کرتے ، کسی کوتحفہ دیں تو اچھا دینے کی کوشش کرتےہیں کہ اگر تحفہ اچھا نہ ہوا تو سامنے والا کیا سوچے گا۔ مگریہاں معاملہ کیاہے؟

اللہ پاک کو ہماری عبادات کی ضرورت نہیں ، مگریہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم اپنے رب کی عبادت کیسی کرتےہیں ، فرشتے ہمارےنماز ، روزے سیاہ کپڑوں میں لپیٹ کرلےجاتےہیں یا روشن اور چمک دار کپڑوں میں۔ یہ ہمارا امتحان ہے اور درحقیقت یہ ہمارے عشق کا امتحان ہے کہ آیا ہمارے عشق کے دعوے صرف گفتار میں ہیں یا کردار و عمل  میں بھی ہیں۔ فیصلہ خود کریں!


Share