شان ِحبیب بزبانِ حبیب(قسط:04)

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

شانِ حبیب بزبانِ حبیب(قسط : 04)

* مولانا ابو الحسن عطاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2021

شانِ عربیت :

(12)اَنَا اَعْرَبُكُمْ ، اَنَا قُرَشِيٌّ ، وَاسْتُرْضِعْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ یعنی میں عربی میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں ، میں قریشی ہوں اور میری رضاعت بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے۔ [1]

عربی زبان دنیا کی سب سے زیادہ لطیف اور گہری زبان ہے ، اس کی بےشمار خصوصیات ہیں ، قبیلۂ قریش اور بنو سعد عربیت میں ممتاز مقام رکھتے تھے اور رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا تعلق بھی انہی سے تھا ، یعنی آپ خاندانِ قریش سے تھے اور آپ کا بچپن قبیلۂ بنوسعد میں گزرا تھا۔ ایک  موقع پر یارِ غار جنابِ صدیقِ اکبر  رضی اللہُ عنہ  جو كہ بغرضِ تجارت عرب و عجم کے کئی سفر کرچکے تھے ، عرض کرنے لگے : یارسولَ اللہ! میں نے آپ سے بڑھ کر فصیح کوئی نہیں دیکھا ، تو رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میں فصیح کیوں نہ ہوں حالانکہ میں قریش سے ہوں اور میری رضاعت بنو سعد میں  ہوئی یعنی دودھ پینے کی عمر بنو سعد میں گزری ہے۔ [2]

آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فصاحت و بلاغت میں کئی امتیازی خصوصیات ہیں۔ عربی فصاحت و بلاغت کی تاریخ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوا جو آپ سے زیادہ فصیح و بلیغ ہو۔ آپ کے  کلام میں ایسی تراکیب موجود  ہیں جو قلیل لفظ کے ساتھ ساتھ کثیر معنی کا حسین گلدستہ ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کوزے میں دریا بند ہے۔ گفتگو ایسی صاف کہ کسی قسم کا کوئی ابہام یا مغالطہ نہیں ، اور سب سے بڑھ کر تو یہ  کہ سننے والے کے دل میں  تشنگی  باقی نہیں رہتی۔

تفسیرِ صراطُ الجنان میں شیخ عبدُالحق محدّث دہلوی  رحمۃُ اللہِ علیہ   کے حوالے سے نقل ہے : حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی فصاحت ، کلام میں جامع الفاظ ، منفرد اظہارِ بیان ، حیرت انگیز احکامات اور فیصلے اتنے زیادہ ہیں کہ شا ید ہی کوئی غور و فکر کرنے والا شخص ان کا اِحاطہ کر سکے ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصاف کا بیان اور ان کے بیان کا زبان کے ساتھ اظہار ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ پاک نے حضورِ اقدس  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے زیادہ فصیح اور شیریں بیان دوسرا پیدا ہی نہیں فرمایا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نے عرض کی : یارسولَ الله  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! نہ تو آپ کہیں باہر تشریف لے گئے اور نہ آپ نے لوگوں میں نشست و بَرخاست رکھی ، پھر آپ ایسی فصاحت کہاں سے لائے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا : “ حضرت اسماعیل علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی لغت اور اصطلاح جو ناپید اور فنا ہو چکی تھی ، اسے حضرت جبریل علیہ السّلام میرے پاس لے کر آئے ، جسے میں نے یاد کر لیا ہے۔ نیز آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : ’’میرے رب نے مجھے ادب سکھایا تو میرے ادب کو بہت اچھا کر دیا۔ “ عربیت کا وہ علم جو عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت سے تعلق رکھتا ہے اسے ادب کہتے ہیں۔ [3]

علّامہ عبد المصطفیٰ اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زبانِ اقدس وحیِ الٰہی کی ترجمان اور سر چشمۂ آیات و مَخزنِ معجزات ہے ، اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد ِاِعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فُصحاء و بُلغاء آپ کے کلام کو سُن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ [4]

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  عرض کرتے ہیں :

تِرے آگے یوں ہیں دَبے لَچے فُصَحا عرب کے بڑے بڑے

کوئی جانے منھ میں زباں نہیں ، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

وہ زباں جس کو سب کُن کی کنجی کہیں

اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام

اس کی پیاری فصاحت پہ بیحد درود

اس کی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام[5]

 یہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے کلام ہی کی شان ہے کہ 14سو سال سے عُلما ، فقہا ، محدثین ، شارحین اس عربی محبوب کے کلام کی شروحات لکھتے آرہے ہیں  لیکن  ان کا کلام ایسا ہے کہ معانی کے سمندر کی لہریں مسلسل ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔ آپ کے معانی و تفہیم  کے خزانوں پر مشتمل  کلمات کو جَوَامِعُ الْکَلِم بھی کہا جاتا ہے۔ علامہ بدرالدین عینی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : جوامع الکلم اس کلام کو کہتے ہیں جس کی عبارت مختصر اور معانی میں بہت تفصیل ہو۔ اللہ پاک نے سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   کے لئے ایک یا دو جملوں میں ان مَضامینِ کثیرہ کو جمع فرما دیاجو آپ سے پہلے متعددآسمانی کتابوں میں لکھے ہوئے تھے۔ [6]

یہ جوامع الکلم آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عظمتِ نبوت کا اظہار ہیں  اور یہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے خصائصِ عظیمہ میں سے ہیں جوآپ کے علاوہ دیگر انبیاء کو عطا نہ ہوئے جیسا کہ  آپ کا فرمان ہے : اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِم یعنی مجھے جَوَامِعُ الْکَلِم عطا کئے گئے۔ [7]

آپ کی فصاحت و بلاغت کے چند حسین  نمونے پیش کئے جارہے ہیں انہیں جوامع الکلم بھی کہا جاتاہے :

ایک صحابی نے حاضرِ بارگاہ ہو کر عرض کی کہ ایسی نصیحت

فرمائیں جس پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزاردوں اور زیادہ نہ ہو کہ کہیں بھول نہ جاؤں تو شہنشاہِ فصاحت و بلاغت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے صرف دو کلمے ارشاد فرمائے : “ لَا تَغْضَبْ “ یعنی تو غصہ مت کر۔ [8]

ایک موقع پر ایک شخص نے عرض کی : یارسولَ اللہ! مجھے کوئی وصیت فرمائیے ، تو  فرمایا : “ لَا تَغْضَبْ “  اس شخص کا کہنا ہے کہ جب رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہ فرمایا تو میں نےوہیں غور و فکر کیا ، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ غصہ ہر شَر کو جمع کر دیتا ہے یعنی غصہ بُرائیوں کا مجموعہ ہے۔ [9]

ايك موقع  پر حقیقی انسانیت پر عمل   کرنے کا درس ان فصیح و بلیغ الفاظ میں فرمایا : “ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ “ یعنی جو مخلوق پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ [10]

حکمرانوں ، نگرانوں اور ذمّہ داروں کے لئے صرف چار کلمات میں ایسی گہری نصیحت ارشاد فرمائی کہ اگر حکمران و نگران طبقہ اس پر عمل کر لے تو  ہمیشہ معزز رہے ، ارشاد فرمایا : “ سَيِّدُ القَوْمِ خَادِمُهُم “ یعنی قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ [11]

ايك  موقع پر حسنِ معاشرت ، حسن تجارت ومعاشیات ، حسنِ حکومت غرض کہ ہر ہر شعبۂ زندگی کے لئے ایک عظیم نصیحت  صرف ایک مختصر سے جملے میں ارشاد فرمادی : “ لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ “ یعنی نہ نقصان دو نہ نقصان اٹھاؤ۔[12]

دنیا و آخرت میں سلامتی کا ایک عظیم نسخہ صرف دو کلمات میں ارشاد فرمادیا : “ اَسْلِمْ تَسْلَمْ “ اسلام قبول کرلو ، سلامت رہو گے۔ [13]

 اسی طرح رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی فصاحت و بلاغت کے کثیر شاہکار کلمات سے  کتبِ حدیث و سیرت بھری ہوئی ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] سیرت ابن ہشام ، ص68

[2] سیرت حلبیہ ، 1 / 131

[3] مدارج النبوہ فارسی ، 1 / 10

[4] سیرتِ مصطفیٰ ، ص575

[5] حدائقِ بخشش ، ص108 ، 302

[6] عمدۃ القاری ، 10 / 294 ، تحت الحدیث : 2977

[7] مسلم ، ص210 ، حدیث : 1167

[8] مؤطا امام مالک ، 2 / 405 ،  حدیث : 1726

[9] مسند احمد ، 9 / 57 ، حدیث : 23231

[10] بخاری ، 4 / 103 ، حدیث : 6013

[11] كنزالعمال ، جز8 ، 5 / 18 ، حدیث : 24829

[12] ابن ماجہ ، 3 / 106 ، حدیث : 2341

[13] ابن ماجہ ، 1 / 67 ، حدیث : 87


Share

Articles

Comments


Security Code